نوٹ بندی ‘تاریخی بھول
جیسے دیوالی پر پٹاخہ بازی ناکام ہو گئی ‘ویسے ہی نوٹ بندی ناکام ہو گئی۔ نوٹ بندی کے بارے میں ریزرو بینک کی دو برس پرانی بیٹھکوں کے جو حوالے اب سامنے آرہے ہیں ‘ان سے پتا چلتا ہے کہ ماہرین نے نومبر 2016 ء میں ہی نوٹ بندی پر سرکار کو وارننگ دے دی تھی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 8 نومبر 2016 ء کی رات کو نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا۔اس اعلان سے چار گھنٹے پہلے ریزرو بینک نے نوٹ بندی کی حمایت کی تھی‘ لیکن یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اس سے کالے دھن اور جعلی نوٹوں کے مسائل کا حل نہیں ہوگا ۔مودی نے ٹی وی چینلوں پر جو اپنا یہ تاریخی اعلان کیا تو کروڑوں لوگوں کو یہ یقین بھی دلایا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کالا دھن اور جعلی نوٹ تو ختم ہوں گے ہی ‘ان کے ساتھ دہشت گردی اور بدعنوانی پر بھی روک لگے گی ۔نوٹ بندی کی اس تیسری برسی پر ہم غیر جانبدار ہوکر تجزیہ کریں تواس کے نتائج نہایت ہی خوفناک ہوں گے ۔جہاں تک کالے دھن کا سوال ہے ‘عام لوگوں نے سرکار کو الٹا ٹانگ دیا ۔انہوں نے بینکوں کی قطاروں میں لگ لگ کر سارا کالادھن سفید کر لیا ۔مشکل سے ایک ڈیڑھ فیصد نوٹ سامنے نہیں آئے ۔یہ وہ نوٹ ہو سکتے ہیں ‘جو یہاں یا غیر ممالک میں لوگوں کے پاس دبے پڑے رہ گئے تھے ۔اب دو دوہزار کے چھوٹی شکل والے نوٹوں سے کالا دھن دگنی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔اس وقت سینکڑوں لوگوں نے اپنی جان سے ہاتھ دھوئے ‘سوالگ۔اسی طرح جعلی نوٹ بھی بہت تیزی سے بازار میں آگئے ہیں ‘ دہشت گردی اور بدعنوانی جوں کی توں ہے‘ وزیر خزانہ جیٹلی نے مودی کے اس اعلانات پر جھاڑو پھیرتے ہوئے اب یہ اعلان کیا ہے کہ نوٹ بندی کے مندرجہ بالا فائدے ہوئے ہی نہیں ۔اس کا مقصد تو ٹیکس کی آمدنی بڑھانا اور نقدی کے چلنے کو کم کرنا تھا ۔یہ دونوں کام بہت ہی کامیابی کے ساتھ ہو رہے ہیں ۔یہ ٹھیک ہے‘ لیکن وہ یہ قبول کیوں نہیں کرتے کہ نوٹ بندی کے سبب ملک کی اکانومی کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے اور بے روزگاری بڑھی ہے ۔سرکاری آنکڑے ان باتوں پر مہر لگا رہے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی ان اقدام کو اٹھانے کے پہلے مودی نے نہ تو اپنے وزرا سے کوئی صلاح مشورہ کیا اور نہ ہی ماہروں سے رائے لی ‘اسی لیے یہ تاریخی پہل تاریخی بھول بن کر بھاجپا کے سرپر چسپاں ہو گئی ۔
بھارت دُم کیوں دبائے ؟
روس کی پہل پر طالبان کے ساتھ ماسکو میں بارہ ملکوں کی ایک میٹنگ ہوئی ہے ۔اس میٹنگ میں افغانستان کے آس پاس کے ملک اوران کے ساتھ امریکہ ‘روس چین ‘اور بھارت نے بھی شرکت کی ہے ۔بھارت نے اپنے دو ریٹائرڈ سفیروں کو ماسکو بھیجا ‘جو میری رائے میں لائق تعریف قدم تھا‘ لیکن بھارت سرکار اتنا اچھا قدم بھی اٹھاکر دبوپن کا مظاہرہ کیوں دکھا رہی تھی ؟وزارت خارجہ کا ترجمان بار بار کہہ رہا تھا کہ اس میٹنگ میں سرکار شرکت نہیں کر رہی‘غیر سرکاری لوگ حصہ لے رہے ہیں ۔بھارت سرکار طالبان سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ کیوں نہیں کرنا چاہتی؟1991 ء میں جب ہمارے طیارہ کو اغوا کیا تھا‘ تب وزیراعظم اٹل جی نے مجھے فون کیا اور اس وقت میں لندن میں تھا ۔وہاں سے میں نے قندھار کے طالبان لیڈروں سے سیدھا رابطہ کیا ۔وزیر خارجہ جسونت سنگھ قندھار گئے اور ہمارا جہاز بحفاظت واپس آگیا ۔گزشتہ تیس برسوں میں‘ جب جب میں قندھار اور ہرات میں رہا ہوں ‘طالبان لیڈر اور سابق وزیر چھپ کر یا سرعام بھی مجھ سے ملتے رہے ہیں ۔ان میں سے کچھ ایسے تھے ‘جو پچاس برس پہلے میرے ساتھ کابل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے ۔میں نے ہمیشہ پایا کہ ان کی مخالفت بھارت سے بالکل نہیں تھی۔وہ روس کے خلاف تھے ۔وہ بھارت کی مخالفت اس لیے کرتے تھے کہ بھارت روس کا دوست تھا ۔وہ پاکستان کے حامی ضرور تھے‘ لیکن یہ ان کی مجبوری تھی ۔وہ پاکستان کیا دنیا کے کسی بھی طاقتور ملک کی غلامی برداشت نہیں کر سکتے ۔وہ کٹروطن پرست ہیں ۔وہ ببرک کارمل کی سرکار کو روس کا غلام کہتے تھے اور حامدکرزئی اور اشرف غنی کی سرکار کو امریکہ کا غلام کہتے ہیں ۔جس روس کے ہزاروں فوجیوں کومجاہدین اور طالبان نے موت کے گھاٹ اتار دیا ‘ان سے روس بات کر رہا ہے اور آپ ان سے بات کرنے سے ڈر رہے ہیں‘ اگر ہندوستان کے لیڈروں اور افسروں کو افغان معاملات کی ٹھیک سمجھ ہوتی تو یہ بیٹھک ماسکو نہیں دلی میں ہوتی۔ خیر ‘دیر آید ‘درست آید ۔اب بھارت سرکار کو یہ بھی ڈر لگ رہا ہے کہ کشمیری شدت پسندوں سے بات چیت کرنے کی آواز بھی اٹھے گی ۔جب رو س طالبا ن سے بات کررہا ہے اور آپ اس میں شامل ہو رہے ہیں ‘تو پھر اپنے ہی کشمیریوں سے آپ پرہیز کیوں کر رہے ہیں؟ ان کے لیے لات تو چل رہی ہے ‘ بات بھی کیوں نہیں چل سکتی ؟
رافیل تھوڑی صفائی اور
رافیل جہازوں کی خرید کے بارے میں سرکار نے اب صحیح راہ پکڑی ہے ۔ابھی تک وہ اس بات پر اڑی ہوئی تھی کہ وہ یہ نہیں بتائے گی کہ وہ پانچ سو کروڑ روپے کا جہاز 16 سوکروڑروپے میں کیوں خریدا ہے ؟اس پہیلی کا جواب نہ تو وہ اس کے اپوزیشن والوں کو دے رہی تھی ‘نہ وہ ایوان کو بتا رہی تھی اور سپریم کورٹ کو بھی اس نے ٹرخا دیا تھا‘ لیکن جب سے یہ مسئلہ سر عام ہو اہے ‘میںبرابرکہتا رہا ہوں کہ سرکار کی مطمئن کرنے والی جواب دہی سامنے آنی چاہیے ۔سرکار کی اس بات سے میں مطمئن ہوں کہ وہ جنگی طیاروں کے سارے راز آئوٹ نہیں کر سکتی لیکن وہ موٹے طور پر یہ تو بتا سکتی تھی کہ اس نے فرانسیسی کمپنی دسالٹ کو تین گنا پیسے دینا کیوں طے کیاہے؟اس کی خاموشی نے اتنی دہاڑ مار دی کہ چور بھی خود کو شاہوکار بتانے لگا۔رافیل تو بوفورس کا باپ بن گیا ۔وہ ساٹھ کروڑکی لوٹ تھی‘ یہ ساٹھ ہزار کروڑ کی لوٹ بن گئی ۔اگر سپریم کورٹ نے سرکار کے کان نہیںمروڑے ہوتے تو 2019 ء کے چنائو میں رافیل کا مدعہ اسے لے بیٹھتا ۔ابھی سرکار نے سیل بند لفافہ میں عدالت کے سامنے تگنی قیمتوں کے اسباب کی صفائی پیش کی ہے ۔پتانہیں ‘جج لوگ اس سے مطمئن ہوں گے یا نہیں ؟جہاں تک درخواست گزار کو دیے گئے حوالہ کا سوال ہے ‘اس میں سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے رافیل کی خرید کے لیے 74 بیٹھکیں کی ہیں اور خرید اری کے عمل کو مکمل ایمانداری کے ساتھ پورا کیا ہے ۔اس خرید میں آٹھ سے دس برس کا وقت بیکار ہو گیا اور اس دورمیں مقابلے والے ممالک کے پاس چار سو سے زیادہ لڑاکو جہاز آگئے ۔اسی لیے بھارت کو بنے بنائے 36 جہازوں کا سودا کرنا پڑا اور جو108 جہاز بھارت میں بننے تھے‘ وہ سودا رد کرنا پڑا۔سرکار نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ فرانسیسی کمپنی ہی طے کرے گی کہ اس کا حصہ دار کون ہوگا ؟اس سے بھارت سرکار کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔عدالت کو اس مدعہ پر بھی زور دینا ہوگا ‘کیونکہ سارے شک کی بنیاد یہی مدعہ ہے ۔اس وقت کے فرانس کے صدر اولاند کے مطابق انیل انبانی کو بھارتی پارٹنر بنانے کا مشورہ بھارتی سرکار نے ہی دیا تھا ۔یہاں سوال یہ بھی ہے کہ جب بھارت میں ان جہازوں کو بننا ہی نہیںہے تو حصہ داری کی ضرورت ہی کیا ہے ؟اسی سے دلالی کا شک پکا ہوتا ہے ۔اس معاملہ میں صفائی تھوڑی اور چاہیے ۔
فرانس کے صدر اولاند کے مطابق انیل انبانی کو بھارتی پارٹنر بنانے کا مشورہ بھارتی سرکار نے ہی دیا تھا ۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ جب بھارت میں ان جہازوں کو بننا ہی نہیںہے تو حصہ داری کی ضرورت ہی کیا ہے ؟اسی سے دلالی کا شک پکا ہوتا ہے ۔اس معاملہ میں صفائی تھوڑی اور چاہیے ۔