بھارت کی لوک سبھا اور ودھان سبھائوں کے لیے تسلسل کے ساتھ چنائو ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بھارتی جمہوریت کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ یہاں جمہوریت اپنی پٹڑی پر قائم اور چلتی رہتی ہے۔ لیکن ان میں جو اناپ شناپ خرچ ہوتا ہے‘ میرے خیال میں وہ ہی اصلی بد عنوانی کی جڑ ہے۔ چنائو لڑنے کے نام پر لیڈر لوگ بے شمار پیسہ جٹاتے ہیں۔ اتنا جٹا لیتے ہیں کہ اگر وہ چنائو ہار جائیں تو بھی پانچ برس ان کا ٹھاٹ باٹ بنا رہتا ہے اور وہ سکون سے زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ انہیں پیسے کے حوالے سے کہیں بھی اور کبھی بھی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بھارت میں کئی لیڈر تو ایسے ہیں جو ایک ہی چنائو میں اپنی کئی نسلوں کے لئے انتظام کر لیتے ہیں۔ اگر وہ چنائو جیت کر سرکار بنا لیں تو اپنے مال دار اَن داتائوں پر مہربانیاں کرتے رہتے ہیں۔ اور ان کے لیے سارے قانون قاعدے طاق پر رکھ کر انہیں جم کر پیسہ بنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یعنی خود بھی عیش کرتے ہیں اور ان کو بھی جی بھر کے عیش کراتے ہیں۔ یہ بڑے پیسے والوں کے لیے بیرونی کمپنیوں سے سانٹھ گانٹھ کرتے ہیں تاکہ اس بد عنوانی کا سراغ نہ مل سکے۔ جیسے سویڈن سے بوفورس‘ جرمنی سے سمندری کشتیاں اور فرانس سے رافیل جہازوں کے سودے ہیں۔ ایسے سودوں میں جب بھارتی لیڈر پیسے کھاتے ہیں تو افسر پیچھے کیوں رہیں اور فوجی اپنا کمیشن کیوں چھوڑیں؟ چنانچہ سب جی بھر کے لوٹتے ہیں۔ جب نوکر شاہ اور فوج کے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے بد عنوانی کرتے ہیں تو چپڑاسی لیول تک کے سبھی ملازمین کو رشوت خوری کا لائسنس مل جاتا ہے اور بلا کسی ہچکچاہٹ کے وہ بھی اسی کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ بڑے بڑا ہاتھ مارتے ہیں تو چھوٹے ملازمین چھوٹی موٹی آسامیاں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بھارت میں بد عنوانی کے بنا آج چناوی سیاست ہو ہی نہیں سکتی۔ اس پر روک لگانے کی مانگ گزشتہ دنوں آل پارٹیز بیٹھک میں کی گئی۔ بھاجپا کے علاوہ چنائو کمیشن سے بھی پارٹیوں نے کہا ہے کہ آپ امیدواروں کے خرچے پر بھی روک لگائیے۔ لوک سبھا امیدوار چالیس لاکھ سے ستر لاکھ روپے اور ودھان سبھا امیدوار 22 سے 54 لاکھ روپے تک خرچ کر سکتے ہیں‘ لیکن پارٹیاں چاہیں تو ایک ایک امیدوار پر کروڑوں روپے خرچ کر سکتی ہیں۔ سبھی پارٹیاں کرتی ہیں‘ اربوں روپے خرچ! اور ہوتا یہ ہے کہ اوسطاً امیدوار چنائو کمیشن کو جو رپورٹ دیتے ہیں‘ اس میں وہ اپنا خرچ اصل میں ہوئے خرچے سے آدھا ہی دکھاتے ہیں۔ سب مہاتما گاندھی بنے رہتے ہیں۔ 1971 ء میں دلی کے لیے لوک سبھا کا چنائو ہارے ہوئے جن سنگھی امیدوار کنور لعل گپتا نے جیتے ہوئے کانگریسی امیدوار امر ناتھ چاولہ کے خلاف زیادہ خرچ کا مقدمہ چلایا تھا۔ گپتا جیت گئے‘ تب اندرا گاندھی نے چناوی قانون میں ترمیم کروا کر یہ قاعدہ کر دیا تھا کہ کوئی پارٹی‘ یا کوئی اتحاد یا کوئی دوست کسی امیدوار پر کتنا ہی خرچ کرے‘ وہ چنائو خرچ نہیں مانا جائے گا۔ یہ خرچ ہی بھارت میں بد عنوانی کا ایک پیڑ بن گیا ہے۔ اس سے لوگوں کو کھل مل گئی کہ وہ چنائو میں جتنا چاہیں خرچ کریں اور جب حساب دینے کا وقت آئے تو یہ کہہ دیں کہ یہ میں نے نہیں کیا‘ یہ تو میرے فلاں دوست نے کیا۔ آج کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا بھاجپا بھی اسی پیڑ کو سینچنے میں لگی ہوئی ہے؟ اور اس سوال کا جواب کون دے گا کہ اس نے بیس بیس ہزار تک کے بے نامی بانڈ کیوں نکالے ہیں؟
مالدیپ کے خلاف فوجی کارروائی؟
بھارت کے پڑوسی ملک مالدیپ میں 23 ستمبر کو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس وقت عبداللہ یامین وہاں صدر ہیں۔ بھارتی قیادت کا خیال ہے کہ اپنے گزشتہ پانچ برس کے دوران وہ تقریباً تانا شاہ بن گئے ہیں۔ ہر کام وہ اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کے خلاف چنائو لڑنے والے امیدوار ابو محمدصالح نے سری لنکا جا کر یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مالدیپ میں تین ہفتے بعد ہونے والے چنائو صحیح طریقے سے نہیں ہوں گے‘ ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تیاری کافی عرصہ پہلے سے چل رہی ہے۔ اس پر بھاجپا کے ایم پی سوامی سبرامنیم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مالدیپ کے چنائو میں دھاندلی ہو تو بھارت کو اپنی فوج بھیج دینی چاہیے۔
اس حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں کہ مودی سرکار میں سوامی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اسی وجہ سے بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس بیان کو ان کی 'ذاتی رائے‘ بھی قرار دے دیا ہے‘ جس کا دوسرا مطلب یہ اعلان کرنا ہے کہ سوامی نے جو کچھ کہا بھارتی حکومت کے موقف کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے‘ لیکن اس بیان پر مالدیپ کے صدر یامین کا پارہ گرم ہو گیا ہے۔ انہوں نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مالدیپ کے خارجہ سیکرٹری احمد نے ہمار ے سفارت کار اکھلیش مشرا کو بلا کر اپنی نا خوشی کا اظہار کیا‘ اور بھارت سرکار کو اس حوالے سے ایک سخت خط جاری کیا ہے۔ احمد نے سارک ملکوں کے سفیروں کو بلا کر بھی شکایت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یامین کے خلاف بھارت کوئی فوجی کارروائی نہیں کر سکتا‘ نہ اسے کرنی چاہئے۔ اگر کرے گا تو اس کی عالمی لیول پر شدید مذمت کی جائے گی‘ کیوں کہ اسے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت مانا جائے گا‘ جبکہ کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت عالمی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ مالدیپ کے سابق صدر نشید‘ بھارت پریمی تھے۔ جب 2012ء میں ان کی حکومت کا تختہ پلٹ ہوا‘ تب بھی بھارت نے مداخلت نہیں کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اپنے ایک حامی کی حکومت بچانے کے لئے اس وقت اگر بھارت نے مالدیپ کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کی تھی تو وہ اب کیوں کرے گا؟ فجی میں اپنے بھارت کے مہندر چوہدری کی سرکار کا جب تختہ پلٹ ہوا تھا تو تب بھی اٹل جی نے فوجی مداخلت نہیں کی تھی تو پھر وہی سوال ہے کہ بھارت یہ دوسروں کا سر درد کیوں مول لے گا؟ ہاں‘ اگر چنائو کے بعد مالدیپ میں لا قانونیت پھیل جائے اور عوام مانگ کریں تو میرے خیال میں بھارت اپنی فوج بھیجنے پر غور کر سکتا ہے۔ یامین نے نہ صرف سابق صدور میں نشید اور قیوم‘ جو کہ اپنے بڑے بھائی بھی ہیں‘ گرفتار کر لیا تھا‘ بلکہ سپریم کورٹ کے ججوں‘ بڑے بڑے سرکاری افسروں اور لیڈروں کو بھی اندر کر رکھا ہے۔ چین سے انہوں نے پوری سانٹھ گانٹھ کر رکھی ہے اور اس کے ساتھ تعلقات کو مزید بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ نریندر مودی پچھلے سوا چار سالوں میں تقریباً سبھی پڑوسی ممالک میں جا چکے ہیں‘ مالدیپ کے سوا! اور وہ مالدیپ کیوں نہیں گئے‘ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ میرے خیال میں مالدیپ کو سبق سکھانے کی ضرورت تو ہے لیکن ستمبر میں وہاں فوج بھجوانا مناسب نہیں ہو گا۔
یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بھارت میں بد عنوانی کے بنا آج چناوی سیاست ہو ہی نہیں سکتی۔ اس پر روک لگانے کی مانگ گزشتہ دنوں آل پارٹیز بیٹھک میں کی گئی۔ بھاجپا کے علاوہ چنائو کمیشن سے بھی پارٹیوں نے کہا ہے کہ آپ امیدواروں کے خرچے پر بھی روک لگائیے۔ لوک سبھا امیدوار چالیس لاکھ سے ستر لاکھ روپے اور ودھان سبھا امیدوار 22 سے 54 لاکھ روپے تک خرچ کر سکتے ہیں‘ لیکن پارٹیاں چاہیں تو ایک ایک امیدوار پر کروڑوں روپے خرچ کر سکتی ہیں۔