گزشتہ دنوں ہونے والی پاک بھارت مڈ بھیڑ سے بھارتی صحافی حضرات کو بڑی نصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے بھارتی فضائی فوج کے ایئر مارشل بی ایس دھنوا کے بیان کے بعد۔ دھنوا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 26 فروری کو پاکستان میں گھس کر جب ہمارے جہازوں نے بالا کوٹ پر بم برسائے تو ہمیں پتا نہیں کہ کتنے لوگ مارے گئے۔ دوسرے لفظوں میں بھارتی ایئر مارشل نے ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی کہ بالا کوٹ میں سینکڑوں انتہا پسند مارے گئے۔ اس کے باوجود ہمارے ٹی وی چینل الگ الگ دعوے کر رہے تھے۔ کوئی چار سو‘ کوئی ساڑھے تین سو‘ کوئی تین سو اور بھاجپا صدر ڈھائی سو انتہا پسندوں کے مارے جانے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ اس خبر کو دوسرے دن ہمارے اخبارات نے بھی جوں کا توں نگل لیا۔ خارجہ سیکرٹری سے ان کی پریس کانفرنس میں جب یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ مرنے والوں کے آنکڑے بتانا وزارتِ دفاع کا کام ہے۔ جب سرکاری ترجمان سے یہی سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ بالا کوٹ میں ہمارے جہازوں نے چار بلڈنگز کو گرایا‘ لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ وہاں کتنے لوگ مرے‘ کیونکہ نہ تو ہمارے وہاں جاسوس تھے اور نہ ہی ہمارے پاس اعلیٰ نوعیت کے آلات تھے۔ لگ بھگ اسی طرح کے دعوے پاکستان کے ایف 16 جہاز کو گرانے کے بارے میں بھی کئے جاتے رہے‘ لیکن ائیر مارشل دھنوا نے صرف اتنا ہی کہا کہ ہمارا مگ 21 ہوائی مڈ بھیڑ میں گر گیا۔ انہوں نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ کوئی ایف سولہ بھی گرایا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی میڈیا پر چلنے والی دونوں خبروں (بالا کوٹ میں حملے اور انتہا پسندوں کے مرنے اور ایف سولہ گرائے جانے) کی بھارت کے متعلقہ حکام کی جانب سے کوئی تصدیق نہیں ہو سکی‘ جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ خبریں غلط تھیں۔ لیکن بھارتی ٹی وی چینل اور اخبار بھارتی عوام کو یہی خبریں دیتے رہے اور ہم بھارتی اپنا سینہ پُھلاتے رہے کہ واہ‘ کیا غضب کا کام کیا ہے بھارتی فوجیوں نے۔ جب کسی بھی معاملے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے تو اس سے بھارتی سرکار کی شان خراب ہوتی ہے۔ اس کی باتوں اور دعووں پر سے لوگوں کا بھروسہ اٹھنے لگتا ہے۔ اس کی ذمہ داری بھارتی لیڈروں پر بھی اتنی ہی عائد ہوتی ہے‘ جتنی بھارتی صحافیوں اور میڈیا پر۔ صحافیوں کو کوئی بھی خبر واضح ثبوت کے بنا قطعی نہیں چلانی چاہیے۔ جنگ یا دنگوں یا ملکی مسائل کے وقت بے سر پیر کی خبریں بہت خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ وہ آگ میں تیل ڈالنے کا کام کرتی ہیں۔ بھارتی صحافیوں‘ خاص طور پر بھارتی ٹی وی چینلوں پر خبر پڑھنے والوں کی اصولاً ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بتائیں کہ ان کو کن ذرائع نے گمراہ کیا تھا۔
کشمیریوں کے نہیں‘ دہشتگردوں کے خلاف
مجھے خوشی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے تاخیر سے ہی سہی‘ آخر منہ تو کھولا۔ انہوں نے فروٹ بیچنے والے دو کشمیری لڑکوں پر لکھنؤ میں ہوئے حملے کے خلاف زور دار اپیل کی ہے۔ اگر ایسی ہی اپیل ملک کے عوام کے نام آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت بھی کریں تو اس کا اثر کہیں زیادہ ہو گا۔ پلوامہ واقعہ کے بعد صرف جموں میں ہی نہیں‘ بھارت کے کئی دیہات اور شہروں میں عام لوگ اتنے زیادہ غصے میں آ چکے تھے کہ ان کے ڈر کے مارے سینکڑوں کشمیری لوگ اپنے کام وغیرہ بند کر کے واپس کشمیر چلے گئے تھے۔ بھارتی عوام کا غصہ بھی فطری تھا‘ لیکن یہ مان بیٹھنا مناسب نہیں ہے کہ ہر کشمیری آدمی اسی طرح سوچتا ہے۔ کشمیر کے زیادہ تر لوگ دہشت گردی اور تشدد کو پسند نہیں کرتے لیکن وہ کیا کریں؟ وہ راتوں رات خود کو غیر کشمیری تو نہیں بنا سکتے۔ جو کشمیری بھارت کے دوسرے حصوں میں رہ کر اپنا کام چلا رہے ہیں‘ ان کی نفسیات تو اور بھی بہتر ہے۔ مودی نے کہا ہے ''یہ کشمیر ی لوگ ہمارے اپنے ہیں۔ جو کچھ سر پھرے لوگ ان بھائیوں پر حملہ کر رہے ہیں‘ ان کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کر دی گئی ہے‘‘۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک جلسے میں اعلان کیا کہ ملک کے الگ الگ حصوں میں پڑھ رہے کشمیریوں کے ساتھ ہمیں اپنے پن اور پیار بھرا سلوک کرنا چاہیے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ہی سارے وزرائے اعلیٰ کو چٹھی لکھ کر ہدایات دی تھی کہ کشمیریوں کی حفاظت کا پورا دھیان رکھا جائے۔ لیکن اس بات کو پڑھنے والے ہزاروں لاکھوں لوگوں سے میری درخواست ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے خلاف جو غصے والے پیغام واٹس اپ‘ ای میل‘ فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر بھیجتے ہیں‘ وہ برائے مہربانی تھوڑا صبر رکھیں۔ اگر وہ بھارت کے اندر بارودی ماحول بنانے کی کوشش کریں گے تو وہ دہشت گردوں کی مدد ہی کریں گے۔ غیر ضروری بولنے اور لکھنے سے ہم دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس وقت چٹانی حوصلے کی ضرورت ہے۔
بابری مسجد اور ثالث
'بابری مسجد رام مندر مدعہ عدالت سے نہیں بچولیوں (ثالثوں) کے ذریعے حل ہونا چاہیے‘ ہماری سپریم کورٹ کی اس پہل کا میں نے دلی خیر مقدم کیا تھا‘ کیوں کہ 1990-92ء میں شروع ہونے والی بحث ثالث کے ذریعے ہی حل ہونے کے قریب پہنچی تھی۔ لیکن آج یہ سن کر کہ وہ تین بچولیے (ثالث) خود سپریم کورٹ نے تعینات کر دیے ہیں اور انہیں دو مہینے کی مہلت دے دی ہے‘ میں تھوڑا پریشان ہو گیا ہوں۔ بے چارے بچولیوں کی عزت دائو پر لگ گئی ہے اور ان کا ثالثی والا کردار کامیاب ہو گا یا نہیں‘ یہ سوال بھی کھڑا ہو گیا ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ عدالت نے درخواست گزاروں سے ان بچولیوں کے بارے میں اتفاق رائے حاصل کر کے ہی انہیں تعینات کیا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ انہیں اہمیت کیوں دیں گے؟ اگر ان کی رضا مندی لے لی گئی ہو تو بھی دوسرا سوال یہ ہے کہ مسجد اور مندر کی بحث کیا ان پونے تین ایکڑ زمین کی ملکیت کا جھگڑا ہے؟ اگر وہ تینوں ثالث کسی بات پر متفق ہو بھی جائیں تو بھی مسلمانوں اور ہندوئوں کی بڑی جماعتیں اور لیڈر کیا ان کی بات مان لیں گے؟ ان کا فیصلہ تسلیم کر لیں گے؟ تینوں ثالث کیا بڑے ہندو مسلم لیڈروں کی رہبری قبول کریں گے؟ تین میں سے دو بچولیے تو ایسے ہیں‘ جن کا نام ہی لوگوں نے پہلی بار سنا ہے؟ مانا یہ جا سکتا ہے کہ یہ اگر تینوں بچولیے سپریم کورٹ کی تعمیل کر رہے ہیں۔ اگر یہی حقیقت ہے تو پھر عدالت بتائے (کم از کم‘ ان بچولیوںکو) کہ اس کے دماغ میں اس مدعہ کو حل کرنے کے بارے میں کیا کیا آپشن ہیں۔ اگر وہ بچولیے خالی ہاتھ جائیں گے تو ان کو خالی ہاتھ ہی لوٹنے کا ڈر زیادہ رہے گا۔ یہ وہ وقت ہو گا ‘جب چناوی ماحول آخری قدم پر ہو گا۔ ظاہر ہے کہ عدالت اس وقت فیصلہ دے کر اپنے گلے میں پتھر نہیں باندھنا چاہے گی۔ یعنی یہ معاملہ پھر ٹل جائے گا یا ٹال دیا جائے گا۔ یہاں مجھے سب سے زیادہ حیرانی مودی سرکار کی لقوہ میں مبتلا مریض جیسی حالت پر ہے۔ اگر چندر شیکھر اور نرسمہا رائو کی سرکاریں اس معاملے میں زبردست پہل کر سکتی تھیں تو مندر والی پارٹی بھاجپا کا یہ لیڈر خراٹے کیوں کھینچ رہا ہے اور اس نے اپنے گھوڑے کی لگام عدالت کے ہاتھ میں کیوں تھما دی ہے (یاد رہے کہ 1992-1990 میں تحریر کنندہ نے ایودھیا مسئلہ میں بچولیے یعنی ثالث کا کردار نبھایا تھا)۔
صحافیوں کو کوئی بھی خبر واضح ثبوت کے بنا قطعی نہیں چلانی چاہیے۔ جنگ یا دنگوں یا ملکی مسائل کے وقت بے سر پیر کی خبریں بہت خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ وہ آگ میں تیل ڈالنے کا کام کرتی ہیں۔ بھارتی صحافیوں‘ خاص طور پر بھارتی ٹی وی چینلوں پر خبر پڑھنے والوں کی اصولاً ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بتائیں کہ ان کو کن ذرائع نے گمراہ کیا تھا۔