بھارت کی سیاست کدھر جا رہی ہے؟ کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ کوئی اپوزیشن لیڈر وزیر اعظم کو چور اور دلال کہتا ہے تو سرکار میں بیٹھے سیاست دان حزب اختلاف کے لیڈروں کو بد عنوان‘ گھامڑ‘ بے عقل وغیرہ جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ان دنوں سیاست میں کیا کیا نہیں کہا جا رہا۔ ملک کی بڑی بڑی پارٹیوں کے بڑے بڑے لیڈروں نے اپنی زبان بالکل بے زبان کر دی ہے۔ پڑوسی ممالک میں چناوی دنگل ہوتے ہیں۔ وہاں بھی باہمی لیڈر ایک دوسرے کے خلاف خم ٹھوکتے ہیں‘ لیکن میں نے انہیں کبھی اتنے نیچے لیول پر اترتے نہیں دیکھا۔ اتنی گھٹیا باتیں کرتے ہوئے نہیں سنا۔ بھارت تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور جنوبی ایشیا کا یہ سب سے بڑا ملک ہے۔ پڑوسی ملک اس سے کیا سیکھیں گے؟ اتنا ہی نہیں‘ آج کل جمہوریت کو پلیتا لگانے کے لیے نئے حربے چل پڑے ہیں۔ آپ کے پاس اقتدار ہے تو آپ اپنے مخالفین کو مظاہرہ نہ کرنے دیں‘ جلوس مت نکالنے دیں۔ ابھی اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کو الٰہ آباد یونیورسٹی میں نہیں جانے دیا گیا۔ انہیں لکھنؤ کے ہوائی اڈے میں جہاز پر چڑھنے سے پولیس نے روک دیا تھا‘ حالانکہ پولیس کے پاس تحریری طور پر حکم نامہ بھی نہیں تھا‘ انہیں روکنے کا۔ انہیں یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ وہ الٰہ آباد یونیورسٹی کے طلبا کے حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوں گے‘ تو وہاں ہنگامہ پھیل جائے گا۔ اتر پردیش کی سرکار سے کوئی پوچھے کہ کیا الٰہ آباد میں کوئی سرکار نہیں ہے۔ اگر ہے تو ہنگامہ کرنے والوں کو روکنے اور پکڑنے کی ذمہ داری اس کی ہے یا نہیں؟ اور پھر ہنگامہ ہوا کہ نہیں؟ صرف الٰہ آباد اور لکھنؤ میں ہی نہیں‘ کئی جگہ ہو گیا۔ یہاں اصلی ڈر ہنگامے کا نہیں‘ اپنے مخالف لیڈر کا ہوتا ہے۔ یہ ڈر ممتا بینر جی کو بھی تھا۔ اسی لیے انہوں نے بھاجپا کے امیت شاہ‘ شوراج سنگھ چوہان اور یوگی آدتیہ ناتھ کے مغربی بنگال میں ہونے والے پروگرام میں اڑنگا لگایا۔ مزا یہ ہے کہ یہاں ممتا گرو اور یوگی چیلا بن گئے‘ لیکن گرو نے چیلے کی سخت الفاظ میں مذمت کر دی۔ ممتا نے اکھلیش کا ساتھ دیا۔ یہ معاملہ قانون اور انتظامیہ کا اتنا نہیں ہے‘ جتنا سیاست کی اٹھا پٹخ کا ہے۔ یہی کام لالو پرساد نے 1990ء میں لعل کرشن ایڈوانی کو پکڑ کر کیا تھا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ چودھری چرن سنگھ نے ایسی ہی دھمکی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھی دی تھی۔ یہ اپنے قانونی حق کا خالص غلط استعمال ہے۔ ایسے معاملات کو بھارتی عدالت میں چنائوتی دی جانی چاہیے اور اس طرح کی ہدایات جاری کرنے والوں پر جرمانہ بھی ٹھوکا جانا چاہیے‘ ورنہ آج کل کے چناوی ماحول میں کوئی بھی وزیر اعلیٰ انتظام اور امن کے بہانے کسی بھی لیڈر کو گرفتار کر لے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کام بھارتی جمہوریت کو مذاق میں نہیں بدل دیتا؟
رافیل: شک اب بھی باقی ہے!
رافیل سودے کی رپورٹ ایوان میں کیا پیش ہوئی کہ اجالا اور اندھیرا ایک ساتھ ہو گیا ہے۔ سرکار کے لوگ اپنے پشت خود ہی تھپتھپا رہے ہیں‘ یہ کہتے ہوئے کہ اس رپورٹ کے مطابق من موہن سرکار جس دام پر یہ جہاز خرید رہی تھی‘ مودی سرکار نے وہ سودا 2.86 فیصد سستے میں کیا ہے‘ جبکہ اپوزیشن اسی رپورٹ کی کئی غلطیاں نکال نکال کر بتا رہی ہے کہ ہماری سرکار نے رافیل سودے میں فرانسیسی سرکار اور داسو کمپنی کے آگے کیسے گھٹنے ٹیکے ہیں۔ بارہ برس سے چل رہی یہ سودے بازی بوفورس کے توپوں سے بھی زیادہ گالی گلوچ پیدا کر رہی ہے۔ مودی من موہن‘ دونوں سرکاریں اپنی اپنی شان بچانے کی کوشش کر رہی ہیں‘ لیکن دونوں پارٹیاں‘ کانگریس اور بھاجپا‘ ملک کو یہ ٹھیک سے بتا نہیں پا رہی ہیں کہ اربوں کھربوں روپے کے یہ سودے صاف ستھرے کیوں نہیں ہو سکتے؟ ان میں اتنا لمبا وقت کیوں لگتا ہے؟ سرکار یہ کیوں نہیں بتا پا رہی ہے کہ اس نے پانچ سو کروڑ کا جہاز سولہ سو کروڑ روپے میں کیوں خریدا؟ گزشتہ بارہ برس میں مہنگائی اور ڈالر اور یورو کی قیمت کتنی بڑھی؟ اس جہاز میں کیا کیا نئے آلات جوڑے گئے؟ اس بڑھی ہوئی قیمت کے پیچھے اگر کوئی راز ہے تو انہیں سرکار ضرور ظاہر نہ کرے‘ لیکن اس قیمت کو درست ٹھہرانے کے لیے اگر وہ اس رپورٹ کا ٹیکا لینا ضروری سمجھتی ہے تو اپنے ارادوں پر خود ہی شک پیدا کر رہی ہے۔ یہ شک تب اور بھی گہرا ہو جاتا ہے جب اس سودے کے بھارتی شہری انیل انبانی کی کمپنی کا نام آتا ہے۔ ایسی کمپنی‘ جسے دفاعی سودوں کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ کچھ فرانسیسی اخباروں اور (ہندو) بھارتی اخبار نے اس سودے کی اتنی اندرونی پرتیں اکھاڑ کر رکھ دی ہیں کہ اگر راہول گاندھی (بوفورس والا خاندان) کی جگہ وشوا ناتھ پرتاپ سنگھ اور چندر شیکھر جیسا لیڈر آج اپوزیشن میں ہوتا تو چنائو کے پہلے ہی مودی سرکار کے بخیے ادھڑ جاتے۔
یہ پھر نہ بنے میدان جنگ
کنبھ میلہ کے موقع پر وشوا ہندو پریشد نے جو اعلان کیا ہے‘ اس کی وجہ سے پورے بھارت کے رام بھگت بے حد پریشان دِکھائی دے رہے ہیں۔ انہیں توقع تھی کہ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے دبائو کے تحت مودی سرکار ایودھیا کے مسئلے کا کوئی قابل عمل حل نکال لے گی۔ سنگھ اور ہندو پریشد‘ دونوں نے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا تھا اور وزیر اعظم نریندر مودی سے گزارش کی تھی کہ ایودھیا کے مسئلے کا حل نکالنے کے لیے وہ ایک آرڈیننس جاری کرائیں۔ لیکن پھر ان جماعتوں نے اگلے چار پانچ ماہ کے لیے خاموشی اختیار کر لی اور یہ طے کر لیا کہ وہ نہ تو کوئی مانگ کریں گی اور نہ ہی کوئی تحریک چلائیں گی‘ کیوں کہ دونوں پارٹیوں کے قائدین اسے ایک نیچ چناوی مدعہ نہیں بنانا چاہتے۔ اس میں شک نہیں کہ اس مدعہ کو لے کر ساری پارٹیاں جوتوں میں دال بانٹتی اور دیگر اہم مدعوں کو کھونٹی پر ٹانک دیتی ہیں۔ دونوں پارٹیاں اگر اپنا موقف تبدیل نہ کرتیں تو سب سے زیادہ نقصان بھاجپا کا ہوتا۔ اس کی حالت کانگریس جیسی ہو جاتی۔ جو نئی سرکار بنتی‘ اس کا کیا پتا وہ کیسی ہوتی؟ شاید وہ ایودھیا کے مدعہ کو مودی سرکار کی ہی طرح دری کے نیچے سرکا دیتی یا خود رام مندر کھڑا کر کے وہ بھاجپا‘ سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کی جڑوں کو کھٹا پلا دیتی۔ کانگریس نے تو ایسا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ اس معاملے میں میری واضح رائے یہ ہے کہ یہ معاملہ نہ عدالت سلجھا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی تحریک! یہ دونوں راستے ایسے ہیں‘ جن سے ایودھیا کا معاملہ آگے جا کر بھارت کے گلے کا پتھر بن جائے گا۔ اس معاملے یا مسئلے کا دائمی حل یہ ہے کہ ایودھیا کی اس ستر ایکڑ زمین میں سبھی مذاہب کی عبادت گاہیں کھڑی کی جائیں‘ اور وہاں ایک میوزیم اور ایک لائبریری بھی بنے۔ سرکار نے مقبوضہ زمین کی اس کے مالکوں کو واپس لوٹانے کی جو درخواست عدالت کو دی ہے‘ وہ مناسب اقدام نہیں کیا ہے۔ مودی سرکار کو چاہئے کہ اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لے۔ سوامی سوروپانند جی بھی تینوں درخواست کرنے والوں سے بات کریں۔ انہیں کسی ایک موقف کسی ایک فیصلے پر متفق کرائیں۔ 21 فروری سے تحریک نہ چھیڑیں۔ دنیا کے نوکر شاہوں کے نوکروں یعنی ہمارے لیڈروں پر روحانی مہربانی کریں۔ ان کی عقل اور دماغ کو بیدار کریں۔ ایودھیا کو اکیسویں صدی کو نیا میدان جنگ نہ بننے دیں۔
رافیل سودے کی رپورٹ ایوان میں کیا پیش ہوئی کہ اجالا اور اندھیرا ایک ساتھ ہو گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق من موہن سرکار جس دام پر یہ جہاز خرید رہی تھی‘ مودی سرکار نے وہ سودا 2.86 فیصد سستے میں کیا ہے‘ جبکہ اپوزیشن اسی رپورٹ کی کئی غلطیاں نکال نکال کر بتا رہی ہے کہ ہماری سرکار نے رافیل سودے میں فرانسیسی سرکار اور داسو کمپنی کے آگے کیسے گھٹنے ٹیکے ہیں۔