"DVP" (space) message & send to 7575

یا مودی یا لا قانونیت؟

کولکتہ میں ہوئے ایک بڑے جلسے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر تعلیم پرکاش جاوڑیکر نے کافی تیز رد عمل ظاہر کیا ہے۔ مودی اور راہول گاندھی کے خلاف رد عمل دکھانے کی ہمت کس کی ہو سکتی ہے؟ اس لیول تک پہنچنا ہی مشکل ہے‘ لیکن جاوڑیکر نے اپنے اظہار خیال میں بڑی پتے کی بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2019ء میں یا تو مودی آئیں گے‘ یا پھر لا قانونیت۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر مودی جی نہیں آتے تو لا قانونیت کا آنا طے ہے۔ میرے خیال میں ان کی اس بات میں تھوڑا دم ضرور ہے‘ کیونکہ ابھی تک جو بھی اتحادی سرکاریں بنی ہیں یا تو وہ سال دو سال میں گر جاتی رہی ہیں یا ان میں اتنی کھینچا تانی چلتی ہے کہ ان کا اپنا چلنا یا نہ چلنا ایک برابر ہو جاتا ہے۔ اس طرح پورا نظام تعطل اور جمود کا شکار نظر آنے لگتا ہے۔ حکومت ہوتی ہے اور نہیں بھی ہوتی۔ کاروبارِ سیاست چلتا ہے اور نہیں بھی چلتا۔ اب کولکتہ میں جس اتحاد کا بیج بویا گیا ہے‘ اس میں ایسی پارٹیاں ایک جٹ ہو رہی ہیں‘ جو کسی زمانے میں ایک دوسرے کی جانی دشمن مانی جاتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں‘ اس اتحاد میں کم از کم دو درجن لیڈر ایسے ہیں‘ جن کے سینے میں عہدہ وزیر اعظم دھڑک رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے خواہش مند اور موقع ملنے پر اس پر براجمان ہونے اور رہنے کے منتظر ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کی سرکار بن گئی تو وہ کسی بھی حالت میں پانچ برس کیسے پورے کرے گی؟ یہاں ایک اور سوال ہمارے سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔ یہ کہ آپ نے پانچ برس سرکار چلائی‘ لیکن گپیں جھاڑنے کے علاوہ کیا کیا؟ ایک چھلنی ہے‘ جس میں چھید ہی چھید ہیں۔ اٹل جی ہی کو لے لیں‘ ان کی دوسری سرکار کیا پانچ برس کی تھی؟ انہوں نے ایٹمی دھماکے کیے۔ بھارت کی خود مختاری کا ناقوس پھونکا۔ وہ تو صرف 13 ماہ کی سرکار تھی‘ مارچ 1998ء سے اپریل 1999ء تک! وہ سرکار واضح اکثریت کی سرکار بھی نہیں تھی۔ لیکن اٹل جی نے 56 انچ سینے کی کبھی ڈینگ نہیں ماری۔ ڈاکٹر لوہیا ہم نوجوانوں سے کہا کرتے تھے کہ ''زندہ اقوام پانچ برس انتظار نہیں کرتیں‘‘۔ اگر ان کے اس قول کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مودی کو پانچ برس دوبارہ مل گئے تو ڈر ہے کہ کہیں بھاجپا اور سنگھ کا نام و نشان ہی نہ مٹ جائے۔ ایسا مٹ جائے کہ نہ کوئی اقتداری پارٹی رہے‘ اور نہ ہی کوئی اپوزیشن پارٹی۔ ایک ایسا بھارت بن جائے جو بھاجپا اور کانگریس دونوں سے فری ہو۔ کیا وہ لا قانونیت والا بھارت نہیں ہو گا؟ پانچ برس تک گھسٹنے والے لا چار بھارت سے کیا زیادہ اچھا وہ ''لا قانونیت‘‘ والا وہ بھارت نہیں ہو گا‘ جو سال دو سال چلے لیکن جم کر چلے‘ دوڑے اور دنیا کو بتائے کہ حکومت کرنا کیا ہوتا ہے۔ سرکاریں تو توے پر چڑھی روٹیوں کی طرح ہوتی ہیں‘ انہیں الٹنے پلٹنے پر ہی وہ جلنے سے بچ پاتی ہیں‘ اور اچھی سِک سکتی ہیں۔ گزشتہ ستر برس میں کئی اتحادی سرکاریں بنیں‘ لیکن کون سی لا قانونیت پھیل گئی؟
سبری مالا سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت
کتنی عجیب بات ہے کہ سبری مالا مندر میں کیرل کی جن دو عورتوں نے اندر جا کر عبادت کرنے کی ہمت دکھائی‘ ان کے ساتھ بد تر سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ دو عورتیں ہیں‘ کنک درگا اور بندو۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان دونوں کو کسی سرکاری دارالامان میں رہنا پڑ رہا ہے‘ وہ بھی پولیس کی حفاظت میں۔ کنک درگا کے سسرال اور والدین کے گھر والوں‘ دونوں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ وہ اپنے سسرال گئی یعنی اپنے گھر میں گئی تو اسے اس کے بچے سے نہیں ملنے دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں‘ اس کی 78 برس کی ساس نے اسے اتنا مارا کہ اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ ہسپتال سے ٹھیک ہو کر جب وہ اپنے ماں باپ کے گھر گئی تو اس کے بھائی نے اسے نکال باہر کیا‘ اور کہا کہ آئندہ اسے وہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا بھائی کنک درگا کی طرف سے سماج سے معافیاں مانگ رہا ہے کیونکہ اس کی42 برس کی بہن نے ایک گناہ کر دیا ہے۔ اس کا گناہ کیا تھا؟ وہ یہ کہ وہ بالغ عمر کی عورت ہوتے ہوئے بھی سبری مالا مندر کے اندر چلی گئی‘ جبکہ آٹھ سے پچاس برس تک کی عورتوں کا وہاں داخلہ ممنوع ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس پابندی کے غیر مناسب ہونے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود کیرل میں سیاست کا اتنا نفرت والا چہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اقتداری مارکس پرست پارٹی عدالت کے فیصلے کی حمایت کر رہی ہے تو بھاجپا اور کانگریس اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ لگ بھگ پچپن لاکھ خواتین نے اس فیصلے کی حمایت میں انسانی دیوار کھڑی کی تھی‘ لیکن اب عقیدے اور جھوٹ میں پھنسے لوگ اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اس صورتحال کا سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ سبری مالا کا یہ ایشو مجھے ایک اور معاملے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ مودی حکومت بابری مسجد کے مسئلے کو عدالت کے ذریعے حل کرانے پر لٹکی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عدالت کے فیصلے کو کیرل میں وہ نافذکیوں نہیں کروا دیتی؟ اس نے منہ پر پٹی کیوں باندھ رکھی ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ سبری مالا کے فیصلے سے سرکار سبق سیکھے اور ایودھیا کے مسئلہ کو عدالت سے باہر لے آئے اور تینوں مقدمہ باز پارٹیاں کے بیچ بحث کروا کر اسے محبت سے حل کروائے۔ 
وینزویلا: نئی سرد جنگ 
لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا میں ویسے ہی حالت دکھائی پڑ رہی ہے‘ جیسی 1962ء کے کیوبا میں بن رہی تھی۔ جو تنائو وہاں ابھی چل رہا ہے‘ اگر ایک ہفتے میں وہ نہ سلجھا تو کوئی تعجب نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی سرکار وہاں اپنی افواج چڑھا دے۔ امریکہ کی حمایت سبھی یورپی ملک کر رہے ہیں‘ لیکن روس اور چین اس کی مخالفت کر رہے ہیں ‘جیسا کہ انہوں نے فیڈل کاسترو کے وقت کیوبا میں کیا تھا۔ کیوبا اور وینزویلا کی حالت میں فرق یہ ہے کہ یہاں یہ معاملہ بالکل اندرونی ہے۔ اس کا بڑی قوتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے‘ لیکن ٹرمپ جیسے عظیم لیڈر اپنا پائوں پھڈے میں پھنسائے بنا مانتے نہیں ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وینزویلا کے صدرنکولس مادورو اپنی کرسی خالی کریں۔ وہ گزشتہ برس صدارتی چنائو جیت گئے تھے لیکن ان پر دھاندلی کے الزامات ہیں۔ ابھی ابھی ہوئی ایم پی چنائو میں مادورو کے مخالفین کی واضح اکثریت ہو گئی تھی۔ ان کے 35 برس کے لیڈر یووان گوویدو نے صدر ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ درجنوں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ یوں تو وینزویلا تیل کی پیداوار والا ایک بڑا ملک ہے لیکن 1998ء میں مشہور لیڈر ہوگو شاویز کے صدر بنتے ہی اس کی اکانومی نیچے کی طرف سرک گئی تھی۔ انہوں نے بیرونی ممالک سے قرض لے کر عوام کو خوش کرنے کے لیے اندھا دھند رعایات دینا شروع کر دیں۔ آج وینزویلا کی حالت یہ ہے کہ عام آدمی کے استعمال کے چیزوں کے دام سونے چاندی کے برابر ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے لوٹ مار کرنا پڑتی ہے۔ کمیونسٹ شاویز کی روایت کو مادورو نے بھی جاری رکھا۔ مادورو نے 2013ء میں اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ پانچ برس میں وینزویلا میں اتنی مشکلات پیدا کر دی ہیں کہ اب ان کی کرسی اپنے آپ ہل رہی ہے۔ شاویز اور مادورو کے دور میں وینزویلا میں روس اور چین کا دخل بڑھا ہے‘ اقتصادی اور فوجی دونوں۔ یہاں امریکہ اور روس دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے دِکھ رہے ہیں‘ جیسے کہ وہ شام اور عراق میں دکھتے رہے ہیں۔ وینزویلا کا معاملہ سلامتی کونسل میں پہنچ گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ وہاں مداخلت نہیں کر پائے گی‘ کیونکہ چین اور روس کا ویٹو ہو جائے گا۔ بہتر یہی ہے اس معاملے کو وینزویلا کے لوگ خود حل کریں‘ ورنہ ایک نئی سرد جنگ کا آغاز تو ہو ہی چکا ہے۔ یہ سرد جنگ ایک گرم جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے‘ کیونکہ منرو اصول کے مطابق لاطینی امریکہ کے ملکوں کو امریکہ اپنے ہی علاقے کا ملک سمجھتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں