"DVP" (space) message & send to 7575

پپو اور گپو کی سیاست

تین طلاق کے بل کو قانون کی شکل دینے کے لیے سرکار نے بل پاس کر دیا۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ سرکار کو ایسی کیا جلدی پڑی ہوئی تھی کہ اس نے بل جاری کر دیا؟ اسی سوال کے ساتھ ساتھ لگے ہاتھ لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کو ہندوتوا کے نظریے کو پتلا کرنے کی ضرورت ابھی ہی کیوں آن پڑی؟ اسی موقع پر ایودھیا پر انہوں نے دو کتابوں کا افتتاح کیا؟ کیا سبب ہے کہ ان کتابوں کے افتتاح کے موقع پر کسی عالم کی بجائے بھاگوت کے ساتھ وزیر داخلہ اور بھاجپا کے صدر امیت شاہ ہی بولے؟ ان سب اٹ پٹے کاموں کی تشریح لوگ یوں کر رہے ہیں کہ یہ دسمبر میں ہونے والے صوبوں کے چنائو کی تیاری ہے اور اس کا فائدہ بھاجپا 2019 ء کے لوک سبھا چنائووں میں بھی اٹھانا چاہتی ہے۔ یہ الزام درست بھی ہو تو اس میں برائی کیا ہے؟ بھاجپا ایک سیاسی پارٹی ہے۔ اسے چنائو جیتنا ہے۔ اس کے لیے اسے جو بھی ہتھکنڈا اپنانا پڑے گا‘ وہ اپنائے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ترقی کا مدعہ دری کے نیچے سرک گیا ہے اور بھاجپا کو اب گرم گرم مدعوں کی تلاش ہے‘ لیکن یہاں میں اتنا کہہ دوں کہ نریندر مودی کو ترقی کے مدعہ پر جیت نہیں ملی تھی۔ اس جیت کے پیچھے کانگریس کی بد عنوانی تھی اور لیڈر شپ کی کمی تھی۔ اگر اس وقت مودی کے پاس کوئی مدعہ نہیں ہے تو اپوزیشن کے پاس کون سا مدعہ ہے؟ سچائی تو یہ ہے کہ بھارت کی آج کی سیاست بالکل دیوالیہ ہے۔ ملک میں نہ تو کوئی لیڈر ہے نہ ہی پالیسی ہے۔ ہاں‘ ایک دوسرے پر بیکار سے بیکار الزامات ضرور اچھالے جا رہے ہیں۔ راہول گاندھی اب مودی کے لیے انہیں الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں (گلی گلی میں چور) جو 1986ء میں ان کے محترم والد صاحب راجیو گاندھی کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ راہول کو مسخرہ شہزادہ کہا جا رہا ہے۔ راہول کے مخالف لوگ اسے یعنی راہول کو ''پپو‘‘ کہہ رہے ہیں تو مودی کو 'گپو‘ کہہ رہے ہیں۔ سب سے بڑی حزبِ اختلاف کی پارٹی کے لیڈر کو لوگ 'نادان‘ بتا رہے ہیں تو وزیر اعظم کو گپیں ہانکنے والا کہہ رہے ہیں۔ بھارت کے عوام کیا کریں؟ وہ مایوس ہیں۔ ان کے کچھ نہیں پڑ رہا 2019ء میں وہ کسے جتائیں؟ وہ پپو اور گپو کے درمیان جھول رہے ہیں۔
آر ایس ایس میں نئی تبدیلی 
میں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے تیسرے خطاب والے اجلاس میں نہیں جا سکا‘ کیونکہ اسی وقت مجھے ایک نئی کتاب کا افتتاح کرنا تھا‘ لیکن گزشتہ روز صبح کئی بزرگ سوئم سیوکوں کے مجھے غصے بھرے فون آئے اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا موہن بھاگوت نے سنگھ کو نئی پوزیشن میں کھڑا نہیں کر دیا؟ کیا انہوں نے ویر ساورکر اور گرو گولولکر کی ہندوتوا کے تصور کو سر کے بل کھڑا نہیں کر دیا؟ ساورکر جی نے اپنی کتاب ہندوتوا میں لکھا تھا کہ ہندوتوا وہی ہے ''جس کے بزرگوںکی دھرتی بھارت ہے۔ اس حساب سے مسلمان‘ عیسائی اور یہودی ہندوستانی کہلانے کے حق دار نہیں ہیں‘ کیونکہ ان کے پاک مذہبی مقام مکہ‘مدینہ‘ یروشلم اور روم وغیرہ بھارت سے باہر ہیں۔ اسی طرح گولوکر جی کی کتاب 'بنچ آف تھاٹس‘ میں مسلم اور عیسائیوں کو ملک کے خلاف طبقہ بتایا گیا ہے۔ سنگھ کی شاخوں میں مسلمانوں کا داخلہ منع ہے۔ 2014ء کے چنائووں میں بھاجپا نے کتنے مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے؟ حقیقت میں سنگھ‘ جن سنگھ اور بھاجپا میں سانسوںکا رشتہ رہا ہے۔ مسلم مخالف جن سنگھ کے صدر پروفیسر بلراج مشوک نے 1965-67 میں مسلمانوں کے 'بھارتیکرن‘ کا نعرہ دیا تھا۔ سر سنگھ سربراہ کپ سی سدرشن جی نے سنگھ کے کام کو نیا مقام دیا۔ وہ میرے گہرے دوست تھے۔ انہوں نے ہی میری درخواست پر 'قومی مسلم منچ‘ کو قائم کیا تھا‘ جسے آج کل اندریش کمار بخوبی سنبھال رہے ہیں۔ سدرشن جی نے اس کے اجلاس کے افتتاح کی گزارش بھی مجھ سے کی تھی۔ اب موہن بھاگوت اس روایت کو آگے بڑھا رہا ہیں۔ اسی لیے انہوں نے گولوکر جی کے خیالات کے بارے میں ٹھیک ہی کہا ہے کہ ملک اور وقت کے حساب سے خیال بدلتے رہتے ہیں۔ ذرا ہم دھیان دیں کہ ساورکر جی اور گولولکر جی کے خیالات میں اتنی سختی کیوں تھی؟ وہ وقت مسلم لیگ کے ہندو مخالف رویے اور بھارت ٹوٹنے کے وقت ملک میں پھیلے مسلمانوں کے خلاف رویے کا تھا۔ لیکن ستر برس میں ہوا کافی بدل گئی ہے۔ ان بدلے ہوئے حالات میں موہن بھاگوت نے ہمت کر کے نئی لکیر کھینچی ہے تو ملک میں پھیلے ہوئے لاکھوں سوئم سیوکوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اس کے مطابق چلنا چاہیے۔ سنگھ کے سوئم سیوک اس وقت ملک میں سرکار میں ہیں۔ اگر انہیں کامیاب حکمران بنانا ہے تو انہیں بھارتیتا کو ہی ہندوتوا کہنا ہو گا اور ہندوتوا کو بھارتیتا! یہ سنگھ کو جھکانا نہیں‘ اسے پتھر اور کانٹوں سے اٹھا کر شاہی راستے پر چلانا ہے۔
موہن جی کا نیا ہندوتوا
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے دلی کے وگیان بھون میں ایک ایسا پروگرام کیا‘ جس میں ملک کے خاص دانشوروں اور لگ بھگ سبھی پارٹیوں کے خاص لیڈروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ مجھے بھی بلایا گیا۔ تقریر کے دوسرے دن میں بھی گیا لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ وہاں دلی کا ایک بھی نامی گرامی دانا نہیں تھا۔ بھاجپا کے وزیر تو کئی تھے لیکن دیگر پارٹیوں کے جانے پہچانے بڑے لیڈر وہاں دکھائی نہیں پڑے۔ اس کے تقریر کا عنوان تھا 'بھارت کا بھوشیہ‘ (بھارت کا مستقبل) اس عنوان پر بھی موہن جی کچھ نہیں بولے۔ وہ بولے تو صرف ہندوتوا کے بارے میں اور سنگھ و بھاجپا کے تعلقات کے بارے میں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ جم کر تیاری کرتے اور مستقبل کے بھارت کا ایسا نقشہ پیش کرتے‘ جس سے بھٹکی مودی سرکار کو کچھ مدد مل جاتی اور اگلے برس اگر کوئی نئی سرکار آ جائے گی تو اس کو بھی صحیح راہ مل جاتی۔ لیکن ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ انہوں نے پہلے اور دوسرے دن جو تقاریر کیں‘ وہ سچ مچ نئی لکیریں کھینچنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے ہندوتوا اور بھارتیتا کو ایک ہی سکے کے دو پہلو قرار دیا۔ ان کے اس قول نے اسے اور زیادہ واضح کر دیا کہ اقلیتیں بھی ہندوتوا کے دائرے سے باہر نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ہندو لفظ ہمیں غیر ملکیوں نے دیا ہے‘ لیکن اب یہ ہم پر چسپاں ہو چکا ہے۔ ہندوتوا کا مطلب ہے کسی اتحاد میں فراخ دل اور صابر بن کر بنا تشدد کے زندگی گزارنے والا وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے ہندوتوا کے نئی معنی بتانے کی کوشش کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری کتاب 'بھاجپا ہندوتوا اور مسلمان‘ میں‘ میں نے ہندوتوا کی جو تحقیق کی‘ موہن جی اس کے کافی نزدیک دکھائی پڑے‘ لیکن یہاں للکار یہی ہے کہ کیا ہم وہی ہیں جو دکھائی دینا چاہتے ہیں؟ موہن جی نے یہ بھی ٹھیک ہی کہا کہ ان کے پاس بھاجپا کا 'ریموٹ کنٹرول‘ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو مودی سرکار کی کیا آج یہ حالت ہوتی‘ جو آج ہے؟ سنگھ اور بھاجپا ماں بیٹے کی طرح ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں‘ لیکن یہ دعویٰ کرنا مشکل ہے کہ کون کس کو کب چلاتا‘ گُھماتا ہے۔ اس کا انحصار حالات اور قابل لوگوں پر رہتا ہے۔ موہن جی کی اس تقریر میں سنگھ کی شان بہتر کرنے کا اچھا قدم ہے‘ لیکن ملک کے عاقل لوگوں کے ساتھ بحث کرنے کی تکنیک سنگھ کو بھرپور کوشش سے سیکھنی ہو گی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں