بھارت کے عوام کو کانگریس سے نجات کا نعرہ دینے والے نریندر مودی کو کیا اب 'مودی سے فری بھارت‘ کے لیے تیار ہو جانا چاہئے؟ بھارت کی پانچ اہم ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کیا اشارہ دے رہی ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان پانچوں صوبوں میں ابھی جو چنائو لڑے گئے‘ وہ کس کے نام پر لڑے گئے؟ انتخابی مہم میں کس چہرے کو سب سے بڑا چہرہ دکھایا گیا؟ انتخابی مہم کے دوران کس کی تعریفوں کی ڈھول پیٹے گئے؟ یہ ڈھول ان لیڈروں کی تعریف میں نہیں پیٹے گئے‘ جو ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تھے یا پارٹی صدر تھے بلکہ نریندر مودی اور امیت شاہ کے ڈھول پیٹے جاتے رہے! ان کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا۔ مودی اور شاہ سے بھی بڑے اور بزرگ بھاجپا کے لیڈروں کو ان چنائووں میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ تو اب جو نتیجے آئے ہیں ‘ ان کا ٹھیکرا آپ کس کے سر پر پھوڑیں گے ؟ اس کا ذمہ دار کس کو قرار دیں گے؟ کس سے کہیں گے کہ یہ سب کچھ اس کی وجہ سے ہوا ہے۔ ایسا نہیں کہ راجستھان ‘ ایم پی (مدھیہ پردیش) اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے اپنے صوبوں میں جم کر کام نہیں کیا اور اسی وجہ سے بی جے پی کو اس ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اگر انہوں (مذکورہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ) نے کام نہ کیا ہوتا‘ لوگوں کی خدمت نہ کی ہوتی تو ایم پی اور راجستھان میں انہیں جتنی نشستیں ملی ہیں ‘ ان سے نصف بھی نہ ملتیں۔ جیسا کہ چھتیس گڑھ میں ہوا ہے ۔ چھتیس گڑھ میں بھاجپا کی خطرناک شکست کے کچھ مقامی اسباب بھی ہیں‘ لیکن سبھی پانچوں صوبوں میں شامل تلنگانہ اور میزورم میں بھی بھاجپا کی اتنی خراب حالت کا آخر سبب کیا ہے؟ کیا اس کے بارے میں بھاجپا میں کسی نے سوچا؟ کیا بھارت میں کسی نے ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تاکہ صورتحال واضح ہو سکے۔ لیکن اس معاملے میں اتنا بھی سر کھپانے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ بی جے پی کی ہار کے اسباب بالکل واضح ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب ہے گزشتہ ساڑھے چار برس کی مودی سرکار کی کارکردگی۔ 2014ء میں بھارت کے عوام نے نریندر مودی کو یہ سمجھ کر اقتدار کی کرسی پر بٹھایا تھا کہ اب ان کے ہاتھوں ایک نئے بھارت کی تعمیر ہو گی‘ تعمیر و ترقی کے ایک نے دور کا آغاز ہو گا اور ان کی حالت پہلے جیسی نہیں رہے گی‘ لیکن اسے یعنی عوام کیا ملا؟ صرف ٹیسٹی تقاریر ‘ بلند بانگ لیکن کھوکھلے نعرے‘ اخبارات میں موٹے موٹے اشتہارات اور اپوزیشن لیڈروں کے لیے گھٹیا زبان کا استعمال! بس۔ ملک کے کئی بہتر اداروں کی ہیٹی ہوئی ۔ سپریم کورٹ‘ ریزرو بینک ‘ سی بی آئی ‘ چنائو کمیشن ‘ پالیسی ساز ‘ وزارت دفاع کے سودے وغیرہ۔ اس کے علاوہ بھی کیا کیا معاملات زیر بحث نہیں آئے ؟ بھاجپا کی اندرونی جمہوریت جا کر طاق پر بیٹھ گئی ہے ۔ نریندر اور امیت شاہ نے مل کر بھارت میں جو یہ نئی جمہوریت کھڑی کی ہے ‘ حالیہ صوبائی انتخابات کے نتائج اس کے انجام کی سزا ہیں ۔ پانچ برس پہلے اپنی تقاریر میں‘ میں کہا کرتا تھا کہ مودی کو وزیر اعظم بنوانے والے ہیں ‘ من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی یعنی من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بی جے پی اور نریندر مودی کو آگے آنے کا موقع ملا! اب گزشتہ تین چار برس سے میں کہہ رہا ہوں کہ ان دونوں لیڈروں کا قرض مودی بیاج سمیت چکانے والے ہیں ۔ انہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ اپوزیشن کے پاس کوئی بڑا لیڈر اور کوئی واضح پالیسی نہ ہو تو بھی عوام ان کے گلے میں ہار پہنا دیں گے ۔ انہیں حکمرانی کے لئے چن لے گی۔ اب مودی کی مغروری کی سزا بھاجپا اور آر ایس ایس بھگتے گا۔ بھاجپا کی مجبوری ہے کہ اگلے پانچ چھ ماہ میں وہ مودی سے نجات نہیں حاصل کر پائے گی‘ لیکن 2019ء کے چنائو بھارت کے عوام کو مودی سے نجات ضرور دلوا سکتے ہیں ۔ اور حالیہ الیکشن کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اس عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔
خیر مقدم ہونا چاہئے!
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ دنوں اپنے خیالات کا اظہار کیا تو گویا میرے دل کی بات کہہ دی ۔ گزشتہ چالیس برسوں میں‘ میں پاکستان کے جتنے بھی صدور ‘ وزرائے اعظم‘ وزرائے خارجہ اور دیگر لیڈروں سے ملا ہوں ‘ انہیں اور سیاسی معاملات کے دوسرے ماہرین سے بھی کہتا رہا ہوں کہ اگر بھارت اور پاکستان مل کر افغانستان میں کام کریں تو اس کے دو فائدے فوراً ہو سکتے ہیں۔ ایک تو وسطی ایشیا کے پانچوں ممالک سے بھارت کا زمینی راستے سے سیدھا تعلق ہو جائے گا‘ جس کے سبب بھارت اور پاکستان‘ دونوں ملک مالا مال ہو سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی غریبی کچھ ہی برسوں میں دور ہو سکتی ہے اور سرحد کے دونوں جانب رہنے والے عوام کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ افغانستان میں چلا پاک بھارت تعاون آخر کار کشمیر کے حل کا راستہ ہموار کرے گا۔ لیکن اس بات کو پاکستان کے لیڈر اب سمجھ رہے ہیں ‘ جبکہ ٹرمپ نے انہیں ایک خط میں یہ بھی سمجھایا ہے ۔ حال ہی میں وزیر خارجہ قریشی نے مانا ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے بھارت کا تعاون ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں ماسکو میں طالبان کے ساتھ ہوئی بات چیت میں بھارت بھی شامل ہوا تھا۔ وہاں پاکستانی حکام بھی موجود تھے اور اس کے وزیر خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے کہا تھا کہ افغانستان میں فوجی کارروائی سے امن نہیں لایا جا سکتا۔ افغان تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناتے میں امریکہ کے پالیسی سازوں کو بتاتا رہا ہوں کہ بہادر اور خود دار افغانوں نے تین جنگوں میں گریٹ برطانیہ کو دھول چٹائی ہے ‘ وہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے بس میں کیسے آئیں گے ؟ بد حال افغانستان نے ہی پاکستان میں دہشتگردی کو جنم دیا ہے ۔ افغانستان کا امن پورے جنوبی ایشیا کے لیے بے حد اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ اسی کام میں آج کل ٹرمپ کے سفیر کی صورت میں زلمے خلیل زاد لگے ہوئے ہیں ۔ وہ میرے کافی پرانے دوست ہیں ۔ امریکی سٹیزن شپ ہولڈر ہیں لیکن بنیادی طور پر ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔ وہ کابل میں بطور امریکی سفیر بھی رہ چکے ہیں ۔ وہ بھارتی سفیروں کو بھی بخوبی جانتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے لیڈروں پر ان کی باتوں کا کچھ اثر پڑا ہے ۔ قریشی صاحب کے بیان پر ابھی تک ہماری سرکار کا کوئی واضح رد عمل نہیں آیا‘ جو کہ آنا چاہئے تھا۔ میرا ماننا ہے کہ اس کا ہمیں خیر مقدم کرنا چاہیے ۔ ہمیں ان امکانات سے ڈرنا نہیں چاہیے کہ پاکستان افغانستان کے بہانے کشمیر کا معاملہ بھی درمیان میں لے آئے گا۔ پاکستان اس مسئلے کو سامنے لائے گا تو اسے لانے دیجئے۔ اس پر بھی بات کیجئے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لئے مسئلہ کشمیر حل ہونا ضروری ہے۔ اٹل جی اور مشرف نے بھی بات کی تھی یا نہیں؟؟ اگر کرتار پور کے کوریڈور کا حل اتنی آسانی سے ہو سکتا ہے تو افغانستان میں امن کے حوالے سے پیش رفت کیوں نہیں ہو سکتی؟
نریندر اور امیت شاہ نے مل کر بھارت میں جو یہ نئی جمہوریت کھڑی کی ہے ‘ حالیہ صوبائی انتخابات کے نتائج اس کے انجام کی سزا ہیں ۔ پانچ برس پہلے اپنی تقاریر میں‘ میں کہا کرتا تھا کہ مودی کو وزیر اعظم بنوانے والے ہیں ‘ من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی ‘ لیکن اب گزشتہ تین چار برس سے میں کہہ رہا ہوں کہ ان دونوں لیڈروں کا قرض مودی بیاج سمیت چکانے والے ہیں ۔