"DVP" (space) message & send to 7575

سری لنکا میں حکومت کی تبدیلی

سری لنکا میں گزشتہ دنوں اچانک اقتدار پلٹ ہو گیا۔ وزیر اعظم وکرما سنگھے کو صدر میتری پال نے برخاست کر کے ان کی جگہ پر مہندرا راجا پکشا کو حلف دلوا دیا۔ اب سری لنکا کے صدر اور وزیر اعظم‘ دونوں لیڈر ایسے ہیں‘ جنہیں بھارت مخالف مانا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سری لنکا میں اب اسی طرح بھارت مخالفین کی سرکار بن گئی ہے‘ جس طرح نیپال میں بنی ہوئی ہے۔ سری لنکا کے یہ دونوں لیڈر چین کے نہایت ہی چہیتے سمجھے جاتے ہیں۔ جن وزیر اعظم (وکرما سنگھے) کو ہٹایا گیا ہے‘ وہ گزشتہ ہفتے ہی بھارت آئے تھے۔ اس دورے سے دو تین دن پہلے صدر سری سینا نے الزام لگایا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ان کو قتل کرنا چاہتی ہے۔ جن راجا پکشا کو نیا وزیر اعظم چنا گیا ہے‘ وہ دو بار سری لنکا کے صدر رہ چکے ہیں۔ سری لنکا میں صدر کا عہدہ صرف جھنڈے کو لہرانے جیسا نہیں ہوتا۔ وہ وزیر اعظم سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ سری سینا‘ راجا پکشا کی جماعت سری لنکا فریڈم پارٹی میں ہی پہلے وزیر تھے‘ لیکن دونوں لیڈروں میں جھگڑا ہو گیا اور سری سینا نے نئی پارٹی کھڑی کر لی۔ 2014ء میں وہ صدر چنے گئے‘ لیکن اب راجا پکشا کے ساتھ آ جانے سے ایوان میں اسی پارٹی کے دونوں دھڑوں کی اکثریت ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم رنل اور سری سینا کی پارٹی کا جو اتحاد ایوان میں اکثریت میں تھا‘ وہ ٹوٹ چکا ہے۔ رنل کی یونائٹیڈ نیشنل پارٹی کہہ رہی ہے کہ صدر کی یہ کارروائی غیر آئینی ہے‘ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بنا وزیر اعظم کو عہدہ سے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے؟ صدر سری سینا کا جواب ہے کہ آئین کے آرٹیکل 42 (4) کے مطابق انہیں حق ہے کہ وہ وزیر اعظم کو برخاست کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ اب یہ معاملہ سری لنکا کی سپریم کورٹ میں چلا جائے۔ جو بھی ہو‘ سری لنکا کی یہ تازہ خبر بھارت کے لیے فکر کی بات ہے‘ کیونکہ صدر سری سینا سے بھی زیادہ راجا پکشا بڑے زوروں سے چین پرستی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے صدارتی دور میں سری لنکا کو چین کی گود میں ہی بٹھا دیا تھا‘ اور اب اندیشہ یہ ہے کہ وہ تیسری بار سری لنکا کے صدر بننے پر پورا زور لگائیں گے‘ اور بھارتی خارجہ پالیسی کے لیے یہ سخت للکار ہے۔
اُلٹی ہندوتوا 
کیرل کے سبری مالا مندر میں مینسز میں عورتوں کے داخلے کو لے کر جو مڈ بھیڑ آج کل چل رہی ہے‘ اس کا ہندو مذہب یا دلیل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مڈ بھیڑ ہے‘ کیرل کی مارکس وادی سرکار اور بھاجپا کے بیچ۔ مزے دار حقیقت یہ ہے کہ اس نوٹنکی میں بھاجپا اور کانگریس ساتھ ساتھ ہیں۔ ملک کی یہ دونوں پارٹیاں ثابت کر رہی ہیں کہ ان کی عقل کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ پہلے کانگریس کو لیں۔ کانگریس نہرو فیملی کی پرائیویٹ کمپنی ہے‘ لیکن وہ جواہر لعل نہرو کو ہی طاق پر بٹھا رہی ہے‘ مطلب نظر انداز کر رہی ہے۔ نہرو ہمیشہ سائنسی مزاج کی بات کیا کرتے تھے۔ سبری مالا مندر میں مخصوص خواتین کے داخلے پر پابندی کو کیا آپ کسی سائنٹیفک طریقے سے درست ٹھہرا سکتے ہیں؟ نہیں۔ لیکن کانگریس اسے صحیح بتا رہی ہے‘ کیونکہ کیرل میں اس کا مقابلہ مارکس وادی سرکار سے ہے۔ نہرو کو سیکولر اپنی سانسوں سے بھی پیارا تھا‘ لیکن کانگریس نے اس وقت اس فیصلے کی مخالفت کیوں نہیں کی‘ جب سپریم کورٹ نے ممبئی کی حاجی علی کی درگاہ میں مسلم خواتین کے داخلے پر اعلانِ پابندی کو خارج کیا تھا؟ مسلم عورتوں کے عبادت کی آزادی کی حمایت اور ہندو عورتوں کی مخالفت! کیا یہ الٹ فرقہ واریت نہیں ہے؟ ہندو عورتوں کی آزادی کی مخالفت بھاجپا بھی کر رہی ہے۔ کیا یہ الٹ ہندوتوا نہیں ہے؟ سبری مالا کے سوال پر کانگریس اپنے اصولوں کو ہی کچا چبا ڈال رہی ہے۔ اب بھاجپا کو لیں‘ اس کے صدر امیت شاہ نے کیرل جا کر ان لوگوں کی پشت ٹھونکی‘ جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ ایسے فیصلے کرے‘ جو نافذ ہو سکیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ ان فیصلوں کو لاگو کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ سرکار اور لیڈر لوگ دبو اور بزدل ہوں تو عدالت تو کیا‘ کسی پنچایت کا فیصلہ بھی لاگو نہیں کیا جا سکتا؟ امیت شاہ نے سپریم کورٹ کو اشارہ دے دیا ہے کہ وہ رام مندر کے معاملے میں ایسا ہی فیصلہ دے‘ جسے مودی سرکار نافذ کر سکے۔ بھارت میں کورٹ کا اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے؟ اگر امیت شاہ یہ کہتے کہ سماج کو چلانے کا کام صرف قانون سے نہیں ہو سکتا ہے‘ تو ان کی بات دلیل کے لائق اور حقیقت کے مطابق ہوتی۔ سماج میں تبدیلی کی بنیاد مہارشی دیانند‘ مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر لوہیا جیسے انسان ہی ڈال سکتے ہیں‘ بھارت کے مذاقیہ اور مذاحیہ لیڈروں کے لیے تو کرسی ہی بھرم ہے۔
آرڈیننس کیسا ہو؟
بھارتی سپریم کورٹ نے رام مندر کے معاملے کو جنوری 2019ء تک کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔ جنوری 2019ء وہ فیصلہ دے دے گی‘ ایسا اس نے نہیں کہا ‘ یعنی اس بات کی یقین دہانی نہیں کرائی کہ اس مقدمے کا کوئی فیصلہ کر دیا جائے گا۔ تین ماہ بعد وہ اس بینچ کی تشکیل کرے گی‘ جو مسجد‘ مندر کے معاملے پر غور کرے گی۔ وہ کون سے معاملے پر غور کرے گی؟ اس معاملے پر نہیں کہ جسے رام جنم بھومی کہا جاتا ہے‘ اس پونے تین ایکڑ زمین پر مندر بنے گا یا مسجد بنے گی یا دونوں بنیں گے؟ وہ اور کتنے برس تک غور کرے گی؟ یہ بھی وہ نہیں بتا رہی ہے۔ وہ تو 2010ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے اس فیصلہ پر کی گئی صرف اپیل سنے گی‘ جس کے تحت اس پونے تین ایکڑ زمین کو تین حصوں میں بانٹ کر اس نے تین دعوے داروں کو دے دی تھی۔ یہ تین دعوے دار ہیں: سنی وقف بورڈ‘ رام للا‘ نرموہی اکھاڑا۔ اس فیصلے کا بھاجپا اور آر ایس ایس یعنی اس وقت کے لعل کرشن ایڈوانی اور سنگھ سربراہ موہن بھاگوت نے خیر مقدم کیا تھا‘ لیکن ان دونوں سجنوں سے کوئی پوچھے کہ اس پونے تین ایکڑ میں آپ مسجد‘ مندر ساتھ ساتھ بننے دیں گے کیا؟ اور کیا وہ ساتھ ساتھ رہ پائیں گے؟ خاص طور سے عمارت کے ڈھانچے کو ڈھانے کے بعد اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے میرا سجھائو یہ تھا کہ پونے تین ایکڑ نہیں‘ بلکہ لگ بھگ سو ایکڑ زمین میں سرکار سبھی مذاہب کی عبات گاہیں بنائے اور ایودھیا کو دنیا کی ایودھیا بنا دیں۔ اسے عالمی زیارت گاہ بنا دیں۔ جنوری 1993ء میں وزیر اعظم نرسمہا رائو جی ایک بل لائے اور سرکار نے ستر ایکڑ زمین لے لی۔ بعد میں ایوان نے اسے قانونی شکل دے دی۔ اکتوبر 1994ء میں پانچ ججوں کی بینچ نے جو فیصلہ دیا‘ اس میں اس ستر ایکڑ میں مسجد‘ رام مندر‘ لائبریری‘ میوزیم‘ خانقاہ وغیرہ بنانے کا حکم صادر کیا گیا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ وہاں صرف مسجد اور رام مندر ہی کیوں بنے‘ دنیا کے لگ بھگ سبھی مذاہب کی عبادت گاہیں کیوں نہ بنیں؟ یہ عالمی ادب کو بھارت کی غیر معمولی دین ہو گی۔ ایودھیا دنیا کے لئے زیارت گاہ بن جائے گا۔ اگر اس نقش پر آرڈیننس بھاجپا سرکار لائے گی‘ تو میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ وہ سب کو پسند آ جائے گی۔ اور سپریم کورٹ کی کنفیوژن بھی ختم ہو جائے گی۔ اگر سرکار اپنی بلا عدالت کے سر ٹالنا چاہتی ہے تو اس پر فریب‘ بزدلی اور سستی کے الزام لگیں گے‘ اور وہ اپنے آپ کو بات سے ہٹ جانا ثابت کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں