"DVP" (space) message & send to 7575

پومپیو کا ایجنڈا کیا تھا؟

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع جیمز میٹس نے چند روز پہلے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ سفارتی تعلقات کے حوالے سے کافی اہم تھا۔ امریکی بھارت کو اپنے جنگی ساز و سامان کا حصہ دار مانتے ہیں۔ امریکہ اسے لگ بھگ سوا لاکھ کروڑ روپے کے ہیلی کاپٹر بھی بیچنا چاہتا ہے اور بھارت پر یہ دبائو بھی ڈالنا چاہتا ہے کہ وہ ایران اور روس کے خلاف امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائے‘ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے ان ملکوں کے خلاف جو پابندیاں لگائی ہیں‘ بھارت بھی ان پر عمل درآمد کرے اور ایران سے تیل لینا اور روس سے میزائل لینا بند کرے۔ یہ بھی کہ امریکہ ان ممالک کے خلاف جو مزید اقدامات کرے‘ بھارت ان میں بھی امریکہ کا ساتھ دے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کیوں مانے گا‘ ایسی بات؟ کیوں تسلیم کرے کا ایسے احکامات؟ کیوں بنائے خود کو امریکہ کا نام نہاد اتحادی؟ اس لیے یہ خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے بیچ جو جنگی ساز و سامان بنانے والے معاہدے کی بات دو برس سے چل رہی ہے‘ وہ شاید انجام تک نہیں پہنچے گی۔ ممکنہ طور پر درمیان میں ہی کہیں ختم ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں امریکی عہدے داروں نے بھارت کو یہ لالچ بھی دی ہو کہ انہوں نے پاکستان کو تیس کروڑ ڈالر کی فوجی امداد بھی بند کر دی ہے اور اسے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘ اس لیے اب بھارت‘ امریکہ کا ساتھ دے اور اس کی بات مانے‘ لیکن بھارت کو پتا ہے کہ امریکہ جو بھی قدم اٹھا رہا ہے‘ وہ اپنے فائدے کے لیے اٹھا رہا ہے‘ بھارت کے لیے نہیں۔ بھارت کا فائدہ چلتے راستے ہو جائے یہ اور بات ہے۔ دہشت گردوں کو پالنے پوسنے کی ساری ذمہ داری امریکہ کی ہے۔ سوویت یونین اور افغانستان سے لڑنے کے لیے امریکہ نے جو گروہ تیس برس پہلے کھڑے کئے تھے‘ وہی اب بھارت اور افغانستان کے لیے سر درد بنے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کو بھی نہیں بخش رہے ہیں۔ پاکستان کی اکانومی بھی خستہ حال ہے‘ جس کی ایک وجہ وہاں ہونے والی دہشت گردی بھی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ان معاملات کو سدھارنے کے لیے نئی شروعات کر رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ٹرمپ تھوڑا دور اندیشی کا تعارف دیں‘ اپنی زبان پر ضبط رکھیں اور پاکستان کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش کریں کہ دہشت گردوں کے خلاف کمر کس لے۔ اگر دہشت گردی ہزار برس بھی چلے گی تو نہ تو افغانستان میں امن ہو سکتا ہے اور نہ ہی کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ پاکستان سے ہوتے ہوئے بھارت آئے تھے۔ پاکستان میں ان کی ملاقات اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی اور دفتر خارجہ کے عہدے داروں سے ہوئی تھی۔ بعد میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بھی ان کی ملاقات ہوئی مگر وہ رسمی سی ملاقات تھی باضابطہ ملاقات وزیر خارجہ کے ساتھ ہی تھی۔ امریکہ کی موجودہ سرکار چونکہ پاکستان کے خلاف بہت باتیں کر چکی‘ پاکستان کی دفاعی امداد کو بھی بند کر دیا گیا ہے‘ اس لحاظ سے امریکہ اور پاکستان کے موجودہ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ اس حقیقت کو دوسری نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی طرف سے اپنا رخ پھیر لیا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب امریکہ اور پاکستان دو اہم اتحادی کہے جاتے تھے‘ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ پاکستان کا انحصار امریکہ پر کم ہوتا جا رہا ہے‘ وہ اس خلا کو چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھا کر پورا کرنے کا سوچ رہا ہے اور اس سلسلے میں کچھ عملی اقدامات کئے بھی جا چکے ہیں۔ 
کابل میں پاک بھارت تعاون؟؟ 
پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان میں بھارت کا کوئی رول ہو۔ اس مدعہ پر امریکہ سے اس کا پکا فرق ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی جمہوریت اور اس کے تعمیرات میں بھارت کا رول اہم ہو۔ اس پالیسی کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً ایک سال پہلے افغانستان کے بارے میں اپنے ملک کی نئی حکمتِ عملی دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے کیا تھا۔ اب سے تیس پینتیس برس پہلے امریکہ بھی یہی چاہتا تھا‘ جو پاکستان چاہتا ہے‘ یعنی یہ کہ بھارت افغانستان میں دخل اندازی نہ کرے۔ لیکن ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت نے افغانستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے اب تک پندرہ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر دیے ہیں‘ اور زرنج دلارام سڑک کی تعمیرات میں اس کے درجنوں کاریگروں کی قربانی ہوئی ہے۔ بھارت نے افغانستان میں ہسپتال‘ سکول‘ بجلی گھر‘ نہریں‘ ایوان کی بلڈنگ سمیت اتنے تعمیراتی کام کیے ہیں کہ یہ ہر ایک افغان کی آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے۔ بھارت کے سینکڑوں ڈاکٹروں‘ انجینئرز‘ ٹیچرز‘ سفیروں وغیرہ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر افغانوں کی خدمت کی ہے۔ مگر دوسری جانب پاکستان کا افغانستان کی تعمیر اور ترقی میں کردار بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جتنی خدمت پاکستان نے افغانوں کی‘ کی ہے‘ کسی اور ملک نے نہیں کی۔ پاکستان نے تین‘ چار دہائیوں سے دسیوں لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ افغانستان کی بیرونی درآمدات کے لیے بھی پاکستان کی بندرگاہ ہی اب تک اہم ترین ذریعہ رہی ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے مابین بعض معاملات پر سرد مہری بھی بنی رہتی ہے مگر کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کسی دیگر ہمسایہ ملک کے مقابلے میں زیادہ اہم رہا ہے اور اب بھی ہے۔ نہ ایران اور نہ ہی وسط ایشیائی ریاستوں میں سے کوئی افغان شہریوں کو وہ حق فراہم کرنے کے سلسلے میں اس قدر قربانی دینے پر تیار ہو سکتا ہے جتنی کہ پاکستان افغانستان کے لیے دیتا چلا آیا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ ان سہولتوں کو اچھے پڑوسی کا فرض بھی کہہ سکتے ہیں‘ مگر یہ ماننے کی بات ہے کہ پاکستان افغانستان کے لیے اب تک بہت کچھ قربان کر چکا ہے۔ حتٰی کہ اس نے افغانستان کی کئی مواقع پر مالی مدد بھی کی‘ حالانکہ اس کی اپنی معیشت مسائل کا شکار تھی۔ گزشتہ پچاس برسوں میں افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ‘ سبھی صدور اور وزرائے اعظم سے میری بات ہوتی رہی ہے اور فارسی بولنے کے سبب عام افغانوں سے بھی میری گفتگو ہوتی رہی ہے۔ میں مکمل بھروسے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان اور بھارت مل کر افغانستان میں کام کریں تو پورے جنوبی ایشیا کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ پاکستان کے کئی صدرو اور وزرائے اعظم کو میں نے کئی بار کابل میں پاک بھارت تعاون کے فائدے گنوائے تو وہ میری بات سے متفق ہوئے‘ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب افغانستان میں بھارت کے کردار کو بمقابلہ پاکستان بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بھارت کے وزرائے اعظم کو بھی اس کے عمل پر کچھ نہ کچھ حجاب رہا‘ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج جب پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے نیویارک میں ملیں گی‘ تب وہ چاہیں تو پاکستان کو اس عظیم پراجیکٹ کے لیے تیار کر سکتی ہیں۔

بھارت کے سینکڑوں ڈاکٹروں‘ انجینئرز‘ ٹیچرز‘ سفیروں وغیرہ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر افغانوں کی خدمت کی ہے۔ مگر دوسری جانب پاکستان کا افغانستان کی تعمیر اور ترقی میں کردار بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جتنی خدمت پاکستان نے افغانوں کی‘ کی ہے‘ کسی اور ملک نے نہیں کی۔ پاکستان نے تین‘ چار دہائیوں سے دسیوں لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ افغانستان کی بیرونی درآمدات کے لیے بھی پاکستان کی بندرگاہ ہی اب تک اہم ترین ذریعہ رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں