بھارت میں 2019ء کا چنائو اب آخری مراحل میں ہے۔ لوگ مجھ سے بار بار یہ پوچھ رہے ہیں کہ سرکار کس کی بنے گی؟ ایسے سوالات پر میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ جواب یہ ملتا ہے: کیونکہ کسی کی بھی بنتی نہیں دِکھ رہی ہے۔ یعنی کسی کی بھی بن سکتی ہے۔ کسی کی یعنی کیا؟ حکومت کسی ایک پارٹی کی نہیں بنے گی۔ جو بھی بنے گی‘ وہ ملی جلی بنے گی۔ چاہے اسے آپ گٹھ بندھن کی کہیں یا ٹھگ بندھن کی! تو اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بھارت میں کون سی پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی؟ دوسرے لفظوں میں سب سے زیادہ سیٹیں کسے ملیں گی؟ اس کا جواب تو کافی آسان ہے۔ یوں تو بھاجپا کو ملیں گی یا کانگریس کو ملیں گی؟ کانگریس کو سب سے زیادہ مل سکتی ہیں۔ لیکن پھر بھی اس کی پچاس سیٹیں بڑھ کر تین سو نہیں ہو سکتیں۔ اور اس کی وجہ سبھی سب جانتے ہیں۔ یہ کہ اس کے پاس نہ تو ویسا کوئی لیڈر ہے‘ نہ پالیسی ہے‘ نہ نعرہ ہے‘ کہ لوگ جس کے پیچھے بھاگیں اور اسے اپنا ووٹ دیں‘ یا اسے اپنے ووٹ کے قابل سمجھیں۔ لیکن بھارتی آبادی کا وہ حصہ کانگریس کو ضرور ووٹ دے سکتا ہے‘ جو گزشتہ پانچ سال بی جے پی کی پالیسیوں سے خائف رہا ہے۔ کانگریس کی سیٹیں پچاس کی اسّی بھی ہو سکتی ہیں اور 100 بھی! شاید اس سے زیادہ نہیں۔ پھر وہی سوال کہ سو سیٹوں والی کانگریس سرکار کیسے بنا سکتی ہے؟ اسی طرح بھاجپا کو‘ جسے 2014ء کے الیکشن میں 282 سیٹیں ملی تھیں‘ اگر اس بار دو سو یا اس سے کم سیٹیں ملیں تو وہ بھی مشکل میں پڑ جائے گی۔ 2014 ء میں اسے 282 سیٹیں ملی تھیں، وہ چاہتی تو اکیلے ہی سرکار چلا سکتی تھی لیکن اس نے دوسری پارٹیوں کو بھی ساتھ ملایا‘ تاہم اس بار معاملہ کافی ٹیڑھا ہے۔ یہ ایک بڑا سوال ہے کہ اس (بی جے پی) کے اقتدار میں رہتے ہوئے بھی وہ 282 سیٹوں سے کھسک کر 272 سیٹوں پر آ گئی تو اب عام انتخابات میں اس کا کیا ہو گا؟ اسے واضح اکثریت ملنے سے تو رہی۔ اقلیت میں بھاجپا آ گئی تو اس کے لیڈر نریندر مودی سے ہاتھ ملانے کے لیے کون سی پارٹی تیار ہو گی؟ بھاجپا اور سنگھ کے بزرگ لیڈروں کو پٹانا ہی مشکل ہو گا‘ دیگر پارٹیوں کی بات تو دور کی کوڑی ہے۔ اسی لیے بھاجپا کو اپنے بطور آپشن لیڈر کے بارے میں ابھی سے سوچنا ہو گا تاکہ اچھا تاثر قائم ہو سکے۔ یہی بات کانگریس پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ مودی میں جو کمی ذاتی طور پر ہے‘ وہ کانگریس میں پارٹی کے طور پر ہے۔ کانگریس اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی ہو گی لیکن دوسری پارٹیاں اس کے غرور کو کیسے ہضم کر پائیں گی؟ اگر کانگریس چاہتی ہے کہ ملک میں نئی سرکار بنے تو اسے تھوڑا پیچھے کھسک کر بیٹھنا ہو گا۔ اپوزیشن میں زیادہ تر امیدوار برائے وزیر اعظم کانگریس کے بزرگ لیڈر ہی ہیں۔ اتحاد کوئی بھی بنے‘ اس کی کامیابی میں غرور سب سے بڑی رکاوٹ ہو گا۔
اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے؟
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد رام مندر تکرار کو پھر بیچ میں لٹکا دیا ہے۔ اسے پندرہ اگست تک یعنی پارٹیوں کو تین مہینے کا وقت اور دے دیا ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں وہ کہاں تک پہنچے ہیں‘ یہ عدالت کے علاوہ کسی کو پتا نہیں ہے۔ انہوں نے عدالت کو ایک پوشیدہ رپورٹ دی ہے۔ عدالت کو لگا ہو گا کہ ان ثالثی کے کردار والے لوگوں نے کچھ کام کی بات کی ہے۔ اسی لیے انہیں ایک موقع اور دے دیا جائے۔ اگر ایسا ہے تو بہت اچھا ہے لیکن مندر بنانے کے خواہش مندوں کا کہنا ہے کہ عدالت سارے معاملے کو ٹالے جا رہی ہے۔ قومی اور عالمی اہمیت کے اس تاریخی معاملے کو سپریم کورٹ میں آئے دس برس ہو چکے ہیں اور وہ ابھی تک اسے لٹکائے ہوئے ہے۔ اس کا کیا مطلب نکالا جائے؟ اگر عدالت صرف قانونی دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی تو اس فیصلے کو کون مانے گا؟ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے 2010ء میں رام جنم بھومی کی پونے تین ایکڑ زمین تین پارٹیوں کو بانٹ دی تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی لینے کو تیار نہیں ہے۔ اگر مان لیں کہ وہ تیار ہو جائیں تو کیا کروڑوں لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملا دیں گے؟ اگر عدالت اپنے فیصلے کو لاگو کروانے پر زور دے گی اور کوئی سرکار اسے ہر قیمت پر نافذ کرنا چاہے گی تو ملک ملک میں کہرام مچے بنا نہیں رہے گا۔ اسی لیے اس معاملے کو فیصلہ باہمی گفتگو اور سمجھ سے ہی ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ صرف ان تینوں درخواست گزاروں کی درمیاں نہیں‘ باقی سماج یعنی ملک کے مسلمانوں اور ہندوئوں کی جو لیڈنگ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں پوچھتا ہوں کہ ان ثالثوں یا سپریم کورٹ کے دماغ میں مندر مسجد بحث سلجھانے کے کوئی ٹھوس آپشن ہیں‘ کیا؟ نہیں ہیں۔ عدالت اور یہ ثالثی ہوا میں لاٹھی گھما رہے ہیں۔ میری رائے میں 1993ء میں جو آپشن ہم نے سجھایا تھا‘ وہی سبھی کو قابل قبول ہو سکتا ہے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا رائوکا یہ خیال تھا کہ اس ستر ایکڑ زمین میں نہایت ہی خوبصورت مندر کے ساتھ باقی سبھی مذاہب کی عبادت گاہیں بھی بنیں اور سبھی مذاہب کا میوزیم بھی بنے۔ ایودھیا ہر کسی بحث سے بالا تر بنے۔ یہ اب بھی ممکن ہے لیکن نئی سرکار کو اس میں متحرک رہنا پڑے گا۔
طالبان سے بات کریں
افغان مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے امریکہ آج کل پورا زور لگا رہا ہے۔ امریکی سرکار کے خاص سفیر خلیل زاد کئی مہینوں سے کابل‘ دلی‘ اسلام آباد اور دوحہ کے چکر لگا رہے ہیں۔ خلیل زاد یو ں تو بنیادی طور پر افغانستان کے ہیں‘ لیکن امریکی شہری ہیں۔ وہ کابل میں امریکی سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ مجھے نیو یارک‘ دلی اور کابل میں کئی بار مل چکے ہیں۔ اس وقت ان کا خاص ہدف افغان مسئلے کا حل کرنا نہیں ہے‘ بلکہ امریکہ کا افغانستان سے پنڈ چھڑانا ہے۔ گزشتہ اٹھارہ برس سے امریکی افواج افغانستان میں کٹ مر رہی ہیں اور کروڑوں اربوں ڈالر امریکہ وہاں لٹا چکا ہے‘ لیکن وہاں امن کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیںَِ خود افغانستان لگاتار خالی ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی اکانومی کی حالت خستہ ہے۔ زیادہ تر اضلاع میں طالبان کی قوت بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکی سرکار آج کل طالبان سے جم کر بات کر رہی ہے۔ قطر کی دارالحکومت دوحہ میں گفتگو کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ خلیل زاد ان سے اور کابل کی اشرف غنی سرکار سے الگ الگ بات کر چکے ہیں لیکن ان سب کو ایک ساتھ بٹھا کر بات کروانا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے‘ کیونکہ طالبان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی سرکار امریکہ کی کٹھ پتلی ہے۔ جب امریکہ سے سیدھی بات ہو رہی ہے تو اس کی کٹھ پتلی سے کیوں بات کی جائے؟ افغان سرکار نے گزشتہ ہفتہ 'لویا جرگہ‘ بلایا تھا۔ اس میں پورے ملک سے 3200 سربراہوں نے شرکت کی تھی۔ طالبان نے اس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس میں وزیر اعظم ڈاکٹر عبداللہ بھی نہیں آئے تھے۔ رمضان کے مہینہ میں جنگ نہ کرنے کی جرگہ کی اپیل کو طالبان نے رد کر دیا۔ خلیل زاد بھارت آ کر وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملے۔ بھارت سرکار کا کہنا ہے کہ افغانستان سرکار کو بات چیت میں شامل کیا جائے۔ بھارت سرکار کی یہ مانگ تو ٹھیک ہے لیکن طالبان کو اچھوت سمجھ کر ان سے دوری بنائے رکھنے کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔گزشتہ پچیس برس میں طالبان لیڈروں سے میرا سیدھا تعلق رہا ہے۔ وہ بھارت کے دشمن ہی ہیں‘ یہ ماننا ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں کسی ملک کا ایجنٹ مان کر چلنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ طالبان غلزئی پٹھان ہیں‘ اور بنیادی طور پر آزاد مزاج کے لوگ ہیں۔ اگر بھارت سرکار ان سے سیدھا تعاون بنا کر رکھتی تو وہ افغانستان مسئلے کو سلجھانے میں امریکہ سے زیادہ کامیاب ہوتی۔ ہم بھارت والے جنوبی ایشیا کی عظیم قوت ہونے کی ڈینگیں مارتے ہیں لیکن اس جانب کوئی پہل نہیں کرتے۔