"DVP" (space) message & send to 7575

نانک کوریڈور: وزیراعظم عمران خان کی پہل

پاکستان اوربھارت کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو اب نانک کوریڈور جوڑے گا۔یہ کوریڈور بمشکل آٹھ کلومیٹر طویل ہو گا‘ بھارت کے ڈیرہ بابا نانک سے پاکستان کے کرتار پور صاحب تک۔ کرتار پور میں ہی گرو نانک نے آخری سانس لی تھی۔ اگلے سال گرو نانک کا پانچ سو پچاسواں جنم دن ہے۔ یہ کوریڈور بنانے کی تجویز پاکستان کی طرف سے آئی تھی۔ سابق کرکٹر اور وزیر سیاحت نوجوت سنگھ سدھو وزیر اعظم عمران خان کے حلف اٹھانے کی تقریب میں شرکت کرنے اسلام آباد گئے تھے‘ جہاں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کرتار پور سرحد کھولنے کی تجویز دی۔ سکھ مذہب کے ماننے والوں کا دیرینہ مطالبہ اس طرح پاکستان کے اعلیٰ حکام کی زبان سے نکلا‘ اور قریب تین ماہ انتظار کے بعد بھارت سرکار نے اس پیش کش کو قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ مگر اب دونوں جانب یہ بات چل پڑی ہے کہ اس معاملہ میں پہل کس نے کی۔ مودی سرکار کو اگلے سال چنائو میں اپنے ہی سکھ ووٹ کی فکر ہے۔ وہ کسی بھی طرح یہ ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یوں تو 1999ء میں اٹل جی نے اپنے مشہور دورۂ لاہور کے وقت اس مدعا کو اٹھایا تھا۔ مجھے یاد ہے‘ انہوں نے کہا تھا کہ کرتار پور جانے والوں کو پہلے لاہور جانا پڑتا ہے اور پھر وہاں سے ایک سو پچیس کلومیٹر دور کرتار پور کے لیے بس پکڑنی پڑتی ہے۔ اتنا ہی نہیں‘ انہیں ویزا لینے کی بھی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اب تین چار کلومیٹر کی جو راہداری بنے گی اس میں سکھ زائرین بنا ویزا کے جا سکیں گے اور وہ چاہیں تو وہاں پیدل بھی پہنچ سکیں گے۔ وہ صبح جا کر شام کو لوٹ سکیں گے۔ ابھی ہزاروں لوگ بھارت سے پہنچے ہوئے ہیں۔ اگلے سال کوریڈور بن جانے پر لاکھ دو لاکھ پہنچ جائیں تو تعجب نہیں ہو گا۔ اس راہداری کی تعمیر میں بھارت کو پچیس لاکھ روپے خرچ کرنے ہوں گے اور پاکستان کے ڈیڑھ کروڑ روپے۔ اس کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے کر دیا ہے۔ بھارت کی طرف سے صدر رام ناتھ کووند نے اس راہداری کا افتتاح کیا۔ اسی سے نانک کوریڈور کی اہمیت کا پتا چل سکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ راہداری دو گائوں کے بیچ تو بنے ہی‘ دونوں ملکوں کے دلوںکے بیچ بھی بنے۔ دو ماہ پہلے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نیو یارک میں ملتے ملتے رہ گئے۔ اب اس راہداری کے افتتاح کے موقع پر بھی پاکستان نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو دعوت نامہ بھیجا مگر وزیر موصوف نے مصروفیات کا کہہ کر خود جانے سے انکار کر دیا۔ خود نہ جا سکیں تو کسی اور سینئر منسٹر کو بھیج دیا ہوتا‘ تاکہ اس تاریخ ساز موقع پر بھارت سرکار کی نمائندگی شایان شان طریقے سے ہو جاتی۔ مگر ہماری سرکار نے تو حد ہی کر دی۔ پاکستان کی جانب سے تو وزیر اعظم خودآئے کہ یہ ایک اہم موقع تھا‘ لیکن بھارت کی نمائندگی فوڈ پراسیسنگ کی یونین منسٹر ہر سمرت کور اور ہاؤسنگ کے منسٹر ہر دیپ سنگھ پوری نے کی۔ کیا اسے بھارت سرکار کی شایان شان نمائندگی سمجھا جا سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ اب سکھ مذہب کے ماننے والے‘ جن کے لئے اس کوریڈور کا کھلنا بے حد اہمیت رکھتا ہے‘ ضرور سوچیں گے کہ بھارت سرکار نے ان کے لئے اس اہم ترین دن کو دل سے قبول نہیں کیا۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ یہاں سے ایک جائے اور وہاں سے اس کا دوسرا اس کا استقبال کرے؟ پاکستانی چیف آف آرمی قمر باجوہ اور سدھو کا گلے ملنے پر ہائے توبہ مچانے والوں کو شاید اب کچھ عقل آئے۔ بھارت اور پاکستان کے بیچ ایسے درجن بھر راستے اور بھی کھل سکتے ہیں‘ خاص طور سے کشمیر میں! بھارت کے لیڈر آج کل چناؤ چکر میں پھنسے ہیں تو اب عمران خان صاحب ہی پہل کیوں نہ کریں؟ ہم اگر مستقبل کو بدلنا چاہتے ہیں تو ایسے بڑے بڑے قدم اٹھانا لازمی ہے۔ اس کے لئے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے اور جو آدمی ماضی کی یادوں سے چھٹکارا پانے کی ہمت رکھتا ہو وہی ایسے بڑے قدم اٹھا سکتا ہے۔ نانک کوریڈور تو ایک مذہبی کوریڈور ہو گا یعنی تجارتی مقاصد کے بجائے یہاں سے گزرنے والے افراد مذہبی رسوم کے لئے آئیں جائیں گے‘ مگر کشمیر اور دیگر حصوں کے درمیان کھلنے والے راستے خالص تجارتی ہوں گے‘ اس سے دونوں طرف کے لوگ مالی فائدے اٹھائیں گے‘ ایک دوسرے پر انحصار بڑھے گا‘ رابطے بڑھیں گے تو محبت بڑھے گی۔ مگر میں پھر کہوں گا کہ اس کے لئے بڑی حوصلہ مند لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ مذہبی تاریخ کی دلدل میں پھنسی موجودہ بھارتی قیادت کیا ایسا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟ بظاہر اس کے امکانات نظر نہیں آتے۔ بہرحال یہ طے ہے کہ کرتار پور راہداری کے معاملے میں وزیر اعظم عمران خان بھارتی قیادت پر بازی لے گئے ہیں۔ 
ایسی عجیب شخصیت ہیں شیخ النہیان
گزشتہ ہفتہ ابو ظہبی اور دبئی میں ایسا گزرا جس کی یاد مجھے زندگی بھر آتی رہے گی۔ یوں تو میں کئی بار دبئی جا چکا ہوں‘ لیکن اس بار یہاں دلی کی ''دیا فائونڈیشن‘‘ کے پروگرام میں شرکت کرنے آیا تھا۔ یہ پروگرام بھارت کے مشہور ماہر امراض قلب ڈاکٹر ایس سی من چندا نے چلا رکھا ہے۔ وہ معذور غریب بچوں کے دل کے آپریشن مفت کرواتے ہیں۔ اس پروگرام کے خاص مہان تھے‘ شیخ النہیان بن مبارک۔ شیخ صاحب اس ملک کے سب سے زیادہ ہر دل عزیز لیڈر ہیں۔ بھارتیوں کا کوئی بھی بڑا پروگرام ان کے بنا پورا نہیں ہوتا۔ وہ ہمارے پروگرام میں تو آئے ہی‘ انہوں نے اپنے محل میں دو بار کھانے پر بھی مدعو کیا۔ ان کے ساتھ کھانے پر قریب قریب دو سو لوگ روز بیٹھتے ہیں۔ مہمان حضرات میں ملک کے لیڈر‘ صنعت کار‘ سفیر اور دیگر معززین شامل ہوتے ہیں۔ پہلے دن انہوں نے اپنے پاس والے صوفے پر مجھے بٹھایا اور بھارت اور عرب امارات کے تعلقات پر بات کی۔ انہوں نے دوبارہ مجھے مدعو کیا۔ ان کے ابو ظہبی کے محل میں پہنچنے کے لیے بہت ہی شاندار کار انہوں نے میرے لیے دبئی بھجوائی۔ کھانا شروع ہو چکا تھا۔ ہماری کار دس منٹ دیر سے پہنچی۔ میں نے دیکھا کہ سٹیج پر چھ سے سات مہمان بیٹھے ہیں۔ تین سو کے لگ بھگ لوگ نیچے کھانے کی میز پر کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ میرے جاتے ہی شیخ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور پاس کی کرسی پر بیٹھے ایک وزیر کو ہٹا کر وہ اس کرسی کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ مجھے انہوں نے اپنی کرسی پر بٹھا دیا۔ میرے دائیں جانب شری روی شنکر بیٹھے تھے اور بائیں شیخ صاحب۔ میں بیچوں بیچ! مجھے حیرانی ہوئی۔ باقی سبھی لوگوں کو بھی! شیخ صاحب کے ایک دوست نے پوچھ لیا : آپ ڈاکٹر ویدک کو کب سے جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا : گزشتہ جنم سے! روی شنکر جی نے پوچھا تو میں نے کہا کہ شیخ صاحب اسلام کی شان ہیں تو شیخ صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر ویدک انسانیت کی شان ہیں۔ میں تو دنگ رہ گیا۔ شیخ صاحب بھارتیوں کے مندروں‘ گردواروں‘ خانقاہوں اور گھروں پر اکثر جاتے رہتے ہیں۔ وہ سبھی مذاہب والوں کا دھیان رکھتے ہیں۔ انہوں نے میرا کھانا ایک دم سبزیوں والا رکھا۔ جب میں ان کے محل میں ٹھہرتا ہوں تو میری خاطر سارا کھانا سبزیوں والا بنواتے ہیں۔ وہ ہیں تو عرب لیکن مجھے لگتا ہے کہ گزشتہ جنم میں وہ بھارتی ہی رہے ہوں گے۔ وہ سب مذاہب‘ سب ذات اور سب ملکوں کے بیچ محبت والے پیغام جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دورے کے دوران پڑوسی ممالک کے کئی بڑے لیڈروں اور ماہرین کے ساتھ کھانے پر گفتگو بھی ہوئی۔ مجھے لگتا ہے کہ اچانک ہوئی ان گفتگوؤں سے اگلے دو تین برسوں میں جنوبی ایشیا کی سیاست کو ایک دم نئی شکل دینے میں ہمیں کافی مدد ملے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں