"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت میں بے روزگاری اور حکومتی جملے بازی

وزیر خزانہ پیوش گویل کی بجٹ تقریر اتنی پر اثر تھی کہ اپوزیشن نا امید ہو گئی تھی۔ وہ اکیلی تقریر نریندر مودی کی گزشتہ پانچ برسوں کی تقاریر کے مقابلے بھی بھاری پڑ رہی تھی اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی بجٹ بھاشن نے لوک سبھا میں ایسا کرشماتی ماحول پیدا کیا ہو‘ جیسا پیوش کے بھاشن نے کیا‘ لیکن حیرانی ہے کہ بے روزگاروں کو روزگار کی فراہمی کا وزیر خزانہ نے ذکر تک نہیں کیا۔ اگر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے سرکار کی آمدنی کئی لاکھ کروڑ روپے بڑھ گئی تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارت میں بیکاری کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آفس کی تازہ رپورٹ کہتی ہے کہ اس وقت ملک میں جیسی بیکاری پھیلی ہوئی ہے‘ ویسی گزشتہ 45 برس میں کبھی نہ پھیلی تھی۔ من موہن‘ سونیا سرکار کے دوران کتنی ہی بد عنوانی ہوئی‘ لیکن اس دوران آج کی نسبت بیکاری کافی کم تھی۔ اب اس سے تین گنا زیادہ ہے۔ 2017-18 میں 15 سے 29 برس کے دیہاتی نوجوانوں میں 17.4 فیصد بے روزگار ہیں‘ جبکہ 2011-12 میں یہ شرح صرف پانچ فیصد تھی۔ یہ آنکڑے ایک انگریزی اخبار میں کیا شائع ہوئے کہ سرکار میں کہرام مچ گیا۔ پالیسی سازوں نے کہا کہ ان آنکڑوں والی رپورٹ کو سرکار نے مستند نہیں کیا ہے‘ یعنی اس کی حکومت نے توثیق نہیں کی ہے۔ اس پر قومی کمیشن کے دو ممبران نے استعفے دے دیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ اپنے آپ میں مستند مانی جاتی ہے‘ اس پر سرکاری ٹھپے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ کافی سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس کے سبب یہ شک بھی پیدا ہوتا ہے کہ سرکار نے ابھی تک جی ڈی پی وغیرہ کے بارے میں جو بھی آنکڑے پیش کیے ہیں‘ اور پیوش نے اپنے بجٹ بھاشن میں اکانومی کی جو رنگین تصویر پیش کی ہے‘ وہ بھی کہیں فرضی آنکڑوں پر تو مدار نہیں رکھتی ہے؟ ان آنکڑوں کو لے کر کانگریس مودی کو ہٹلر کہہ رہی ہے تو بھاجپا راہول کو مسولینی قرار دے رہی ہے‘ لیکن کوئی لیڈر یا کوئی پارٹی یہ نہیں بتا رہی کہ ساڑھے چھ کروڑ بے روزگار نوجوان کیا کریں‘ کہاں جائیں‘ اپنا پیٹ کیسے بھریں؟ ملک کی دونوں مخصوص پارٹیاں اور اس کے لیڈر کسانوں‘ نوجوانوں‘ عورتوں‘ ٹیکس دینے والوں کو طرح طرح کے لولی پوپ پکڑا رہے ہیں تاکہ ان سے اپنے ووٹ پٹا سکیں۔ بھارت میں سوچ‘ اصول اور پالیسی کا مقام جملوں نے لے لیا ہے۔
یہ بجٹ ہے کہ پھسل پٹی؟
گزشتہ دنوں جو بجٹ پیوش گویل نے پیش کیا‘ اس نے اپوزیشن کی ہوا نکال دی تھی۔ ان کی بولتی بند کر دی تھی۔ ان کے لٹکے ہوئے چہرے بتا رہے تھے کہ انہیں اس بجٹ سے کتنا ڈر لگ رہا تھا۔ اب وہ اس نکتے کو لے کر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ پیوش نے تین چار مہینے کے سرکاری خرچ کی اجازت ایوان سے لینے کی بجائے پورے سال بھر کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ تین چار مہینے بعد پتا نہیں کون سی سرکار بنے گی۔ اسے یعنی نئی حکومت کو اس سرکار کا بوجھ بھی ڈھونا پڑے گا۔ دلیل کے حساب سے یہ بات ٹھیک ہے لیکن حالیہ بجٹ میں ایسی کوئی بھی اعتراض والی بات دکھائی نہیں پڑتی‘ جو ملک کے لیے نقصان دہ ہو۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ شہریوں کو جو رعایات دی گئی ہیں‘ ان سے سرکار کا نقصان 3.3 سے بڑھ کر 3.4 فیصد ہو جائے گا‘ یعنی اربوں روپے بڑھ جائے گا‘ لیکن کانگریس سرکار میں یہ 2.7 سے بڑھ کر 5.8 فیصد ہو گیا تھا۔ اپوزیشن کا کہنا کہ یہ چناوی بجٹ ہے‘ بالکل ٹھیک ہے۔ اگر اس موقع کو مودی سرکار نہیں بھناتی (اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاتی) تو کیا کرتی؟ بابری مسجد کا معاملہ ابھی بیچ میں لٹکا ہوا ہے۔ اس کے پاس اپنی کھال بچانے کا اور کون سا راستہ رہ گیا ہے؟ پانچ لاکھ روپے تک کی انکم پر ٹیکس کی رعایت دے کر لگ بھگ تین چار کروڑ لوگوں‘ کسانوں کو 6000 روپے سالانہ دے کر چودہ کروڑ خاندانوں اور 42 کروڑ مزدوروں کو (جن کی انکم 15000 روپے تک ہے) پینشن کی گولی دے کر یہ سرکار اپنا ووٹ پٹانا چاہتی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ سبھی پارٹیاں ووٹ پٹانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناتی ہیں۔ کیا کانگریس نے ہر آدمی کو کم از کم انکم کا رس گلا نہیں دکھایا ہے؟ دونوں پارٹیاں لوگوں کو سبز باغ دکھاتی ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ عین چنائو (الیکشن) کے وقت دی گئی ان رعایات کو عوام رشوت کی ایک شکل سمجھیں یا اعلیٰ پالیسیوں میں سے ایک۔ یہ تو کسان ہی بتا سکتا ہے کہ 3 روپے روزانہ میں وہ کیا نہائے گا اور کیا نچوڑے گا؟ کسی کسان کو تین روپے روز دینے کو کیا ہم کسان کو تسلی بخش امداد کہہ سکتے ہیں؟ وہ تو خیرات سے بھی کم ہے۔ کچھ دینا ہی تھا تو اسے تلنگانہ اور اڑیسہ جیسا کچھ دیتے۔ کیا کوئی انکم ٹیکس دینے والا دس پندرہ ہزار روپے کے ٹیکس کی بچت پر اپنے دماغ کو بیچ ڈالے گا؟ اپنا ووٹ دیتے وقت کیا وہ آنکھ بند کر لے گا؟ کوئی مزدور ساٹھ برس کا ہونے پر یعنی چالیس‘ پینتالیس سال بعد تین ہزار روپے مہینہ پینشن میں اپنا گزارا کیسے کرے گا؟ ان تین ہزار روپوں کی قیمت ان تین سو روپے کے برابر بھی نہیں رہے گی، پھر بھی آپ عام آدمی کو پھسلنے سے کیسے روکیں گے؟ 
یہ کیسے بھارت رتن ہیں؟ 
اعزاز ''بھارت رتن‘‘ کو ملک کا سب سے اونچا اعزاز کہا جاتا ہے لیکن اس بار جن تین لوگوں کو یہ اعزاز دیا گیا ہے‘ انہیں دے کر ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار اپنی توہین کروا رہی ہے۔ کئی اخباروں اور ٹی وی چینلوں نے ان اعزازات کے پیچھے پھیلی نا امیدی کھوج نکالی ہے۔ پرنب مکھرجی کو اس لیے بھارت رتن بنایا گیا ہے کہ مغربی بنگال میں ممتا لہر کو روکنا درکار ہے۔ یہ لہر اب بنگال کے باہر بھی پھیلتی نظر آ رہی ہے۔ بھوپین حاضریکا کو اس لیے بھارت رتن دیا گیا ہے کہ نیشنلٹی قانون کے خلاف آسام میں چل رہی بغاوت پر قابو پانا مقصود ہے اور نانا جی دیش مکھ کو مودی سرکار نے اس آخری وقت پر اس لیے یاد کیا ہے کہ شیڈیولڈ قانون اور رام مندر پر ناراض چل رہے ہندو اتحادوں کا غصہ اسے ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ مودی سرکار کے بھارت رتنوں کی یہ چیر پھاڑ اتنی عجیب لگ رہی ہے کہ ہم چاہتے ہوئے بھی اسے رد نہیں کر پا رہے۔ دوسرے الفاظ میں بھارت رتن جیسے اعلیٰ اعزاز کو بھی یہ سرکار اپنا چناوی ہتھکنڈا بنانے سے نہیں چوک رہی ہے۔ لیکن اس کے لیے سرکار کی شکایت کیوں کی جائے؟ سرکار بنانے کے لیے جس بھی حربے کا استعمال کرنا پڑے‘ کرنا ہی ہوتا ہے۔ سرکار کوئی انعام یا اعزاز دے اور اس میں فرق نہ کرے‘ اپنے پرائے کا فرق نہ رکھے‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی لیے ان اعزازات اور انعامات کی حیثیت صرف کاغذی رہ جاتی ہے‘ جو سرکاروں کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔ اگر سرکاریں خالص قابلیت کی بنیاد پر اعزاز دینے لگیں تو ان کا سرکار پنہ ہی ختم ہو جائے گا۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ سرکار سبھی اعزاز من مانی پر دیتی ہے۔ کچھ لائق لوگوں کو بھی دینے پڑتے ہیں‘ لیکن حیرانی ہوتی ہے کہ جب پرنب مکھرجی جیسے نوکر شاہ قسم کے غیر لیڈر کو آپ بھارت رتن بناتے ہیں اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا‘ چندر شیکھر‘ سور ننبودی ریاد جیسے مفکر زندگی قربان کرنے کے باوجود اور دوسرے محنتی لیڈر آپ کی نظر سے کیسے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ نانا جی دیش مکھ بہت خوبیوں کے دھنی تھے۔ ان سے میرا گہرا تعارف بھی تھا‘ لیکن کیا ان کے پہلے گروگولولکر جی کو بھارت رتن اعزاز دیا جانا ٹھیک نہ ہوتا؟ خود نانا جی ہوتے تو وہ بھی یہی کہتے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سرکار کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اپنے دماغ کو استعمال کرنے سے پرہیز کرتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں