فرانس کے بیدار عوام نے میکروں جیسے اکڑباز لیڈر کے جوڑ ڈھیلے کر دیے ہیں ۔ انہوں نے پٹرول اور ڈیزل کے دام مشکل سے تین سے ساڑھے تین روپے بڑھائے تھے کہ ان کے خلاف فرانس کے سارے شہروں میں تحریک کی آگ بھڑکنے لگی۔ لوگوں نے ان کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔ عوام کو دھمکیاں دینے والی میکرون سرکار نے اس عوامی دبائو کے آگے گھٹنے ٹیکے اور اعلان کیا کہ وہ اگلے چھ ماہ تک پٹرول اورڈیزل کی قیمتیں نہیں بڑھائے گی۔اس تحریک میں لگ بھگ دوسو لوگ زخمی ہوئے اور چار سو سے زیادہ گرفتار کر لئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی شہری ان فرانسیسی شہریوں کے آگے کیسے لگتے ہیں ؟ ان کے سامنے ہم مریل اور دبو لگتے ہیں۔ ہمارے منہ میں زبان ہی نہیں ہے ۔ ہمارے ہاں کچھ بھی ہو جائے ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں دیکھتے دیکھتے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں پچاس روپے سے کود کر اسی روپے لٹر تک ہو گئیں اور ہم بھارتی کچھ بولتے ہی نہیں ہیں ۔ خاموشی سے سب کچھ سہتے رہتے ہیں۔ معاملہ صرف پٹرول کا ہی نہیں ۔ہر چیز کا ہے ۔ ان تمام چیزوں کا ہے جو ایک عام آدمی اپنی روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتا ہے۔ معاملہ چاہے رافیل سودے کا ہو یا سی بی آئی افسروں کی رشوت خوری کا‘ گائے کی حفاظت کے سبب قتل کاہو یابینک میں چل رہی لوٹ پاٹ کا ‘ عدالت میں چل رہی دھاندلیوں کا ہو یا بھارتی لیڈروں کی غلط زبانی کا ‘ہمارے یعنی بھارتی عوام کے منہ پر تالا جڑا رہتا ہے۔ ایک آدھ ٹی وی چینل اور اخبار ضرور ہمت دکھاتے ہیں‘ لیکن لوگ خاموش رہتے ہیں۔ہماراایوان آنکھیں تو کھلی رکھتا ہے‘ لیکن وہ بھی دیکھنا بند کر دیتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر لوہیا کہا کرتے تھے کہ زندہ اقوام پانچ سال انتظار نہیں کرتیں۔ وہ فی الفور فیصلے اور کارروائیاں کرتی ہیں۔ تو کیا ہم مردہ قوم ہیں؟ نہیں ۔اگر مردہ ہوتے تو انگریز کو کیسے بھگاتے؟ اندرا گاندھی کو کیسے ہٹاتے ؟ہم مردہ نہیں ہیں۔ہم سست ہیں۔ اپنے لیڈروں پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ فرانس کے عوام نے ڈیڑھ برس میں ہی میکرون کو بتا دیا کہ اگر آپ دھنا سیٹھوں کے دلال کی طرح کام کروگے تو آپ کو ہم ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ مئی کے مہینے میں ہزاروں نوجوانوں نے اس لیے میکرون کے خلاف مظاہرے کیے تھے کہ انہوں نے ایک لاکھ بیس ہزار سرکاری نوکریاں ختم کر دی تھیں ۔ دولتمندوں کے ٹیکس کم کر دیے تھے۔ مزدوروں کے خلاف قانون بنا دیے تھے۔ مہنگائی اور بے روزگاری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔دیہاتی فرانسیسی زیادہ پریشان ہیں ‘کیونکہ وہ میٹرو ریل اور بسوں کا بہت کم استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اپنے پہاڑی علاقوں میں کاریں ہی چلانا پڑتی ہیں۔اسی لیے پٹرول کی بڑھی ہوئی قیمتوں پر انہوں نے پیرس جیسے شہروں پر گھیرا ڈالا ہے ۔ ہمارے کسانوں نے بھی ممبئی اور دلی کو گھیرا ضرور لیکن ان کے لیڈر بھی وہی لوگ ہیں ‘ جو ساٹھ ستر برس سے انہیں ٹھگ رہے تھے ۔
جی ٹوئنٹی میں کامیابی
ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں جی ٹوئنٹی بیٹھک میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پہلی کامیابی تو یہ ہے کہ انہوں نے بیس ممالک کے اس اتحاد کا اگلا پروگرام 2022 ء میں بھارت میں کروانے کا وعدہ لے لیا ہے۔ 2022 ء بھارت کی آزادی کا 75 واں سال ہوگا۔ جی ٹوئنٹی اتحاد میں دنیا کے سارے طاقتور ملک شامل ہیں اور ان کے علاوہ بھارت ‘جاپان‘ انڈونیشیا اورجنوبی افریقہ جیسے ملک بھی ہیں ‘جو جلد ہی بڑی قوت بن سکتے ہیں۔ ان سب ملکوں کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک جگہ بیٹھ کر عالمی کرنسی‘ تجارت ‘اکانومی اور قانونی مسائل پر غور کریں اور انہیں حل کرنے کی تجاویز نکالیں۔یہ انیس ملک اور بیسواں یورپی یونین مل کر دنیا کی 85 فیصد تجارت کرتے ہیں اور 80 فیصد معدنیات کے مالک ہیں۔اس پروگرام میں مودی کی تقریر کا زور اسی بات پر رہا کہ نیرو مودی ‘چوکسی ‘مالیا جیسے اقتصادی مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں سارے ممبر ملک ایک دوسرے کے ساتھ متحرک تعاون کریں۔مودی نے اپنا نو نکاتی پروگرام بھی پیش کیا۔ دنیا کے جو ملک ایسے مجرموں کو پناہ دیتے ہیں ‘پتہ نہیں مودی کا ان پر کتنا اثر ہو گا‘ لیکن اثر ہونے کا ماحول تو ضرور بنے گا۔ مودی کا دوسرا بڑا حملہ دہشت گردوں پر تھا‘ خاص کر ان دہشت گردوں پر جو دوسرے ملکوںمیں جاتے اور وہاں کارروائیاں کرتے ہیں۔ مودی نے دہشت گردوں کی مدد کرنے والے اور ان کو اُکسانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل کی ہے۔ اس طرح کی اپیلیں بھارت کے سابق وزرائے اعظم بھی کر چکے ہیں‘ لیکن آج کل ان کا اثر ہوتا اس لیے دکھائی دے رہا ہے کہ مغرب کے طاقتور ملکوں کے اندر بھی دہشت گردی کے واقعات بہت زوروں سے ہو رہے ہیں۔ بھارت کے ان دوخاص اہداف کو سامنے لانے کے علاوہ مودی نے طاقتور ممالک کے لیڈروں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ایک ملاقات امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘جاپان کے شنزو آبے سے اور دوسری روس کے پیوٹن اور چین کے شی جن پنگ کے ساتھ کی۔لگے ہاتھ انہوں نے وہاں 'برکس ‘کی بھی ایک بیٹھک کر لی۔یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے سربراہوں سے بھی بات ہو گئی۔ انہیں ان تک اپنی سوچ پہنچانے کا موقع ملا۔ جتنی ملاقاتوں میں ایک ماہ لگ جاتا ‘وہ دودن میں ہو گئیں۔اگر وزیر خارجہ سشما سوراج کو مودی ساتھ لے جاتے ‘تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ۔ وہ بھی دوسرے ممالک کے اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کر لیتیں اور بھارت کی آواز ان تک پہنچا سکتیں۔
مشیل بڑا ہتھیار ہے ‘بھاجپا کا
اگستا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹروں کے سودے میں بچولیے کی تجارت کرنے والے کرشچینن مشیل کا آخر کار ہماری سرکار نے دھر دبوچا ہے ۔ وہ مبارک کے لائق ہے ۔ تین ہزار کروڑ کے اس سودے میں لگ بھگ تین سو کروڑ روپے کی رشوت بانٹنے والے اس دلال کو دبئی سے پکڑ کر اب دلی لایا گیا ہے ۔ جانچ بیورو کے افسر اس سے اب ساری سچائی اگلوا ئیں گے ۔ فوج کے لیے خریدے گئے ہیلی کاپٹروں کے سودے میں کس لیڈر اور کس افسر کو کتنے روپے کھلائے گئے ہیں ‘یہ حقیقت اب اس برٹش شہری مشیل سے اگلوائی جائے گی ۔ اس سے پہلے مندرجہ بالا کمپنی کے جو افسر پکڑے گئے تھے ‘ان کی ڈائریوں میں کچھ نام اجاگر ہوئے ہیں۔ ان ناموں کا سونیا گاندھی کی فیملی سے جوڑ اگیا تھا۔ہماری فوج کے ایک بڑے افسر پر بھی رشوت خوری کا الزام ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ میں یہ بہت بڑا ہتھیار آ گیا ہے ۔ سونیا گاندھی فیملی کے خلاف پہلے ہی 'نیشنل ہیرالڈ ‘کے معاملے میں انکم ٹیکس شعبہ جانچ کر رہا ہے ۔ اب مودی نے سونیا فیملی کی طرف اپنے چناوی جلسہ میں نام لے کر بھی اشارہ کیا ہے ۔ ہو سکتا ہے مشیل جو بھی سچ اگلے ‘وہ کانگریس کے گلے کی پھانس بن جائے ۔اگر وہ بوفورس کی طرح سونیا فیملی کو عدالت میں مجرم ثابت نہیں کر پائے تو بھی چنائو کے اگلے چھ سات ماہ میں بھاجپا کے لیے وہ بڑا ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے ۔ہمارے وزیر پرچار اتنے تیر چلائیں گے کہ کانگریس کا اتحاد چور چور ہو سکتا ہے ۔ کانگریس کے ساتھ اتحاد بنانے میں ہر پارٹی کنارہ کشی کرے گی ۔ بھاجپا یہ دعویٰ بھی کر سکتی ہے کہ جب اس نے مشیل جیسے برطانوی شہری کو اپنے پنجے میں پھنسا لیا ہے تو وجے مالیا ‘ نیرو مودی اور چوکسے وغیرہ تو اپنے ہی کھیت کی مولی ہیں ۔ اس سرکار کا بدعنوانی مخالف امیج ملک کے ووٹروں کو جوش سے بھر سکتا ہے ۔ اس نے ملک کی اکانومی اور سماجی حالت سدھارنے کے لیے بہت سی پہلیں کی ہیں ۔ ایودھیا کا رام مندر بھی ایک زبردست حربہ ہے ۔ اگستا ویسٹ لینڈ کا معاملہ رافیل سودے کو میز کے نیچے ڈھک دے گا ۔ لیکن یہ نہ بھولیں کہ دلی میں اگر دوسری کوئی سرکار آ گئی تو اس کے ہاتھ میں رافیل کا بڑا مدعہ ہو گا۔ بد عنوانی تو جمہوری سرکاروں کی سانسیں ہیں۔ ان کے بنا وہ زندہ رہ ہی نہیں سکتیں۔