پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان کی باتوں پر ہماری سرکار بھروسہ کرے یا نہ کرے ؟ یہ سوال آج سب سے بڑا ہے ۔ عمران خان صاحب نے حلف لیتے وقت اور نانک کوریڈور کا افتتاح کرتے وقت ‘دونوں بار بھارت سے تعلقات کا نیا باب کھولنے کی پیشکش کی۔ا س سے بھی زیادہ صاف گوئی سے وہ ہمارے صحافیوں سے بولے ۔ انہوں نے دو اہم باتیں کہی ہیں ‘جن پر ہمیں دھیان دینا چاہیے۔ایک یہ کہ ممبئی حملہ جیسی دہشتگردی کے لیے وہ ذمہ دار نہیں ہیں‘وہ واقعہ پرانا ہو چکا ہے۔دوسرا‘بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے معاملے میں پاکستان کی فوج ان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی اور فرانس جیسے دو ملک‘ جنہوں نے جنگ لڑ کر خون کی ندیاں بہائیں‘اگر وہ آج دوست ملک بن گئے ہیں تو بھارت اور پاکستان کے رشتے کیوں نہیں سدھر سکتے؟ بھارت اور پاکستان‘دونوں ہی ایٹمی قوتیں ہیں ۔ان کے درمیان جنگ کی بات سوچنا بھی بے وقوفی ہے۔یہ سب کہتے کہتے عمران خان صاحب نے کشمیر کی بات بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم مسئلہ کشمیر کو نہیں سلجھا پائے۔پس یہی تو ایک مسئلہ ہے ‘دونوں کے بیچ! ہمارے لیڈر اور صحافی کہتے ہیں کہ عمران خان صاحب کو یہاں کشمیر کو گھسیٹ کر لانے کی کیا ضرورت تھی‘ جبکہ پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے۔ نانک کوریڈور کا افتتاح ہمارے اور ان کے وزرا کے بغیر بھی ہو سکتا تھا۔ اس کا افتتاح ہو اور اس وقت پاک بھارت تعلقات کا ذکر نہ ہو ‘یہ کیسے ہو سکتا ہے اور پاک بھارت تعلقات کا ذکر ہو اور اس میں کشمیر کا ذکر نہ آئے ‘یہ کیسے ہو سکتا ہے؟کشمیر تو پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔
عمران خان صاحب کی تقاریر کا بھارت سرکار نے کوئی خاص خیر مقدم نہیں کیا‘ پتہ نہیں کیوں؟ بلکہ الٹا ہی ہو ا کہ بھارت نے سارک کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہہ دیا کہ جب تک دہشت گردی نہیں روکی جائے گی ‘بھارت کوئی بات نہیں کرے گا ۔ بھارت کے بائیکاٹ کے سبب گزشتہ سارک کانفرنس بھی اسلام آباد میں ہونے سے رہ گئی تھی۔بھارتی نقطہ نظر سے سشما سوراج کا یہ رویہ فطری ہو سکتا ہے‘کیونکہ گزشتہ چند برسوں میں بھارت میں کئی پر تشدد کارروائیاں ہوچکی ہیں۔بھارتی تفتیشی اداروں نے ان حملوں کے الزام میں کئی لوگوں کو پکڑا اور الزام پاکستان پر لگایا۔ دوسری جانب پاکستان کہتا ہے کہ وہاں انتہا پسندگروہوں کی پشت پناہی میں بھارتی خفیہ اداروں کا کردار ہے۔ بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو جاسوسی اور تخریب کاری کے جرائم میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے گرفتار کیا گیا۔ وہ اب تک پاکستان کی قید میں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتے ہیں‘ لیکن وہ ایسا کچھ کیوں نہیں کر کے دکھاتے جس سے اس دہشت گردی کا اعتراض مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ پاکستان کی فوج نے اپنے ملک کے اند ر دہشت گردی کے خلاف جتنی سخت کارروائیاں کی ہیں ‘ ایسی کارروائیاں ان گروہوں کے خلاف بھی ہونی چاہئیں‘جن پر الزام ہے کہ یہ بیرون ملک شدت پسندی میں ملوث ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کو اندرون ملک دہشت گردی کے بڑے واقعات کا سامنا ہے اور پاکستان کی فوج اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مصروف رہتی ہے۔ بھارت میں جتنے لوگ دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں ‘ اس سے کئی گنا زیادہ پاکستان میں ایسے ہی واقعات سے شہید ہوتے ہیں ۔بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کے مزاحمت کاروں کی جانب سے تشدد کا استعمال کیا جاتا ہے‘ جبکہ پاکستان کو کچھ انتہا پسند گروہوں کے علاوہ بعض قومیت پسند عسکریت پسندوں کی جانب سے بھی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ بلوچستان میں ایسے کئی گروہ ہیں ‘ جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہیں بھارتی ایجنسیوں کی مدد اور ہدایات ملتی ہیں۔ پاکستان کے پاس اس کے ناقابلِ تردید ثبوت بھی موجود ہیں۔ دونوں ملکوں میں کوئی واقعہ ہو تو فوراً دوسرے پر الزام دھر دیا جاتا ہے۔ اسی لیے ہماری یہ شرط مجھے ذرا اصول کے خلاف لگتی ہے کہ ہم پاکستان سے بات تبھی کریں گے ‘ جب دہشت گردوں پر وہ روک لگا دے گا۔ یہ روک بھارت کو بھی لگانی چاہیے۔
اور جہاں تک دشمن سے بات کرنے کا سوال ہے ‘پانڈووں کا دریودھن سے بڑا دشمن کون تھا؟ لیکن سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک مہابھارت کی جنگ چلتی تھی اور اس کے بعد پانڈووں اور کورووں میں گفتگو ہوتی تھی۔ کیا بھارتی لیڈر شری کرشن اور بھیشم پتا مہ سے بھی زیادہ سمجھدار ہیں؟ کیا انہیں پتا نہیں کہ جب مائو زے تنگ کا چین اور امریکہ ایک دوسرے کے خلاف تباہ کن جنگ کی تیاری میں جُٹ چکے تھے ‘ اس دوران سولہ سال تک دونوں ملکوں کے سفیر پولینڈ میں بیٹھ کر روز مذاکرات کرتے تھے؟میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ذمہ دار وزیر اعظم کو اپنی بات اور لات دونوں سدا بلند رکھنی چاہئیں۔ یا تو دونوں ساتھ ساتھ چلیں یا جب جس کی ضرورت ہو ‘وہ چلے۔ جہاں تک کشمیر کا سوال ہے ‘پاکستان کے پہلے یہ سوال بھارت کو اٹھانا چاہیے۔پتا نہیں کیوں ‘ بھارت کی سرکاریں اس مدعہ پر دبو بن کر رہتی ہیں اور 71 سال سے اس کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اقوام متحدہ کی قرار دادیںاور تاریخ میں بہت کچھ ہے جو اس مدعے کے حل میں مدد دے سکتا ہے۔پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم سے میں پوچھتا ہوں کہ آپ کشمیر میں رائے شماری کرانا چاہتے ہیں تو آپ کشمیر کو کوئی تیسرا آپشن دیں گے؟اسی لیے میں اپنے لیڈروں کو کہتا رہا ہوں کہ مشرف ‘بے نظیر‘ نواز شریف یا عمران خان جب کشمیر کا سوال اٹھائیں تو انہیں آپ اٹھانے کیوں نہیں دیتے ؟
نانک کوریڈور کے افتتاح کے موقع پر پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو کو لے کر بھی فضول کی بحث چل رہی ہے۔ ہمارے ٹی وی چینل اپنی ٹی آر پی بنانے کے لیے کوئی بھی اوٹ پٹانگ بحث چھیڑ دیتے ہیں۔جس سدھو کو بی جے پی لائی اور جو دس سے بارہ برس تک بھاجپا کا نمائندہ رہا ‘اس کو غدار وطن صرف اس لیے بتایا جا رہا تھا کہ وہ پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ یا کسی خالصتانی رہنما سے مل لیاتھا۔ اگر ایسا ہے تو جناح کے گھر دوڑ دوڑ کر جانے والے گاندھی جی اور ایوب خان سے تاشقند میں ہاتھ ملانے والے لعل بہادر شاستری کو آپ کیا کہیں گے؟ ہمارا میڈیا پتا نہیں کیوں خالصتانی ہیروز کو ابھارنے پر تلا ہوا ہے ۔عمران خان صاحب اور سدھو نے ایک دوسرے کی تعریف کے پل باندھے ‘یہ بھی فطری تھا۔ اگر بھارت کے انٹیلی جنس شعبہ کو یہ شک ہے کہ نانک کوریڈور کا استعمال پاکستان جاسوسی اور خالصتان تحریک کو بڑھانے میںاستعمال کرے گا تو سوال یہ ہے کہ پھر بھارتی سرکار نے اس پیشکش کو کابینہ سے پاس کیوں کروایا؟ اس نے اس افتتاح پروگرام میں اپنے دو وفاقی وزیر کیوں بھجوائے؟ جب اس نے یہ پہل کر ہی دی ہے تو اسے ذرا صبر سے کام لینا چاہیے ۔جہاں تک پاکستان سے بات کرنے کا سوال ہے ‘آج کل بھارت میں اگلے چنائو کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے رشتوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ ان کے بگاڑ سے دونوں طرف کے لیڈر فائدہ اٹھانے کی توقع رکھتے ہیں۔ چنائو میں ووٹوں کی برسات ہوتی ہے ‘چنائو میں ووٹ اور نوٹ ہی اعلیٰ ہوتے ہیں‘باقی سب جھوٹ ہوتا ہے ۔اسی لیے پاکستان کی جانب بھارت کا سخت رویہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ ہمارے بی جے پی رہنماؤں کی الیکشن مجبوری ہے۔ عمران ‘نواز اور زرداری اس مجبوری کو خوب سمجھتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں بھارت میں کئی پر تشدد کارروائیاں ہوچکی ہیں۔بھارتی تفتیشی اداروں نے ان حملوں کے الزام میں کئی لوگوں کو پکڑا اور الزام پاکستان پر لگایا۔ دوسری جانب پاکستان کہتا ہے کہ وہاں انتہا پسندگروہوں کی پشت
پناہی میں بھارتی خفیہ اداروں کا کردار ہے۔