"DVP" (space) message & send to 7575

ممتا نے دکھائی ایمرجنسی

19 جنوری کو کولکتہ بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ میں ہونے والا ممتا بنرجی کا بڑا جلسہ 1977ء میں ہونے والے بڑے جلسوں کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ اُس وقت رام لیلا میدان میں اندرا گاندھی کے خلاف اتنا ہی زبردست جلسہ ہوا کرتا تھا۔ اپوزیشن لیڈر دھاڑ رہے ہوتے تھے اور اندرا کی کرسی ڈول رہی ہوتی تھی۔ سارا رام لیلا میدان کھچا کھچ بھرا ہوا تھا‘ اور ہمیں پاس میں قائم ہندی ادارے کی چھت پر چڑھ کر لیڈروں کے بھاشن سننے پڑے تھے۔ ممتا بنر جی کے جلسہ میں بھی لاکھوں سامعین تھے اور ترجمانوں کے حملے بھی کم تیکھے نہ تھے‘ لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ مودی کے خلاف اتنی تیز زہریلی ہوا کیوں چل رہی ہے؟ اس بڑے جلسے کی دو بڑی باتیں تھیں۔ اول‘ اس میں شرکت کے لیے لاکھوں افراد کا ہجوم اکٹھا ہوا‘ جو مودی مخالف جذبات سے سرشار تھا، دوم‘ ہندوستان کی کوئی ایسی چھوٹی‘ بڑی اپوزیشن پارٹی نہیں جس نے کولکتہ ریلی میں شرکت نہ کی ہو۔ محض نریندر مودی کے دو خفیہ حلیف‘ بیجو پٹنایک اور تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ ایسے دو لیڈر ہیں‘ جن کی پارٹیاں کولکتہ میں مودی مخالف مورچے میں شریک نہ تھیں۔ ان دونوں باتوں کے سیاسی معنی کیا ہیں؟ اگر ایک جملے میں کہا جائے تو کولکتہ ریلی سے واضح ہے کہ نریندر مودی 2019ء میں بھارت کے وزیر اعظم دوبارہ بننے والے نہیں ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب اگلے لوک سبھا انتخابات کے نتائج آئیں گے تو بی جے پی کو ایک ایسی شکست کا سامنا ہو گا جس کا اندازہ پارٹی نے خواب و خیال میں بھی نہیں لگایا ہو گا۔ جی ہاں نریندر مودی کی کہانی ختم ہو چکی ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ مودی نے نہ تو ایمرجنسی لگائی اور نہ ہی اپوزیشن کو ہتھ کڑیاں پہنائیں اور نہ ہی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کا گلا گھونٹا‘ تو پھر ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ 2014ء میں ملک میں پہلی بار کسی ایک اپوزیشن پارٹی کی واضح اکثریت کی سرکار بنی۔ لوگوں کی امیدیں آسمان کو چھونے لگی تھیں۔ ہندتوا وادی سوچنے لگے اب ساورکر گولولکر کے خوابوں کا بھارت بنے گا۔ غیر سیاسی عوام نے سوچا کہ ایک مضبوط لیڈر آیا ہے‘ پہلی بار وہ بھارت کا نقشہ ہی بدل دے گا۔ مودی نے بھی ایک سے ایک بڑھ کر وعدے کیے۔ وہ وعدے جملے بن کر رہ گئے۔ نوٹ بندی‘ جی ایس ٹی‘ فرضی سرجیکل سٹرائیک‘ سی بی آئی‘ ریزرو بینک وغیرہ جیسے معاملات نے ثابت کیا کہ یہ سرکار بے رحم اور بے لگام ہے۔ اس کے پاس نہ عقل ہے اور نہ ہی تجربہ! یہ نوکر شاہوں کی نوکر ہے۔ ہندو پرستوں کو افسوس ہے کہ یہ وطن پرست سرکار کانگریس سے بھی بد تر نکلی۔ نہ رام مندر بنا اور نہ مسئلہ کشمیر حل ہوا۔ مجبور ہو کر اب سنگھ کو بھی بولنا پڑ رہا ہے چاہے دبی زبان سے ہی سہی۔ مودی سرکار نے پہلے شیڈول کاسٹ والوں کی طرف داری کی اور پھر سوناروں کو دس فیصد ریزرویشن دیا۔ نہ وہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا۔ اس سے بھی زیادہ برا یہ ہوا کہ مودی کی ذاتی حیثیت اندرا گاندھی کی ایمرجنسی والی شان سے بھی بد تر بن گئی ہے۔ ایڈوانی اور جوشی کے ساتھ جو برتائو ہو رہا ہے‘ اور بھاجپا کے وزرا‘ وزرائے اعلیٰ اور کارکنوں کی جو حالت ہے‘ اس نے بھاجپا کو بھائی بھائی کمپنی میں بدل دیا ہے۔ اسی لیے اپوزیشن کے لیڈروں کے پاس کوئی نعم البدل پلاننگ نہ ہونے کے باوجود لوگ ان کی آواز پر کان دے رہے ہیں یعنی اس طرف توجہ مبذول کر رہے ہیں۔ دراصل ہندوستانی سیاست کا مزاج بدل چکا ہے۔ وہ ہندوستان جو 2014ء کے پارلیمانی چناؤ کے وقت نریندر مودی کا عاشق ہو رہا تھا وہی ہندوستان اب نریندر مودی سے پناہ مانگ رہا ہے۔
اپوزیشن کیا کرے: دیوی گوڑا کا مشورہ
