کئی برسوں بعد میں گزشتہ دنوں ٹی وی چینلوں کو دو ڈھائی گھنٹے تک دیکھتا رہا۔ میں ایوان کے سینٹرل ہال میں چل رہا وزیر اعظم نریندر مودی کا بھاشن سن رہا تھا۔ میں نے نہرو سے لے کر اب تک کے سبھی وزرائے اعظم کے بھاشن سنے ہیں اور اسی بنا پر میں یہ خاصے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مودی کا یہ بھاشن غیر معمولی تھا۔ ایسا لگ رہا تھا مانو مودی کا نیا اوتار ہوا ہے۔ اسی بیچ بھاجپا‘ سماج وادی لیڈروں اور کچھ صحافی دوستوں کے فون آئے۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ کیا مودی کے اس بھاشن کو آپ نے تیار کروایا ہے‘ وہ تو ویسی ہی باتیں کر رہے ہیں جیسے آپ کے وچار ہیں۔ ان کے بھاشن سے آپ کے خیالات کی گونج ہی سنائی دے رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا: آپ جن الفاظ کا استعمال اپنی تحریروں میں کرتے ہیں‘ بالکل ویسے ہی لفظ مودی کے منہ سے نکل رہے ہیں۔ ہمیں تو لگ رہا ہے کہ وہ آپ کی لکھی ہوئی تحریر ہی پڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں جن مدعوں پر آپ نے مودی پر سخت تنقید کی ہے‘ انہی مدعوں کو اٹھا کر انہوں نے (مودی نے) بہتر کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اپنی پارٹی کے لیڈروں سے ویسی ہی گزارش کی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ 2013ء میں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے مودی کا نام سب سے پہلے میں نے اچھالا تھا۔ میں نے ہی کہا تھا کہ انہیں وزیر بنایا جانا چاہیے‘ یہ ہندوستان کے لیے اچھا رہے گا‘ اور اس کی حمایت میں بابا رام دیو اور میں نے اپنے بھاشنوں‘ تحریروں اور ٹی وی چینلوں پر ہونے والی بات چیت کے ذریعے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو مخاطب کیا تھا۔ لیکن گزشتہ پانچ برس میں مودی کی جائز تعریف اور نا کامی پر تنقید کرنے میں بھی میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جن مدعوں پر میں نے مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور تقاضا کیا تھا کہ ان کو ہر حالت میں ٹھیک کیا جانا چاہیے‘ مجھے خوشی ہے کہ ان پر توجہ دی گئی ہے اور اپنی تقریر میں انہوں (مودی) نے ان میں سے زیادہ تر مدعوں کو اٹھایا اور ان کے بالکل ویسے ہی جواب دیے‘ جیسے کہ میں دیتا رہا تھا۔ سب سے پہلا مدعا تھا‘ غرور کا! مودی نے سب سے پہلے اڈوانی جی اور جوشی جی کے پائوں چھو کر ادب کا تعارف دیا تھا۔ پھر وہ خود مغروری کو ختم کرنے کی بات کرنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنے ممبر آف پارلیمنٹ کو بھی با اخلاق ہونے اور اچھا کردار اپنانے کی تلقین کی تھی۔ انہوں نے صبح وزیر اعظم آفس کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے با اخلاق ہونے کی نصیحت کی تھی اور کہا تھا اخلاق جتنا اچھا ہو گا‘ معاملات اتنے ہی بہتر انداز میں چلیں گے اور کامیابیاں بھی ملیں گی۔ اپنی پارٹی یعنی بھاجپا کو سارے بھارت کی پارٹی بنانے کا پیغام دیا۔ انہوں نے اپنے ممبر آف پارلیمنٹ کو چھپاس اور دکھاس سے بچنے کا کہا ہے۔ میں نے جب اس مدعا پر بات کی تھی تو کچھ الگ الفاظ استعمال کیے تھے۔ میں نے کھجلی سے بچنے کا کہا تھا اور (پرگیا کی طرح) فضول بکواس سے بھی بچنے کا کہا تھا۔ انہوں نے گرو گولولکر جی کے ہندتوا میں گاندھی‘ لوہیا‘ دین دیال (میرے تحریر شدہ) خیالات کا ذکر کر کے ملک کی سیاست کو نئی طرح کی سوچ دینے کی خواہش ظاہر کی۔ اسی طرح انہوں نے مرکز اور صوبائی کے مفادات کے درمیان تال میل کی بات کہہ کر ملک میں خوشحالی اور امن کی سیاست کی امید ظاہر کی۔ ملک کے غریبوں اور اقلیتوں کی تعلیم اور صحت پر خاص توجہ دینے کی بات کہی۔ خارجہ پالیسی پر بھی وہ کچھ بنیادی اور نئی پہل کی بات کہہ سکتے تھے۔ مودی کی یہ سب باتیں اچھی ہیں‘ لیکن میری امید تبھی صحیح مانی جائے گی‘ جبکہ مودی نے جو کہا کہ اسے وہ عملی جامہ پہنائیںگے۔ صرف باتیں کرنے سے تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اگر انہوں نے محض میری کہی ہوئی باتیں دہرا دیں تو اس سے کیا حاصل؟ فائدہ تو تب ہے کہ میرے دئیے ہوئے وژن کو سامنے رکھ کر وہ آگے کا لائحۂ عمل مرتب کریں اور بھارتی عوام کی ترقی کے بارے میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کریں۔ اگر وہ اب بھی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر سکتے تو پھر ان کے نئے شروع ہونے والے دور اور حال ہی میں ختم ہونے والے دور میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔
مودی کی پریس کانفرنس
نریندر مودی بھارت کے ایسے پہلے وزیر اعظم ہیں‘ جنہوں نے اپنے پچھلے پورے دورِ اقتدار میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔ امید بندھی تھی کہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور کے آخری لمحات میں وہ پریس کانفرنس کریں گے۔ جب بھاجپا صدر نے بی جے پی کے دفتر میں پریس والوں کو بلایا تو دلی کے صحافیوں کے بیچ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ وزیر اعظم مودی بھی اس میں بولیں گے‘ اظہار خیال کریں گے۔ سارے صحافی خوش ہو گئے کہ چلیں پانچ سال بعد ہی سہی وہ مودی سے براہ راست کچھ سوال و جواب تو کر سکیں گے۔ انہیں لگا کہ یہ ایسا کرشمہ ہے‘ جیسا کہ بانجھ عورت کے بیٹا پیدا ہونے کی خبر آجائے۔ بڑے بڑے نامی گرامی صحافی بھی اس پریس کانفرنس میں پہنچ گئے تھے‘ لیکن ہوا کیا؟ انہیں مودی کا بھاشن اسی طرح سننا پڑا‘ جیسے بھاجپا کے کارکنان یا سنگھ کے سوئم سیوک سنتے ہیں۔ جب ان سے ایک دو صحافیوں نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم پارٹی کے سپاہی ہیں‘ ہمارے یہاں پارٹی صدر ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ واہ کیا خوب کہی؟ مودی کے اس دعوے پر کیا امیت شاہ بھی بھروسہ کر سکتے ہیں؟ اگر پارٹی صدر ہی سب کچھ ہوتا ہے تو وہ اس پریس کانفرنس میں وہ آئے ہی کیوں تھے؟ وہ یہاں کیا کرنے آئے تھے؟ یہ صحافیوں کی غلطی ہے کہ انہوں نے اسے مودی کی پریس کانفرنس سمجھ لیا تھا۔ وہ تو وہاں سدا کی طرح بھاشن جھاڑنے گئے تھے‘ صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے نہیں۔ انہوں نے امیت شاہ کے پہلے ہی اسے جھاڑ دیا۔ انہوں نے شاہ کے رنگ کو بھی بے رنگ کر دیا۔ میں نے اسے یو ٹیوب پر ابھی سنا ہے۔ وہ بھاشن تھا یا کوئی بے سر پیر کی گپ شپ تھی۔ اس گپ شپ کے لیے جھاڑنا لفظ ہی مناسب لگتا ہے۔ تعجب ہے کہ مودی نے صحافیوں سے بات چیت کا یہ موقع ہاتھ سے کیوں نکل جانے دیا۔ اس موقع پر وہ یہ بتا سکتے تھے کہ آئندہ وزیر اعظم منتخب ہونے کی صورت میں ان کا ایجنڈا کیا ہو گا اور اس ایجنڈے پر وہ عمل کس طرح کریں گے۔ اس وقت تو صرف 59 سیٹوں پر ہی چنائو بچا تھا۔ اگر کسی سوال کا جواب مودی ایسا دے دیتے‘ جیسا پرگیا ٹھاکر نے دیا تھا تو بھی انہیں کیا خطرہ ہو سکتا تھا؟ تین سو نشستیں تو ان کی پکی ہی ہیں۔ دو چار سیٹیں کم ہو جاتیں تو کیا فرق پڑتا؟ کم از کم جمہوریت کی عظیم روایت زندہ ہو جاتی۔ لیکن مومن نے کیا خوب کہا ہے کہ
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت کیا خاک مسلمان ہوں گے
پریس کانفرنس سے کوئی لیڈر اگر لگاتار اپنی کھال بچاتا چلا جائے تو اس کے بارے میں کیا رائے بنتی ہے؟ کیا یہ نہیں کہ وہ غیر جواب دہ ہیں؟ وہ جواب دار نہیں ہے؟ وہ اپنے آپ کو نمبر ون خدمت گار تو کیا معمولی جواب دار آدمی تک نہیں سمجھتا۔ کوئی خدمت گزار ایسا بھی ہو سکتا ہے جو صرف‘ بولتا ہی بولتا ہو۔ کسی کی بھی نہ سنتا ہو۔ نہ اپنے وزراء کی‘ نہ پارٹی سینئرز یعنی سیاسی بزرگوں کی‘ نہ صحافیوںکی‘ نہ عوام کی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ خدمت گزار بے حد ڈرپوک ہو۔ اسے ڈر لگتا ہو کہ سوال جواب کی بھول بھلیاں میں کہیں پھسل نہ جائیں‘ گڑک نہ جائیں۔ بھارت کے سب سے طاقت ور آدمی کا اتنا بز دل ہونا اپنے آپ میں ایک تاریخی واقعہ ہے‘ جس کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جن مدعوں پر میں نے مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور تقاضا کیا تھا کہ ان کو ہر حالت میں ٹھیک کیا جانا چاہیے‘ مجھے خوشی ہے کہ ان پر توجہ دی گئی ہے اور اپنی تقریر میں انہوں (مودی) نے ان میں سے زیادہ تر مدعوں کو اٹھایا اور ان کے بالکل ویسے ہی جواب دیے‘ جیسے کہ میں دیتا رہا تھا۔ سب سے پہلا مدعا تھا‘ غرور کا!