"DVP" (space) message & send to 7575

بنگلہ دیش :حسینہ کو دل دیا

بنگلہ دیش میں ایک بیگم کی پارٹی کو 300 میں سے 287 سیٹیں مل گئیں اور دوسری بیگم کی پارٹی کو مشکل سے چھ نشستیں ملی ہیں ۔پہلی بیگم شیخ حسینہ واجد ہیں اور دوسری بیگم خالدہ ضیا ۔بنگلہ دیش گزشتہ تیس برس سے ان دونوں بیگموں کی بیچ جھول رہا ہے ۔عوامی لیگ کی لیڈر حسینہ شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی لیڈر خالدہ صدر ضیا الرحمان کی بیوی ہیں ۔ جنرل ارشاد کی فوجی تانا شاہی سے نجات پاتے وقت یہ دونوں بیگمیں کندھے سے کندھا ملا کر لڑتی رہیں‘ لیکن اس کے بعد دونوں ایک دوسرے کی جانی دشمن بن گئیں۔ شیخ حسینہ گزشتہ دس برس سے اقتدار میں ہیں اور اب اگلے پانچ برس کے لیے تیسری بار چن لی گئی ہیں ۔اس بار جیسی زبردست فتح ان کی ہوئی ہے ‘آج تک جنوب ایشیا میں کسی لیڈر کی نہیں ہوسکی۔اپوزیشن کے اتحاد کو تین سو میں سے صرف دس بارہ سیٹوں پر سمٹنا پڑا ۔یعنی حسینہ کو لگ بھگ پچانویں فیصد سیٹیںمل گئیں ۔ظاہر ہے کہ اتنی سیٹیں کھو دینے پر اپوزیشن کا بوکھلانا فطری ہے ۔تعجب یہ ہے کہ بی این پی کی لیڈر خالدہ ضیا ‘جو پہلے وزیر اعظم رہ چکی ہیں ‘آجکل جیل میں ہیں اور ان کے جیل میں رہنے کے باوجود بنگلہ مسلم کا دل ذرا بھی نہیں پگھلا ۔ان کا رد عمل خالدہ کی جانب قریب ویسا ہی تھا‘جیسا کہ پاکستان کے لوگوں کا عدالتی فیصلوں کے بعد میاں نواز شریف کی جانب رہاہے۔کیا مسلم ملکوں کے لوگ اتنے بیدار ہوتے ہیں کہ اپنے ہر دل عزیز لیڈروں پر بدعنوانی ثابت ہوتے ہی وہ انہیں تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں ؟اپوزیشن کے لیڈر کمال حسین کا ماننا ہے کہ یہ ووٹ بنگلہ دیش کے عوام کا نہیں ہے ۔یہ حسینہ کا اپنا ووٹ تھا جو حسینہ کی ووٹر پیٹیوں میں پہلے سے بھرا ہواتھا ۔ان کا کہنا ہے کہ ووٹر پیٹیاں پہلے سے بھر کر رکھی گئی تھی ۔ان کے حامی لوگوں کو ووٹ ہی نہیں ڈالنے دیے گئے ۔اس الزام کو بعض اخبار نویسوں کی رپورٹوں کی شہادت بھی حاصل ہے جیسا کہ بی بی سی کے ایک نمائندے نے رپورٹ کیا کہ چٹاگانگ (لکھن بازار، چٹاگانگ، حلقہ 10) میں اس نے دیکھا کہ ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس بھر کر پولنگ سٹیشنوں میں لائے جا رہے تھے۔حزب اختلاف نے ان انتخابات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ان انتخابات میں 17 لوگ مارے گئے‘سینکڑوں زخمی ہوئے ‘لیکن شیخ حسینہ واجد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ چھپڑ پھاڑ اکثریت ان کی سرکار کی بہتر پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔شیخ حسینہ واجد 9سال سے بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض ہیں اور مانا جاتا ہے کہ اس دور میںعام مزدور اورکپڑا مل کے مزدوروں کی انکم خاصی بڑھی ہے ۔آئی ایم ایف کے مطابق بنگلہ دیش کی اکانومی دو سال سے تیزترین ترقی کرنے والی اکانومیز میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ اس کی گروتھ کی شرح سات فیصد ہے۔بنگلہ دیش سے ریڈی میڈ کپڑوں کی برآمدات میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے لوگوں کی آمدنی اور حکومت کا ریونیو بڑھا ہے۔ ریونیو بڑھنے سے حکومت نے عوام کی فلاح پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اس لیے عام شہری حکومت سے خوش ہے۔مگر یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ شہریوں کی سیاسی آزادیاں کم ہوئی ہیں اور ملک کو عملاً ایک سیاسی جماعت نے یرغمال بنا لیا ہے۔ حزب اختلاف کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جاتی ہیں اور ان کے لیے راستے بند کر دئیے گئے ہیں۔ دوسری جانب برما سے بھگائے گئے روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دے کر حسینہ نے عام لوگوں کے دل میں اپنا گھر بنا لیا ہے‘ اس کے برعکس خالدہ ضیا نے یتیم خانوں کے لیے بیرونی ممالک سے آئے کروڑوں روپے اپنے ذاتی استعمال میں لے لیے تھے ۔سمجھا جاتا ہے کہ اس واقعہ نے بی این پی کی قبر کھود رکھی ہے۔ جو بھی ہو ‘بیگم حسینہ کی فتح کا بھارت میں خیر مقدم ہی ہوگا ۔ہمارے ادھر کے بنگالیوں ااور ادھر کے بنگالیوں ‘ دونوں کو جاندارعورتوں کی لیڈر شپ ملی۔دونوں میں دوستی کا تعلقات بڑھے ‘یہی نیک خواہشات ہے ۔
مودی کے دوروں کا خرچ 
ہمارے وزرائے اعظم اپنے دوروں پر کتنی بے دردی سے پیسہ بہاتے ہیں‘راجیہ سبھا میں پوچھے گئے ایک سوا ل سے اس کا پتا چلا ہے ۔نریند رمودی نے گزشتہ ساڑھے چار برس میں اپنے بیرونی دوروں پر دوہزار کروڑ روپے سے بھی زیادہ خرچ کر دیے ہیں ۔اگر ان کے گزشتہ پانچ چھ دوروں کے بل بھی جوڑ لیے جائیں تو یہ آنکڑا ڈھائی ہزار کروڑ کو چھو سکتا ہے ۔مودی نے من موہن سنگھ کو تقاریر میں مات دے ہی دی ہے ‘ملک کے روپے نالی میں بہانے میں بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ڈاکٹر سنگھ نے اپنے دوسرے دور میں لگ بھگ ساڑھے تیرہ سو کروڑ روپے غیر ملکی دوروں پر خرچ کیے‘ لیکن وہ اپنے ساتھ ڈھیروں صحافیوں کو بھی لے جاتے تھے اور ان سے کھل کر بات بھی کرتے تھے ۔ان کے ساتھ ایسے صحافی بھی جاتے تھے‘ جن کے اخبار اور چینل ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے‘ لیکن ہمارے مودی جی صرف ایجنسیوں کے صحافیوں کو ساتھ لے جاتے رہے ، تاکہ ان کی صرف تعریف والی خبریں شائع ہو تی رہیں ۔فوٹو گرافرز کو وہ مخصو ص طورپر لے جاتے تھے‘ تاکہ وہاںکی نوٹنکیوں کے دیدار بھارت کے عوام کو زبردست طریقے سے ہو سکیں ۔مگر اس سے عام بھارتی کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا ان کی بھوک مٹ گئی‘کیا انہیں دو ا ملی؟ کیا ان کے بچے تعلیم حاصل کر سکے؟ اگر یہ سب نہیں ہوا تو ایک عام شہری انہیں اپنے فائدے میں کس طرح مان لے۔ صرف اپنے وزیر اعظم کو دیکھ کو بیرونی دورے کرتے ہوئے دیکھ کر تو کوئی خوش نہیں ہوتا۔ مودی نے پچپن ملکوں کے دورے کیے اور من موہن سنگھ نے 33 ۔ابھی تو چار پانچ مہینے بچے ہوئے ہیں ‘جاتے جاتے ہمارے وزیر اعظم جی دو چار جھٹکوں میں دو چار ملکوں میں اور گھوم آئیں تو ان کو عالمی مسافر ہونے کا خطاب حاصل ہو جائے گا ۔ان بیرونی دوروں سے ملک کا کیا فائدہ ہوا ہے ‘اس کے بارے میں میں الگ سے لکھوں گا ۔بیچاری وزیر خارجہ سشما سوراج ‘جوکہ مودی سے کہیں زیادہ سمجھدار اور بے جوڑ ترجمان ہیں ‘اتنے ملکوں میں نہیں گئی ہیں ‘جتنوں میں محترم فل فلیج وزیر اعظم گھوم آئے ہیں ۔وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے لیے کچھ بیرونی دورے کرنے ضروری بھی ہوتے ہیں جیسا کہ عالمی تنظیموں ‘ اقوام متحدہ یا دیگر پلیٹ فارمز کے اجلاس میں شرکت یا سٹیٹ وزٹ‘لیکن چار‘ ساڑھے چار سال میں55 ملکوں کے دورے؟ اتنے دورے کرنا کہاں تک زیب دیتا ہے‘ اور وہ بھی بھارت جیسے ملک میں ‘جہاں ہسپتالوں کی کمی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگوں کی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں اور سکولوں کے کم ہونے سے کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ ڈھائی ہزار کروڑ روپیہ سے ملک کے چھ سو اضلاع میں چھوٹے چھوٹے سکول اور ہسپتال آسانی سے کھل سکتے تھے ۔ مگر حکمران لوگ عام لوگوں کی ضرورتوں کا احساس نہیں کرتے۔ لیڈروں کے بیرونی دورے عا م جہازوں میں کیوں نہیں ہو سکتے ؟خاص جہاز کرنے کا مطلب ہے ‘ہزاروں کی جگہ کروڑوں روپے خرچ کرنا۔یہ لیڈرباہر ہمارے سفارتکاروں کے بنگلوں میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے ؟پانچ اور سات ستارہ ہوٹلوں کے کروڑوں کے بل بھرتے ہوئے ان کے ہاتھ کیوں نہیں کانپتے؟مال مفت دل بے رحم !
بی بی سی کے ایک نمائندے نے رپورٹ کیا کہ چٹاگانگ میں اس نے دیکھا کہ ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس بھر کر پولنگ سٹیشنوں میں لائے جا رہے تھے۔حزب اختلاف نے ان انتخابات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ان انتخابات میں 17 لوگ مارے گئے‘سینکڑوں زخمی ہوئے ‘لیکن شیخ حسینہ واجد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ چھپڑ پھاڑ اکثریت ان کی سرکار کی بہتر پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں