"DVP" (space) message & send to 7575

پڑوسی ممالک پر دھیان دیں!

ہماری یعنی بھارت کی خارجہ پالیسی سے متعلق دو خبروں نے آج میرا دھیان اپنی طرف کھینچا۔ دونوں خبروں کا تعلق پڑوسی ملکوں سے ہے۔ ایک ہے سری لنکا‘ اور دوسرا نیپال۔ سری لنکا کے صدر میتری پال سری سین نے بھارت پر ایسا الزام لگایا ہے‘ جو گزشتہ ستر برسوں میں کسی بھی ملک نے نہیں لگایا۔ انہوں نے اپنی کابینہ میں کہا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را ان کا قتل کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ادھر ہمارے وزیر اعظم نے نیپال کے کئی مرتبہ دورے کیے اور زلزلے کے وقت ان کی غیر معمولی امداد بھی کی گئی‘ لیکن تعجب ہے کہ دو برس بیت گئے‘ دلی میں نیپالی قونصلیٹ میں ہائی کمشنر ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ کیا یہ نہیں کہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھارتی سرکار کے تعلقات میں کہیں نہ کہیں گڑبڑی ہے۔ بھوٹان کے علاقے دوکلام میں بھی بھارت کو کڑوا گھونٹ پینا پڑا‘ اور مالدیپ کی یامین سرکار کا مُکا بھی ہمیشہ تنا رہا۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان سمیت ہمارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ چین دوستی بڑھا رہا ہے‘ اور شاہراہ ریشم کی چکا چوند میں پھنسا رہا ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت بھی چین کو پٹانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
یوہان میں دونوں ملکوں کے لیڈروں کی ملاقات کے بعد ان دونوں بڑے پڑوسیوں کے درمیان تنائو کم ہوا ہے‘ جو اچھا ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے پڑوسیوں پر ہماری سرکار پورا دھیان کیوں نہیں دے پا رہی ہے؟ جہاں تک روس‘ امریکہ اور یورپی ممالک کا سوال ہے‘ تو ان سے ہمارے تعلقات اچھے ہی رہنے ہیں‘ کیونکہ ان سے ہم اربوں روپے کے ہتھیار جو خرید رہے ہیں۔ ان کے لیے تو گاہک بھگوان ہے‘ لیکن پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں زیادہ اتار چڑھائو آتے رہے تو ان کا انجام بھارت کے تحفظ اور اقتصادیات کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ جہاں تک سری لنکا کا سوال ہے‘ اس کے صدر سری سین اور وزر اعظم وکرم سنگھے‘ دونوں کی سیاست ایک دوسرے کی اپوزیشن میں چل رہی ہے۔ سری سین چین کے حمایتی ہیں اور وکرم سنگھے بھارت آ رہے ہیں۔ اسی طرح نیپال کے وزیر اعظم کے پی اولی نے بھی وزیر اعظم کا کچھ ہفتے پہلے زبردست استقبال بھی کیا تھا لیکن وہ چین کی طرف جھکتے ہوئے دکھائی پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیو بائو کی تجویز کو رد کرکے بجلی کی تجویز چین کے حوالے کر دی ہے۔ چین اس پر ڈھائی ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ بھارت کے بڑے لیڈروں کا دھیان 2019ء کے چنائو پر مرکوز ہو رہا ہے۔ ایسے میں وزارتِ خارجہ کو خاص شروعات کرنی ہو گی۔ 
کہاں نہرو کہاں مودی؟
تین مورتی کے بنگلہ میں جواہر لعل نہرو میوزیم اور لائبریری ہے۔ اس میوزیم اور لائبریری کو اہمیت والا بنانے میں میرے ساتھی اور میرے پیارے دوست آنجہانی ڈاکٹر ہری دیو شرما کا خاص کردار ہے۔ وہ ڈاکٹر لوہیا کے زبردست پیروکار تھے۔ جب تک وہ زندہ رہے‘ وہاں اکثر میرا جانا ہوتا تھا۔ میرے جیسے کچھ لوگوں کے سینکڑوں ہزاروں خطوط اور دستاویزات بھی وہاں موجود ہیں۔ وہاں نہرو جی کی یاد میں کافی اقدامات کئے گئے۔ وہ جگہ جدید بھارتی تاریخ کی نشانی ہے۔ اب اس کے نئے ڈائریکٹر شکتی سنہا نے ایک عجیب اور نئی پیشکش رکھی ہے۔ پچیس کروڑ کے اس بنگلہ کے باقی 23 ایکڑ میں ملک کے سبھی وزرائے اعظم کے میوزیم بنائے جائیں گے۔ اس کی بنیاد بھی رکھ دی گئی ہے۔ اگر یہ میوزیم بنا کر نہرو جی کی اہمیت کم کرنے کی کوشش ہو تو یہ بہت ہی غلط ہو گا لیکن اگر نہرو جی کی چھائوں میں باقی سبھی وزرائے اعظم کے کاموں کا تحفظ ہو سکے تو نا صرف نہرو جی کی اہمیت بڑھ جائے گی بلکہ تین مورتی بھوّن کی شان میں چار چاند لگ جائیں گے۔ چار چاندوں کے نام میں ابھی آپ کو گنا دیتا ہوں۔ پہلا لعل بہادر شاستری‘ دوسرا اندرا گاندھی‘ تیسرا نرسمہا رائو اور چوتھا اٹل بہاری واجپائی۔ ان چاروں کے علاوہ جو بھی وزیر اعظم ہوئے ہیں‘ ان سب سے میرا تعارف اور دوستی رہی ہے۔ ان میں کئی طرح کی خصوصیتیں تھیں‘ جنہیں آج اور مستقبل کے لیڈروں کو سیکھنا چاہیے۔ وہ سب کو کیسے معلوم پڑیں گی؟ کون بتائے گا انہیں؟ سبھی وزرائے اعظم کی ایسی خصوصیتوں پر ہمیں زور دینا چاہیے‘ جو بھارت کی جمہوریت کو مضبوط بنائیں۔ جو کانگریسی لیڈر اس میوزیم کی مخالفت کر رہے ہیں‘ انہیں یہ ڈر ہے کہ اس تجویز کے تحت کہیں نریندر مودی کو نہرو سے بھی بڑا بنا کر پیش نہ کر دیا جائے۔ یہ ڈر‘ یہ وہم بالکل بے بنیاد ہے۔ کہاں نہرو اور کہاں نریندر مودی۔ مودی کو بڑا بنا کر یہ لوگ اپنے آپ کو چھوٹا کیوں کریں گے؟ مودی کے اب مشکل سے کچھ مہینے بچے ہیں۔ اگر یہ کچھ مہینے بھی باقی چار سالوں کی طرح گزر گئے تو جن چار چاندوں کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے‘ ان کی قطار میں بھی مودی کو بٹھانا مشکل ہو گا۔ اگر اس آخری برس میں کوئی کرشمائی کام ہو گیا تو مودی تین مورتی میں بیٹھے نہ بیٹھے‘ مودی کی مورتی کروڑوں بھارتی لوگوں کے دلوں میں ضرور بیٹھ جائے گی۔
خوشقجی: ٹرمپ کی گیدڑ بھبکی 
سعودی عرب کے مشہور صحافی جمال خوشقجی کے قتل کا معاملہ غضب کا طول پکڑ رہا ہے۔ ہر برس درجنوں صحافیوں کے قتل کے معاملے سامنے آتے ہیں لیکن وہ ان ملکوں کے اندرونی معاملات ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ تین ملکوں کے بیچ کا ہے۔ سعودی عرب‘ امریکہ اور ترکی۔ ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانہ ہے۔ خوشقجی اس قونصل خانہ میں اپنے کاغذات لینے گئے تھے تاکہ ایک ترکی خاتون سے ان کی شادی ہو سکے۔ انہیں کاغذات لینے کے لیے جس دن بلایا گیا تھا‘ دو اکتوبر‘ اس دن اس کی منگیتر بھی ساتھ گئی ہوئی تھی‘ لیکن وہ گھنٹوں انتظار کرتی رہی اور خوشقجی باہر ہی نہیں آئے۔ ترکی سرکار کا کہنا ہے کہ خوشقجی کا قتل کر دیا گیا ہے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیے گئے ہیں۔ اس پر امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ جس نے یہ قتل کیا ہے‘ وہ اسے سخت سزا دیں گے۔ ٹرمپ نے ایسا اس لیے کہا کہ خوشقجی آج کل سعودی عرب چھوڑ کر امریکہ میں رہ رہے تھے‘ اور واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کر رہے تھے۔ خوشقجی کے معاملے میں یورپی ممالک بھی خاصے دکھ اور افسوس کی حالت میں ہیں۔ خوشقجی اور سعودی عرب کے 33 برس کے شہزادے محمد بن سلمان کے بیچ کافی دنوں سے ٹھنی ہوئی تھی۔ شہزادے کے خلاف خوشقجی جم کر لکھتے رہے ہیں۔ یمن میں چل رہے مشن‘ زیادتیوں اور مصری تختہ پلٹ وغیرہ کے خلاف لکھتے ہوئے خوشقجی کا قلم کبھی کانپا نہیں۔ اگر ان کے بارے میں ترکی کا الزام درست نکلا تو شہزادے کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچے گا‘ حالانکہ ادھر انہوں نے کافی انقلابی اقدامات کئے ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے جو دھمکی دی ہے‘ وہ کوری گیدڑ بھبکی دکھائی پڑتی ہے‘ کیونکہ امریکی ہتھیاروں کی خرید کے لیے سعودی عرب نے دس بلین ڈالر کا سودا کر رکھا ہے۔ ٹرمپ نے خود قبول کیا ہے کہ اگر وہ اس سودے کو رد کر دیں گے تو امریکہ کے لگ بھگ چار لاکھ لوگوں کی نوکریاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ اگر امریکہ کوئی غلطی کرے گا تو وہ اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔ ظاہر ہے کہ بڑبولے ٹرمپ درمیان نکلنے کا راستہ کھوج نکالیں گے۔ 
جہاں تک روس‘ امریکہ اور یورپی ممالک کا سوال ہے‘ تو ان سے ہمارے تعلقات اچھے ہی رہنے ہیں‘ کیونکہ ان سے ہم اربوں روپے کے ہتھیار جو خرید رہے ہیں۔ ان کے لیے تو گاہک بھگوان ہے‘ لیکن پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں زیادہ اتار چڑھائو آتے رہے تو ان کا انجام بھارت کے تحفظ اور اقتصادیات کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں