مہاراشٹر کے گڑھ چرولی میں نکسلیوں کے حملے میں پندرہ پولیس والے ہلاک ہو گئے اور ایک ڈرائیور بھی مارا گیا۔ گڑھ چرولی کا یہ علاقہ چھتیس گڑھ کے راج نند گائوں سے لگا ہوا (ملحق) ہے۔ یوں حقیقت میں چھتیس گڑھ تو آج کل نکسل گڑھ بنا ہوا ہے۔ وہاں آئے دن نکسلی قتل جیسی وارداتیں کرتے رہتے ہیں۔ دوسری وارداتیں تو سمجھیں جیسے عام ہیں‘ روزانہ کا معمول ہیں۔ کوئی ایسا نہیں گزرتا جب ایسی وارداتیں نہ ہوتی ہوں۔ گزشتہ برس مہاراشٹر کی سرکار نے چالیس نکسلیوں کو مار ڈالا تھا‘ لیکن اس بار نکسلیوں نے اس کا بدلہ تو لے ہی لیا‘ انہوں نے چنائو میں ہوئی زبردست ووٹنگ کا بھی اپنا غصہ دل کھول کر نکالا ہے۔ انہیں یہ جان کر دھکا لگا تھا کہ گڑھ چرولی جیسی بیک ورڈ (پس ماندہ) جگہ پر لگ بھگ اسی فیصد ووٹنگ ہوئی یعنی انہیں اس بات پر حیرت ہو رہی تھی کہ جنگل میں رہنے والوں اور ان پڑھ لوگوں میں اتنی سیاسی بیداری کہاں سے آ گئی کہ وہ اپنے حقوق کے حوالے سے اور اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں اتنی زیادہ ووٹنگ کرنے لگے ہیں۔ وہ اس بات پر شدید حیران تھے کہ یہ جمہوریت والی بیداری ان میں کہاں سے آ گئی؟ یہ جمہوریت پسندی نکسل پرستوں کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے‘ کیونکہ جمہوریت پسند نوجوان ہتھیار کیوں اٹھائیں گے؟ وہ نکسل پر ست کیوں بنیں گے؟ وہ تشدد کیوں کریں گے؟ وہ تو اپنے حقوق کے لئے قانون کی جنگ لڑیں گے‘ جواز اور منطق کا راستہ اختیار کریں گے۔ ادھر ادھر مار دھاڑ کرنے کے بجائے پڑھ لکھ کر کوئی ڈھنگ کی نوکری کریں گے اور اپنے خاندان بسائیں گے۔ اس غنڈہ گردی میں کیا رکھا ہے ان کے لئے۔ ان اور ان جیسی دوسری تفکرات نے بھی نکسلیوں کو متاثر کیا اور برس بھر سے بدلہ لینے کی تیاری کر کے وہ اب تشدد کرنے پر اتارو (اتر آئے) ہو گئے ہیں۔ اور انہوں نے عملی طور پر ایسا کرنا شروع بھی کر دیا ہے۔ انہوں نے پہلے سڑک کے ایک ٹھیکے دار کی چھتیس گاڑیوں کو پھونک ڈالا‘ انہیں آگ لگا دی اور اب ان کا (نکسلیوں کا) پیچھا کرنے کے لیے مہاراشٹر کی پولیس گئی تو اس کی بس کو بم دھماکہ کر کے اڑا دیا۔ یہ جاسوسی میں نالائقی اور بھارت سرکار کی لا پروائی کا ثبوت ہے۔ دوسری جانب اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نکسلی کس قدر طاقت ور اور نڈر ہو چکے ہیں کہ انہیں نہ تو عوام کی کچھ پروا ہے اور نہ ہی وہ سرکار کو کسی خاطر میں لاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑن ویس اور پولیس افسر نے اس واقعہ کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ مان لیں کہ بدلہ لے بھی لیا گیا تو سوال یہ ہے کہ کیا اس سے نکسل پرستی ختم ہو جائے گی؟ نکسلیوں پر جان لیوا حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ان سے کیا فرق پڑا ہے؟ اگر حملہ ایسا ہو کہ ان کی بنیاد ہی ختم ہو جائے تو کوئی بات ہے۔ لیکن یہ بڑا خطرناک کام ہے کہ آپ ان پر حملہ آور ہوں‘ ان کو کچھ نقصان پہنچائیں اور پھر پیچھے ہٹ جائیں۔ زخمی سانپ تو اور زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ کام ہماری (بھارتی) فوج کے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کے علاوہ ان اسباب کو کیوں نہیں کھوجا جاتا‘ جن کے چلتے (کی وجہ سے) بھارتی نوجوان نکسلی بن جاتے ہیں؟ غنڈہ گردی پر اتر آتے ہیں۔ اور پھر ایک تیسرا راستہ بھی تو ہے۔ یہ کہ نکسلی لیڈروں کے ساتھ سماج کے کچھ لوگ سیدھی بات چیت کیوں نہیں کرتے؟ جیسا کہ ڈاکو سماج کے ساتھ چالیس پچاس برس پہلے ونوبا اور جے پرکاش نے کیا تھا۔ فوجی کارروائی کی بجائے یہ راستہ کہیں بہتر ہے اور اس کے نتیجہ خیز ہونے کے چانسز فوجی کارروائی کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ نکسلی تشدد کے پیچھے اب نجی مطلب بھی کام کرنے لگے ہیں لیکن ہم بھارتیوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بنگال کی نکسل باڑی اور کیرل کے جنگلوں سے شروع ہوئی اس تحریک کے پیچھے سماج کی تبدیلی کا ہی ارادہ رہا ہے؛ چنانچہ ایک سوال یہ بھی تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا سماج میں تبدیلی پیدا کر کے اور سدھار لا کر نکسلیوں کی اس بغاوت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں بھارتی حکمرانوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔
تو بے وقوف‘ میں تم سے بڑا بے وقوف
اب 'سرجیکل سٹرائیک‘ والا معاملہ پھر سے قومی بحث کا مدعہ بن گیا ہے۔ ستمبر 2016ء میں جب بھارت سرکار نے پرچار کیا تھا کہ اس نے پاکستان کے کسی علاقے میں 'سرجیکل سٹرائیک‘ کی ہے‘ تو تبھی میں نے لکھا تھا کہ یہ سرجیکل سٹرائیک نہیں بلکہ 'فرضیکل سٹرائیک‘ ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ یہ سب زبانی دعوے ہیں‘ حقیقت میں کچھ بھی نہیں۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہمارے وزیر پرچار کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ 'سرجیکل سٹرائیک‘ کیا ہوتی ہے‘ کیسے کی جاتی ہے اور اس کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟ لیکن بھارتی وزیر پرچار کی قوت کا لوہا ماننا پڑے گا کہ انہوں نے کانگریس کو اب مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھی اپنی 'سرجیکل سٹرائیکوں‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے لگی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مودی نے اگر ایک 'سرجیکل سٹرائیک‘ کی ہے تو من موہن سنگھ نے چھ بار کی تھی‘ لیکن اس کا پرچار نہیں کیا تھا۔ کانگریس نے اس سٹرائیکوں کی تاریخ بھی ظاہر کی ہے۔ یہ ایسا ہی کہ اکھاڑے میں بھڑ رہے دو پہلوانوں میں سے پہلا کہے کہ میں بے وقوف ہوں تو دوسرا اپنے آپ کو اس سے بڑا بے وقوف ثابت کرنے کے لیے زور لگائے اور کہے کہ نہیں‘ میں تم سے بڑا بے وقوف ہوں۔ ان 'سرجیکل سٹرائیک‘ کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ آپ کی یہ فوجی قابلیت کیا مذاق ثابت نہیں ہوئی ہے۔ ایسی فوجی کارروائیاں نرسمہا رائو جی‘ اٹل جی اور ڈاکٹر من موہن کی سرکاریں کئی بار کر چکی ہیں‘ لیکن انہوں نے کبھی ان کے نگاڑے (نقارے) نہیں پیٹے۔ وہ نگاڑہ (نقارہ) پیٹنے لائق تھی بھی نہیں۔ سرجیکل سٹرائیک کے نگاڑے پیٹنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے۔ اگر وہ سچ مچ ہوں تو اپنے آپ نگاڑے پٹنے لگتے ہیں۔ 1967ء میں اسرائیل نے جب مصر کے سینکڑوں جہاز ایک ہی جھٹکے میں اڑا دیے تھے‘1976ء اسرائیلی کمانڈوز نے اگانڈہ کے اینٹے بے (خلیج) ہوائی اڈے اور 1981ء میں او سی راک کے ایٹمی ہتھیاروں پر حملہ کیا تھا‘ 1983ء میں جب امریکہ نے صدام کے عراق پر خنجر بھونکا تھا‘ افغانستان میں فضل اللہ کا سر قلم کیا تھا‘ تب کہا جا سکتا تھا کہ یہ سرجیکل سٹرائیک ہوئی ہیں۔ آپ کی سٹرائیکوں میں آپ نے کیا کیا؟ کیا تیر مارے؟ کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ آپ ایک مچھر بھی نہیں مار سکے۔ اور پھر پاکستان کیا اتنا گیا گزرا ملک ہے کہ اس میں آپ اتنی زیادہ سرجیکل سٹرائیکس کریں اور وہ خاموشی سے دیکھتا رہے؟ بھارتی نام نہاد بلکہ فرضی سرجیکل سٹرائیکوں کے باوجود بھی آپ کی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا‘ آپ کے ممبئی ہوٹلوں پر دہشتگرد ٹوٹ پڑے‘ آپ کے فوجی اڈوں پر بھی مار پڑ گئی‘ پلواما میں مجموعی قاتلانہ حملہ ہو گیا۔ جس نے بھی کیں‘ یہ ہوتی ہیں سرجیکل سٹرائیکس۔ سرجیکل سٹرائیکس کے جو وڈیو ہماری سرکار نے دکھائے‘ وہ بھی اتنے بے کار اور اتنے بے جان تھے کہ انہیں دیکھنے کے بعد لگ رہا تھا کہ بھارتی سرکار خود ہی ثابت کر رہی ہے کہ اس کی سرجیکل سٹرائیک کتنی فرضی تھی۔ اب اس فرضی واڑے (باڑے )میں ملک کی دونوں پارٹیاں پھنس گئی ہیں بلکہ انہوں نے آپس میں سینگ پھنسا لئے ہیں اور خود کو ایک دوسرے سے برتر ثابت کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ کیا اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہو سکے گا؟ میرے خیال میں تو نہیں!
اب 'سرجیکل سٹرائیک‘ والا معاملہ پھر سے قومی بحث کا مدعہ بن گیا ہے۔ ستمبر 2016ء میں جب بھارت سرکار نے پرچار کیا تھا کہ اس نے پاکستان کے کسی علاقے میں 'سرجیکل سٹرائیک‘ کی ہے‘ تو تبھی میں نے لکھا تھا کہ یہ سرجیکل سٹرائیک نہیں بلکہ 'فرضیکل سٹرائیک‘ ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں ہے۔