"DVP" (space) message & send to 7575

بھارتی پارلیمنٹ میں شور شرابہ

بھارتی پارلیمنٹ کا یہ آخری سیشن ہے اور صورتحال کیا ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پورا ایک ہفتہ گزر گیا لیکن وہاں صرف شور شرابہ ہی ہوتا رہا۔ اس سیشن میں لگ بھگ پچاس بل منظور ہونے ہیں۔ ان سب کاموں کے لیے عقل اور صبر دونوں کی ضرورت ہے لیکن بھارتی ممبر آف پارلیمنٹ کیا کر رہے ہیں؟ اگر اپوزیشن کے ممبر کسی مدعا پر شور مچاتے ہیں تو سرکار میں بیٹھے ممبران ان سے بھی زیادہ ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ وہ ایوان میں پوسٹرز تک لہراتے ہیں تاکہ ٹی وی چینلوں پر ان کے چہرے چمکتے رہیں‘ دکھائی دیتے رہیں۔ پرچار کی اس بھوک نے بھارتی ایوان کی شان کو خراب کر دیا ہے۔ اسی سے دکھی ہو کر سمترا مہاجن جیسی عظیم شخصیت کو لوک سبھا کا سپیکر ہونے کے ناتے کہنا پڑا کہ ہمارے پارلیمنٹ کے ممبر تو سکول جانے والے بچوں سے بھی زیادہ گیا گزرا طرزِ عمل اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حال ہی میں تینوں ہندی صوبوں میں بھاجپا کی شکست سے اپوزیشن میں غیر معمولی جوش بھر گیا ہے‘ لیکن اگر وہ یہ مانتی اور چاہتی ہے کہ چھ ماہ بعد اسے اقتدار میں آنا ہے تو کیا اسے ذمہ دار ہونے کی مثال پیش نہیں کرنی چاہیے؟ کیا اسے سرکار کی غلطیوں کو پُر اثر دلائل کے ساتھ عوام کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہیے اور اسے کیا یہ نہیں بتانا چاہیے کہ اگر وہ اقتدار میں آئے گی تو کیا کیا کرے گی؟ اگر ملک کی تعمیری مدعوں پر مثبت اور سنجیدہ بحث ہو تو بھارت میں اپوزیشن کی اعلیٰ شان تو بنے گی ہی‘ ملک کا بھی فائدہ ہو گا۔ ایوان میں فضول شور شرابے کا ایک خراب نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ عوام کا دھیان تینوں نئے کانگریسی وزرائے اعلیٰ اور کسانوں کے مفاد میں اعلانات پر اتنا نہیں جائے گا‘ جتنا ان شور شرابوں پر جائے گا۔ اس لئے یہ شور شرابہ خود اپوزیشن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر اپوزیشن اس حوالے سے اپنا رویہ نہیں بدلے گی تو عوام یہی سمجھیں گے کہ جیسی مودی کی حکومت ہے‘ ویسی ہی حزب اختلاف ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر اپوزیشن سرکار میں آتی ہے تو وہ بھی گپ بازی اور نوٹنکیوں میں پانچ برس گزار دے گی‘ اور عوام کے ہاتھ ایک بار پھر کچھ نہیں آئے گا۔
بھارتی عدالت اندھیرے میں کیوں؟
رافیل سودے نے بھارتی سرکار کے ساتھ ساتھ بھارتی سپریم کورٹ کی عزت بھی پیندے میں بٹھا دی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ آنکھ بند کر کے دیا ہے۔ اس نے سرکار کے سراسر جھوٹ کو بھی سچ کہہ کر پروس (پیش کرنا) دیا ہے۔ سرکار نے بند لفافے میں رافیل سودے کے بارے میں جو خفیہ رپورٹ کورٹ کو دی تھی‘ اس میں اس نے یہ جھوٹ لکھ دیا تھا کہ سی اے جی کی رپورٹ کی ایوان کی کمیٹی نے جانچ کی تھی۔ اس جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ اس کمیٹی کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے فی الفورکر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ اب اس ایوانی کمیٹی کے سامنے اٹارنی جنرل اور سی اے جی‘ دونوں کو پیش ہونا پڑے۔ سرکار نے اپنی غلطی خود مان لی ہے۔ سرکار نے اپنی خفیہ دستاویز میں جو جھوٹ لکھا تھا‘ اس پر لیپا پوتی کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس نے انگریزی کے کچھ الفاظ کے غلط استعمال کو اس غلطی کا سبب بتایا ہے۔ سرکار کی جانب سے پیش کی گئی یہ صفائی کسی کے بھی گلے سے اتر نہیں پا رہی ہے۔ یعنی کوئی بھی اس کی جانب سے پیش کردہ جواز کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ کسی ڈپٹی سیکرٹری یا جوائنٹ سیکرٹری سے ایسی بھول نہیں ہو سکتی‘ جیسی اس معاملے میں ہوئی ہے۔ اس طرح کی چال بازی یا دھوکہ دہی کی جرأت صرف بھارت کے لیڈر ہی کر سکتے ہیں۔ لیڈروں سے بھی بڑی ذمہ داری بھارتی سپریم کورٹ کی ہے۔ ہم سب اس کے مستند ہونے کا سکہ مانتے ہیں‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ارون شوری اور یشونت سنہا کی درخواستوں کو رد کرتے وقت اس نے اپنے دماغ کا استعمال نہیں کیا۔ ہماری سپریم کورٹ کے جج کیا اخبار بھی نہیں پڑھتے؟ کیا انہیں خبروں کی سرخیاں دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی؟ اگر ایسا ہے تو پھر ملک کے گرم مدعوں پر فیصلہ کیوں دیتے ہیں؟ رافیل کے معاملے نے اتنا زبردست طول پکڑا ہوا ہے اور انہیں یہ بھی پتا نہیں کہ اس کے سی اے جی کیا‘ کسی نے بھی ابھی تک قانوناً جانچ نہیں کی ہے۔ ارون شوری کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ بحری فوج کے جن دو افسروں سے عدالت نے پوچھ تاچھ کی تھی‘ اس میں اصلی سوال تو پوچھے ہی نہیں گئے۔ بھارتی سپریم کورٹ اس سب سے بڑے سوال کو بھی گول کر گئی کہ پانچ سو کروڑ کے جہاز کے سولہ سو کروڑ روپے کیوں دیے گئے؟ مان لیں کہ سارے جنگی ساز و سامان کی حقیقت افشا نہیں کی جا سکتی‘ لیکن وہ خود بھی اندھرے میں رہنا کیوں پسند کر رہی ہے؟ یہ صورتحال ہماری جمہوریت کے لیے آگے جا کر بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ 
ٹرمپ‘ میکروں نوک جھوک 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فرانس کے صدر میکرون کے درمیاں آج کل جیسی نوک جھوک چل رہی ہے ویسی چارلس ڈیگال کے زمانے میں نہیں چلی تھی۔ ساری دنیا کے گورے ممالک میں یہ مانا جاتا ہے کہ فرانس اپنے آپ کو سب سے اعلیٰ اور سب سے بہتر مانتا ہے لیکن ٹرمپ‘ جو اپنے بے لگام بیانوں کے لیے مشہور ہو چکے ہیں‘ آج کل میکرون پر سیدھے حملے کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اور میکرون کے بیچ سال بھر پہلے تک زبردست دوستی دیکھنے کو ملتی تھی‘ لیکن کچھ عرصہ پہلے پہلی جنگ عظیم کے سو سال پورے ہونے پر ترتیب دئیے گئے فنکشن میں دونوں لیڈروں کے بیچ کافی ناپسندیدہ الفاظ کا استعمال بلکہ تبادلہ ہوا تھا۔ ٹرمپ نے امریکہ کا صدر بنتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ان کی پالیسی ہے ''پہلے امریکہ‘‘ یعنی امریکی مفادات کو سب پر اہمیت دی جائے گی‘ یا یہ کہ امریکی مفاد کی خاطر وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور اس مقصد کی خاطر کسی بھی ملک کا وہ ہاتھ چھوڑ سکتے ہیں اور کسی کا بھی ہاتھ پکڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے نیٹو کے ممبر ممالک سے کئی بار کہا کہ امریکہ آپ لوگوں کی حفاظت کے لئے یورپ میں نیٹو کی افواج پر پیسہ کیوں بہائے؟ آپ (یورپ والے) اپنا خرچ خود کیوں نہیں اٹھاتے؟ ٹرمپ جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے پہلے ہی خفا تھے‘ کیونکہ ان کے خیال میں جرمنی روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے‘ اب میکرون نے بھی ہلہ بول دیا ہے۔ میکرون نے کہا ہے کہ یورپی ممالک کو اپنی فوج خود کھڑی کرنی چاہیے‘ یورپ کو روس‘ چین اور امریکہ سے خطرہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایسی بات پہلی بار دنیا کے کانوں میں پڑی ہے کہ یورپ کو امریکہ سے خطرہ ہے۔ ٹرمپ نے اس مدعا پر پیش گوئی کرتے ہوئے جرمنی اور فرانس کے مشترکہ رویے کا کافی مذاق اڑایا اور دہائیوں تک ایک دوسرے کے دشمن رہنے والے جرمنی اور فرانس کی باہمی جنگوں کی یاد دلائی ہے۔ ٹرمپ نے میکرون کی اس بات کا بھی مذاق اڑایا ہے کہ 'جو وطن پرست ہو گا‘ اس کی وطن پرستی بھی شک کے دائرے میں ہو گی‘۔ ٹرمپ آج کل امریکہ کی وطن پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میکرون کا کہنا ہے کہ جو وطن پرست ہوتے ہیں‘ وہ لالچی‘ وہمی اور چھوٹے نظریے کے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ آخر کار اپنے ملک کا نقصان کرتے ہیں۔ اس پر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ فرانس کے لوگوں سے زیادہ وطن پرست اور کون ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسی لیے تازہ رائے شماری میں میکرون کو صرف 26 فیصدی لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی تو میکرون سنبھال نہیں پا رہے ہیں‘ اور دوسروں کو ہدایت دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ پتا نہیں‘ ٹرمپ اور میکرون کی یہ نوک جھوک یورپ کو کدھر لے جائے گی؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں