مالدیپ میں عبداللہ یامین کی شکست اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحادی امیدوار ابراہیم محمد صولح کی جیت کا مطلب کیا ہے؟ پہلا یہ ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں جمہوریت کی فتح ہے۔ مالدیپ کے لوگوں نے بتا دیا ہے کہ وہ خود مختار ہیں اور اعلیٰ ہیں۔ پورے جنوبی ایشیا میں یامین جیسا کوئی تانا شاہ دوسرا نہیں ہوا۔ اس نے مالدیپ پر تیس برس تک حکومت کرنے والے اپنے سوتیلے بڑے بھائی قیوم کو ہی جیل میں نہیں ڈالا‘ سابق صدر نشید‘ سپریم کورٹ کے ججوں‘ ایم پیز‘ اعلیٰ پولیس افسران اور دیگر اپوزیشن لیڈرز کو بھی ہتھکڑیاں پہنا دی تھیں۔ کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ صدر یامین ہار جائیں گے‘ کیونکہ انہوں نے جیتنے کے لیے سام‘ دام‘ دنڈ‘ بھید سب کا استعمال کر لیا تھا‘ لیکن پھر بھی مالدیپ کے 90 فیصد ووٹرز نے آٹھ آٹھ گھنٹے لائن میں لگ کر ووٹ ڈالے اور یامین کو بری طرح سے شکست دے دی۔ امید ہے کہ نومبر میں اقتدار صولح کے حوالے کر دیں گے۔ اگر وہ کوئی تگڑم کریں گے تو بھارت کو بہانہ ہاتھ آ جائے گا کہ صولح اور نشید کی دعوت پر مالدیپ میں فوجی مداخلت کرے‘ اور وہاں کی جمہوریت کی حفاظت کرے۔ یامین نے اپنی حکمرانی کے دوران چین کے ہاتھوں مالدیپ کو گروی رکھ دیا تھا۔ مالدیپ کے سات بڑے جزیروں پر چین کا تعمیراتی کام چل رہا ہے۔ مالدیپ کو دوسرے ممالک سے ملے قرض کا ستر فیصد اکیلے چین نے دیا ہے۔ چین جیسا ملائیشیا‘ سری لنکا‘ برما اور پاکستان میں کر رہا ہے‘ اس سے بھی زیادہ وہ مالدیپ میں کر رہا ہے۔ جو چین مالدیپ دوستی پل قریب آٹھ کروڑ ڈالر میں بن رہا تھا‘ اس کے اب یامین کو تیس کروڑ ڈالر دینے کو تیار تھا۔ یامین نے مالدیپ میں کام کرنے والے تیس ہزار بھارتیوں کا جینا حرام کر دیا تھا۔ بھارت کے دو ہیلی کاپٹروں کو واپس کرنے کی دھمکی بھی وہ دے رہے تھے۔ بھارتی کمپنیوں کے ذریعے بنائے جا رہے مالے کے ہوائی اڈے اور دیگر تعمیراتی کاموں کو بھی روک دیا تھا۔ مالدیپ میں بھارت کے خلاف ایسا ماحول بنا دیا گیا تھا کہ ہمارے وزیر اعظم کا دورہ سبھی پڑوسی ملکوں میں ہو گیا‘ لیکن مالدیپ میں نہیں ہوا۔ ابراہیم صولح‘ جنہیں پیار سے اِبو کہا جاتا ہے‘ کے حلف لیتے ہی نریندر مودی کو مالے جانا چاہیے۔ امید ہے‘ اِبو اپنے بزرگ لیڈر محمد نشید کو کولمبو سے مالے بلا لیں گے‘ اور پوری کوشش کریں گے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی اس سرکار کو وہ اچھی طرح چلائیں۔ اِبو اور نشید کی لیڈرشپ میں اب ہم نئے مالدیپ کا دیدار کریں گے۔
یہ مفت علاج عجیب‘ لیکن...
آیوشمان بھارت کے نام سے علاج معالجہ کے حوالے سے وزیر اعظم مودی نے جو تجویز پیش کی‘ وہ بے حد عجیب ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں‘ جہاں کروڑوں لوگوں کو پانچ لاکھ روپے تک کا علاج ہر برس مفت میں کرنے کی سہولت ملے۔ دس کروڑ غریب خاندان یعنی پچاس کروڑ لوگ اب بھارت میں اپنا علاج مفت میں کروا سکیں گے۔ اتنے لوگ تو کئی ملکوں کی آدم شماری کو ملا دینے پر بھی نہیں بنتے۔ اس کے لیے بھاجپا سرکار اور اس کے وزیر صحت مبارک باد کے لائق ہیں‘ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ عوام کی بھلائی والی ‘ یعنی ان کے علاج معالجہ کی یہ تجویز دیگر تجاویز کی طرح کہیں نعرہ ہی نہ رہ جائے۔ کیا بھارت میں پچاس کروڑ لوگوں کے علاج کے لیے کافی ڈاکٹرز اور ہسپتال ہیں؟ ہمارے ہسپتال گائوں سے اتنے دور ہیں کہ دیہاتی مریضوں کے پاس ان ہسپتالوں اور ڈاکٹروں تک پہنچنے کے لیے پیسے ہی نہیں ہوتے۔ سرکار کو سب سے پہلے ملک کے ہر ضلع میں بڑے بڑے ہسپتال کھولنے چاہئیں اور ہر ڈاکٹری پاس کرنے والوں کو لازمی صورت میں خدمت کے لیے وہاں بھیجنا چاہیے۔ صرف ایلوپیتھک نہیں‘ آیورویدک‘ یونانی علاج اور ہومیوپیتھک علاج کی سہولت بھی مریضوں کو ملنی چاہیے۔ ڈاکٹری کی پڑھائی انگریزی میں نہیں ہندی یا بھارتی زبانوں میں ہونی چاہیے‘ تاکہ ہمارے ڈاکٹر بنیادی تحقیق آسانی سے کر سکیں اور دیہاتی اور شہری لوگوں کا علاج اچھے طریقے سے کر سکیں۔ بھارت سرکار کو یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ اس کی نظر میں غریب کون ہے؟ کیا صرف پچاس کروڑ لوگ غریب ہیں؟ سچائی تو یہ ہے کہ سو کروڑ لوگ بھارت میں ایسے ہیں‘ جو اپنی بیماری پر پانچ لاکھ روپے سالانہ خرچ نہیں کر سکتے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی سب سے بڑی عوامی بھلائی کی تجویز بھارت میں سب سے زیادہ بد عنوانی کا ذریعہ بن جائے۔ ڈاکٹری کے بزنس میں جتنی ٹھگی ہوتی ہے‘ کسی اور بزنس میں نہیں ہوتی۔ سرکار کو غیر سرکاری ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو سخت ضابطے میں رکھنا ہو گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارت کے غیر بھاجپائی صوبوں نے اسے قبول کیوں نہیں کیا۔ اگر یہ مشن کامیاب ہو جائے یعنی ملک میں تعلیم اور صحت کے شعبے ٹھیک ہو جائیں تو بھارت کو عظیم قوت بننے سے کون روک سکتا ہے؟
عمران خان اور مودی‘ دونوں سنبھلیں!
بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی جو بیٹھک نیو یارک میں ہونی تھی‘ وہ بھارت نے منسوخ کر دی۔ اس کے تین سبب بتائے گئے ہیں۔ پہلا بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے ایک اہلکار کی ہلاکت‘ جس کا الزام بھارت پاکستان پر لگاتا ہے۔ پاکستان نہ صرف اس الزام سے انکاری ہے بلکہ پیشکش کر چکا ہے کہ وہ اس واقعے کی پوری کھوج میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھی کچھ اسی قسم کے مثبت بیان دئیے۔ دوسرا سبب کشمیر کے تین پولیس والوں کا ان کے گھر سے اغوا ہو جانا اور پھر قتل۔ تیسرا سبب یہ کہ پاکستان میں حریت پسند رہنما برہان وانی کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ یہ ٹکٹ اس الیکشن سے پہلے چھپا تھا‘ جس کے نتیجے میں عمران خان کی موجودہ سرکار قائم ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ٹکٹ کی چھپائی کا اروپ عمران خان کی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ دوسری بات یہ کہ برہان وانی اور دوسرے آزادی پسند کشمیری رہنمائوں کا درجہ پاکستانیوں کی نظر میں وہ نہیں جو بھارت کی سرکار کی نظر میں ہے۔ یہ آزادی پسند رہنما پاکستان میں ہیرو ہیں‘ اور پاکستان کھل کا اس کا اعتراف کرتا ہے‘ اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بہرکیف جیسے ہی بات چیت رد ہونے کا اعلان نئی دلی سے ہوا پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے سخت رد عمل دیا۔ انہیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ چھوٹے دماغ کے لوگ بڑی بڑی کرسیوں میں بیٹھے ہیں۔ بھارتی لیڈر یعنی نریندر مودی پر انہوں نے مغرور ہونے کا الزام بھی لگایا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے اس رد عمل کا سبب یہ رہا ہو کہ انہیں (عمران خان) مودی سے بہت زیادہ امیدیں رہی ہوں‘ لیکن انہیں مودی کی مجبوری بھی سمجھنی چاہیے۔ مودی اس وقت چنائوی دور میں ہیں۔ اگر وہ پاکستان کی جانب نرمی دکھائیں تو اگلے برس چنائو میں ان کا 56 انچ کا سینہ سکڑ کر چھ انچ کا رہ جائے گا۔ بھارت کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں سرحدی علاقوں کے قتل کا اتنا پرچار ہوا ہے کہ ہندوستانی عوام کا پارہ گرم ہو گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کیا ہی اس لئے گیا تھا۔ سرکار نے ایک ایسا ماحول بنوایا جس سے بھارتی عوام کا پارہ اتنا چڑھ گیا کہ سرکار کو ملاقات کا فیصلہ ختم کرنے کا بہانہ مل گیا۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ عمران سرکار نے مندرجہ بالا تینوں حادثوں پر مرہم رکھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ لیکن جیسا سخت رد عمل عمران نے دیا‘ ویسا مودی نے بھی دیا ہے۔ چار سال ہو گئے لیکن مودی کو ابھی تک خارجہ پالیسی کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ جیسے وہ بنا تیاری کیے نواز شریف کے گھر شادی پروگرام میں چلے گئے‘ ویسے ہی انہوں نے سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی کی ملاقات بھی رد کر دی۔ ملاقات نہ کرنے کا اعلان کیوں کیا گیا؟ نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر نیو یارک میں ملاقات ہوتی تو سشما جی ان سب معاملات کو جم کر اٹھاتیں اور عمران سرکار کو کہتیں کہ مضبوطی سے کام کرے۔ اب دونوں طرف سے خنجر تن گئے ہیں۔ وہ کشمیر کا راگ الاپیں گے اور ہم دہشتگردی کا! عمران خان اور مودی‘ دونوں کو ذرا سنبھل کر چلنا چاہئے۔