کولکتہ میں ہوئے بڑے جلسے کے بارے میں لکھ چکا ہوں‘ اب میں بڑے اتحاد کے بارے میں لکھوں گا۔ ملک کی چار پانچ چھوٹی بڑی پارٹیوں کے علاوہ وہاں سبھی کا جماوڑہ تھا‘ لیکن کیا یہ جماوڑہ کسی اتحاد میں بدل سکتا ہے؟ ایسے پانچ چھ جماوڑے ابھی ملک میں اور بھی ہونے ہیں۔ اس سے ملک میں لیڈر شپ کی تبدیلی کا ماحول تو کھڑا ہو جائے گا لیکن جیسا کہ ہمارے گائوں میں ایک کہاوت ہے کہ 'کانی کے بیاہ میں سو سو جوکھم‘ چنانچہ یہ بڑا اتحاد‘ بڑا گڑبڑ اتحاد بھی ہو سکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ 31 فیصد ووٹ کی مودی سرکار کو یہ ستر 75 فیصد ووٹوں سے گرا دے گا؟ یہ آسان نہیں ہے۔ کولکتہ میں ہوئے لیڈروں کے بھاشن کافی دم دار تھے‘ لیکن سب سے کام کی بات سابق وزیر اعظم دیوی گوڑا نے کی ہے۔ انہوں نے اس نئے اتحاد کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے بارے میں سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ جن پارٹیوں کے لیڈر کولکتہ میں ایک ہی میچ پر جٹ گئے ہیں‘ الگ الگ صوبوں میں آپس میں ٹکرانے کے لیے مجبور ہیں‘ جیسے دلی میں آپ پارٹی اور کانگریس اور ترن مول اور کشمیر میں بھی یہی حال ہے۔ اڑیسہ کی اپنی الگ پٹڑی ہے اور کیرل کی بھی۔ کرناٹک میں بھی کون کتنی سیٹیں لیتا ہے‘ کچھ پتا نہیں۔ دیوی گوڑا جی کا کہنا ہے کہ ان اندرونی مسائل کا حل پہلے ہونا چاہیے۔ اس اتحاد کو کہیں سیٹوں کا یہ بٹوارہ ہی نہ لے بیٹھے۔ دوسری بات انہوں نے کہی کہ مانو آپ نے مودی کو ہٹا دیا‘ لیکن آپ اس کے بعد کیا کریں گے؟ کیا آپ بھی مودی کی طرح جملہ بازی کر کے لوگوں کو وعدوں کی پھسل پٹی پر چڑھا دیں گے؟ آپ ایک ٹھوس منشور کیوں نہیں تیار کرتے جس کی بنیاد پر لوگوں کی سچی خدمت ہو سکے۔ تیسری بات انہوں نے سب سے اہم کہی کہ بھاجپا کے ہر امیدوار کے خلاف اپوزیشن کا صرف ایک ہی امیدوار ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہو جائے تو آج تو کوئی لہر نہیں ہے‘ لیکن 2014 ء کی کانگریس کے خلاف لہر میں اگر مودی کو صرف 31 فیصد ووٹ ملے تھے تو ان کی تعداد اب تو نصف تک کم ہو سکتی ہے۔ یعنی بھاجپا کو سو سیٹیں بھی مل جائیں تو غنیمت ہے۔ آج بھارت کی سیاست سے اصول اور نظریہ کی ہجرت ہو چکی ہے۔ اقتدار ہی حقیقت ہے‘ باقی سب جھوٹ ہے۔ اقتدار سے خدمت اور خدمت سے اقتدار لیا جائے تو کچھ بھی برا نہیں ہے۔ یہی بات دیوی گوڑا جی نے کہی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عام ہندوستانی کا پچھلے ساڑھے چار سالوں کا تجربہ اتنا تلخ رہا ہے کہ اب وہ مودی کو دوبارہ جھیلنے کو تیار نہیں ہے۔ کسان رو رہا ہے، دیہاتوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ جتنا خرچ ہو رہا ہے اس سے کہیں کم فصلوں کی قیمت ہے۔ دکاندار دکان تو کھولتا ہے لیکن خریدار غائب ہے۔ چھوٹا کاریگر اور کارخانہ دار ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے کیونکہ نوٹ بندی نے تجارت پر تالا لگا دیا ہے۔ نوجوان نوکریوں کے لیے جوتے رگڑ رہے ہیں۔ نئی نوکریاں تو چھوڑیے، خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق محض مرکزی حکومت میں 2014ء سے اب تک 75000 نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔ ملک زبردست معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ نریندر مودی پوری طرح ناکام وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے عوام کو سبز باغ تو دکھائے لیکن ان کے پاس حکومت چلانے کی بصیرت قطعاً نہیں تھی۔ بس یوں سمجھیے کہ ملک میں نریندر مودی کے خلاف ایک سیاسی طوفان کروٹ لے رہا ہے۔ ممتا بینر جی کی کولکتہ ریلی اس طوفان کا پیش خیمہ تھا۔ ملک کی چھوٹی بڑی تمام اپوزیشن پارٹیاں یونہی کولکتہ بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ میں جمع نہیں ہو گئیں۔ دراصل ان تمام پارٹیوں کے لیڈروں پر دباؤ ہے کہ وہ اکٹھا ہوں اور ہر حال میں اگلے لوک سبھا انتخابات میں کسی طرح مودی حکومت کا خاتمہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں