ادھر بھارت میں خبر گرم ہے کہ الگ الگ صوبوں میں اپوزیشن پارٹیوں کے بیچ اتحاد بن رہے ہیں‘ جیسے مایا وتی اور اکھلیش کا اتر پردیش میں‘ شرد پوار اور کانگریس کا مہاراشٹر میں‘ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کا دلی میں‘ وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف خبر یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کو جیل جانے کی تیاری کے لیے کہا جا رہا ہے۔ سونیا اور راہول تو ہیرالڈ کیس میں پہلے سے ضمانت پر ہیں۔ مایا وتی پر بھی مقدمہ چل رہا ہے۔ ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپیندر سنگھ ہڈا بھی عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو سے بھی کہا جا رہا ہے کہ تیار رہو‘ تمہارے خلاف کانوں کے گھوٹالے کی جانچ چل رہی ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ 2019ء چنائو سے پہلے تم جیل کاٹنے لگو۔ سوال یہ ہے کہ چوٹالہ اور لالو‘ یادو کو دیکھ رہے ہیں یا نہیں؟ ادھر کانگریس کے ترجمان کہہ رہے ہیں‘ پس چار چھ مہینے کی دیر ہے۔ جیسے ہی پپو اقتدار میں آئے گا‘ رافیل سودے کی کڑی جانچ ہو گی اور اس کے نتیجے میں گپو جی اندر ہو جائیں گے۔ واہ کیا بات ہے‘ ہمارے بھارتی لیڈروں کی! ان کی ان ادائوں پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ بد عنوانی کے بنا آج کی سیاست ہو ہی نہیں سکتی۔ بھارت کے سارے لیڈر جانتے ہیں کہ جیسے اقتدار میں رہتے ہوئے انہوں نے بے لگام بد عنوانیاں کی ہیں‘ بالکل ویسے ہی ان کے اپوزیشن والے بھی کر رہے ہیں یا ان کو اندیشہ اور خدشہ ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہوں گے۔ اقتدار کی کرسی پر براجمان رہتے ہوئے بھارتی لیڈروں کو جب خود چوری کرنا پڑی ہے تو اسی کرسی پر بیٹھنے والے کو چور کہنے میں انہیں شرم کیوں آئے گی؟ وہ جو کہتے ہیں کہ چور چور موسیرے بھائی! تو یہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال ہے‘ جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کو یہ شک ہے یا پورا اعتماد ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے ان مخالف لیڈروں نے زبردست ناجائز لوٹ پاٹ کی ہے تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ (بھارتی لیڈر) ساڑھے چار برس سے کیا گھاس کاٹ رہے تھے؟ کون سا کمبل اوڑھ کر خراٹے کھینچ رہے تھے کہ آپ کو اس بات کا خیال ہی نہیں آیا کہ جو لوگ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہیں‘ بد عنوانی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان کو کسی نہ کسی طریقے سے اس کام سے روکیں؟ یہ آپ کا فرض بھی ہے کہ عوام نے حکومت آپ کے حوالے کی ہے۔ اس کے معاملات دیکھنا اور انہیں سیدھا رکھنا آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ آپ نے اکھلیش‘ مایا وتی‘ ہڈا وغیرہ پر تب ہی مقدمے کیوں نہیں چلائے‘ جب یہ مقدمے چلانے کی ضرورت تھی؟ اگر وہ وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے جیل جاتے تو عدالت کی تو ساکھ بڑھتی ہی‘ آپ کے بارے میں بھی یہ رائے بنتی کہ یہ ان وطن پرستوں کی سرکار ہے‘ جو کسی کا لحاظ نہیں کرتی اور ''نہ خود کھاتی ہے‘ نہ ہی کسی کو کھانے دیتی ہے‘‘ لیکن اب چنائو کے وقت آپ کے پنجرے کا طوطا (سی بی آئی) چاہے جتنا روئے پیٹے اس کی کوئی قدر ہونے والی نہیں ہے۔ اب اس کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔ اب لوگ سمجھیں گے کہ لیڈر عوام میں اپنے نمبر بنانے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں تاکہ ووٹ بٹور سکیں اور کامیاب ہو کر ایک بار پھر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر نئی کرپشن کی تیاریاں کر سکیں۔ ان لیڈروں نے سچ میں اگر بڑے کوئی جرم کیے ہوں‘ تب بھی لوگ یہی مانیں گے کہ سرکار اپنی کھال بچانے کے لیے ان کی کھال ادھیڑنے میں لگی ہوئی ہے۔ اتحاد کی خبروں سے ڈری ہوئی سرکار اس وقت یہ حربہ اپنائے گی تو وہ اپنی قبر خود کھودے گی۔
رافیل سودا: کنارہ کشی مت اختیار کیجئے!
میرے خیال میں وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے اپنے عہدے کو با مقصد بنا دیا ہے۔ انہوں نے رافیل سودے پر وزیر اعظم کا اتنا زبردست دفاع کیا ہے کہ اس مقابلے میں سابق بھارتی وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی کے وزیر دفاع کرشن چندر پنت کا بوفورس سٹیٹ منٹ اتنا اثر دار نہیں لگتا۔ بلا شبہ نرملا سیتا رمن نے اپنے وزیر اعظم کے دفاع کے اس مقابلے میں کرشن چندر پنت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نرملا سیتا رمن نے راہول گاندھی کے ایک ایک الزام کا اس طرح جواب دیا کہ ایک طرح سے ان سوالوں کا ستیاناس ہی کر دیا ہے۔ انہوں نے راہول کے ذریعے پھینکی گئی الزامات کی اینٹوں کا جواب پتھروں سے دیا۔ ان کے جوابات اور ان کی تقریر کے بعد راہول کے سوالات کو یہاں دوہرانا ضروری نہیں ہے‘ لیکن دو سوال سرکار سے ہر آدمی پوچھنا چاہے گا۔ یہ کہ جب ایوان میں سیدھے مودی پر چوری اور بد عنوانی کے الزامات لگ رہے تھے‘ تب وہ (مودی) خود وہاں کیوں نہیں تھے؟ مودی کے اس وقت غیر حاضر ہونے کا سبب کیا ہے؟ کیا مودی اندر سے اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ راہول جیسے پپو لیڈر کا بھی سامنا نہیں کر سکتے؟ اتنے کمزور کہ ان (راہول) کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے جواب بھی نہیں دے سکتے؟ شاید انہیں اس بات کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ راہول کہیں دوبارہ آ کر ان سے لپٹ نہ جائے۔ میں سوچتا ہوں کہ انہیں ایوان میں رہ کر اپنے اوپر لگے سبھی الزامات کا جواب دینا چاہیے تھا تاکہ صورتحال واضح ہو سکتی اور دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو جاتا۔ دوسری غلطی بھاجپا سرکار کی جانب سے یہ ہوئی کہ نرملا سیتا رمن نے بھاشن دیا اور ایوان سے غائب ہو گئیں۔ بحث کے دوران کسی وزیر کا بھاشن دینے کے بعد اس طرح غائب ہو جانے والا طریقہ کسی بھی حساب سے جمہوریت کے لیے بہتر نہیں ہوتا۔ راہول نے بعد میں جو سوال اٹھائے‘ ان کا جواب وہ ایوان میں دیتیں تو ان کی شان کا سکہ پورے ملک پر جم جاتا۔ ان کے حوالے سے ہر طرف واہ واہ ہونے لگتی۔ رافیل سودے کو لے کر انہوں نے جو کچھ کہا‘ وہ صرف مڈھ بھیڑ بازی تھی۔ کوری سیاست تھی۔ صرف اور صرف سیاست‘ اور کچھ بھی نہیں۔ راہول کے نہلے پر دہلا تھا‘ لیکن اس سودے کو لے کر جو بنیادی سوال ارون شوری اور یشونت سنہا وغیرہ نے اٹھائے ہیں‘ ان کا جواب وہ ٹال گئیں۔ یہ سوال اب ایک دوسرے سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیوں؟ جواب کیوں نہیں دئیے گئے؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ پانچ سو کروڑ کا جہاز سولہ سوکروڑ میں کیوں خریدا گیا؟ ہر جہاز پر گیارہ سو کروڑ زیادہ کیوں دیے جا رہے ہیں؟ انیل انبانی کو تیس ہزار کروڑ روپے کا ٹھیکہ کیوں دیا گیا؟ اس میں نریندر بھائی اور فرانس کے سابق صدر اولاند اور ان کی محبوبہ کا کیا کردار تھا؟ ان سوالات کے مطمئن کرنے والے جواب تو موجود ہیں‘ لیکن پتا نہیں کیوں‘ بھارتی سرکار ہکلا رہی ہے۔ ٹھیک طریقے سے جواب نہیں دے پا رہی۔ ظاہر ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے‘ اسی لئے۔ اگر دال میں کچھ کالا نہیں ہے تو بھی سرکار کی ہکلاہٹ شک پیدا کرتی ہے۔ نرملا سیتا رمن کے ذریعے پیش کردہ یہ حقیقت ٹھیک ہو سکتی ہے کہ کانگریس سرکار اس جہاز کے 737 کروڑ روپے دے رہی تھی اور مودی سرکار اسے صرف 670 کروڑ روپے میں خرید رہی ہے‘ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس سولہ سو کروڑ کے آنکڑے کا کیا ہوا؟ ڈالر کی قیمت بڑھی ہے لیکن کیا تین گنا بڑھی ہے؟ کیا 2014 ء میں ڈالر پچیس روپے کا تھا؟ لگتا ہے کہ سرکار اور کورٹ‘ دونوں اصلی سوال سے کنارہ کر چکے ہیں۔
کیا بات ہے‘ ہمارے بھارتی لیڈروں کی! ان کی ان ادائوں پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ بد عنوانی کے بنا آج کی سیاست ہو ہی نہیں سکتی۔ بھارت کے سارے لیڈر جانتے ہیں کہ جیسے اقتدار میں رہتے ہوئے انہوں نے بے لگام بد عنوانیاں کی ہیں‘ بالکل ویسے ہی ان کے اپوزیشن والے بھی کر رہے ہیں۔