بھارت کی وفاقی کابینہ میں جن لوگوں کو وزیر بنایا گیا ہے‘ انہیں دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزرا کا بٹوارہ کافی ٹھیک ٹھاک ہوا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کو بنایا گیا ہے۔ اس وزارت کو سب سے اہمیت والا مانا جا تا ہے‘ کیوں کہ یہی وزارت ملک میں امن اور انتظامیہ کی ذمہ داری لیے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں سبھی لیڈروں اور افسروں کی کارستانیوں پر نظر رکھنے کا کام بھی یہی وزارت سر انجام دیتی ہے۔ بھلا اس کام کے لیے امیت شاہ سے بہتر کون آدمی ہو سکتا ہے؟ جب تک یہ وزارت راج ناتھ سنگھ کے پاس تھی‘ ان میں سنیارٹی کی قطار وزیر اعظم کی بعد دوسری تھی۔ یعنی وزیر اعظم کے بعد دوسرے نمبر پر وہی سب سے اہم مانے جاتے تھے۔ اب اس نمبر پر امیت بھائی آ گئے ہیں‘ لیکن راج ناتھ سنگھ کو اب بھی دوسرے نمبر پر کہا جاتا رہے گا۔ امیت بھائی وزیر داخلہ نہ ہوتے تو ان کی حیثیت نائب وزیر اعظم کی ہوتی۔ ایک نظریے کے مطابق یہ اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا خطرہ اور خدشہ بھی ہے۔ یہ نا ممکن نہیں کہ بھاجپا کی یہ سرکار بھائی بھائی بن جائے۔ سرکار کا سارا اقتدار دو لوگوں پر مرکوز ہو گیا تو کسی بھی دن اندرونی بغاوت بھڑک سکتی ہے۔ مودی کو اس مدعا پر خبردار رہنا ہو گا۔ راج ناتھ سنگھ اب وزیر دفاع کے طور پر رافیل سودے کے معاملات پر جٹا دیے جائیں گے‘ لیکن ان کے سر پر کافی ذمہ داری آ گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کیسے پوری کرتے ہیں۔ اس خطے میں جاری دہشت گردی کا سامنا کرنے کے لئے انہیں کسی نئی قابلیت کا تعارف دینا ہو گا۔ پُرانی روٹین کے تحت تو کام نہیں چلے گا۔ بھارت میں وہ تجربہ کار‘ بیدار مغز اور دور اندیش لیڈر ہیں۔ وہ دفاعی ماہرین سے تعاون کر کے بھارت کو بہت مضبوط بنا سکتے ہیں۔ نئے سیٹ اپ میں نتن گڈکری کی وزارت نہیں بدلی گئی‘ یہ اچھا ہی ہوا۔ گڈکری نے اپنی وزارت میں کرشمائی کام کر کے دکھایا۔ یہ سلسلہ اب آئندہ بھی جاری رہے گا۔ وزیرِ خزانہ کی صورت میں نرمل سیتا رمن کے کندھوں پر سنجیدہ اور بھاری ذمہ داری آ گئی ہے۔ امید ہے کہ وہ نوٹ بندی جیسے نادانی کے کام دوبارہ نہیں ہونے دیں گی‘ اقتصادی معاملات کو ٹھیک رکھیں گی اور ایسا بجٹ پیش کریں گی‘ جو بھارت کی تعلیم اور انتظامیہ کے معاملات میں انقلابی سدھار لانے میں مدد کرے۔ وزارت ہیومن ریسورس اتنا نفرت والا نام ہے کہ مودی اسے فوراً بدل کر وزارت تعلیم کریں‘ اس کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر تعلیم کی ذمہ داری ڈاکٹر نشنک کو ملی ہے‘ وہ پڑھے لکھے اور با ادب آدمی ہیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ستر برسوں میں بھارت کی تعلیم کا کباڑہ ہو چکا ہے۔ بھارت نے شاگردوں کے نام پر نقلچیوں کی فوج کھڑی کرنے کا کام کیا ہے۔ امید ہے‘ نشنک اس طرز عمل کو تبدیل کریں گے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن وزارت صحت میں کرشمہ کر سکتے ہیں۔ جے پرکاش نڈھا نے کئی طرح کی اچھی پہل کی تھی۔ لیکن ہرش وردھن تو خود ڈاکٹر ہیں۔ بھارت میں ڈاکٹری سب سے بڑی لوٹ پاٹ کا ذریعہ بن چکی ہے۔ اس پر روک لگے اور بھارت کے غریب سے غریب آدمی کا علاج بھی آرام سے ہو سکے‘ ایسا بندوبست ہرش وردھن کریں گے۔ ایسی امید ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن کے برابر زمین سے جڑے سیاست میں کم ہی ہیں۔ ریلوے وزیر پیوش گویل اور وزیر اطلاعات پرکاش جاوڑیکر بھی بڑے لائق اور محنتی آدمی ہیں۔ ڈاکٹر جے شنکر کے بارے میں‘ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ میں ان کو بہت قابل آدمی سمجھتا ہوں‘ گزشتہ پچاس برس سے ان کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ یقینا وزارت خارجہ کو نئی اونچائیوں پر لے جائیں گے۔ بھارت میں دیگر وزارتوں کی تعیناتیاں ٹھیک ٹھاک ہیں۔ امید ہے‘ بھارت کی یہ نئی سرکار پچھلی سرکار کے مقابلے بہت کام کر کے دکھائے گی۔
راہول گاندھی اب کیا کریں؟
راہول گاندھی کانگریس کے عہدۂ صدارت سے مستعفی ہوں یا نہ ہوں‘ یہ سوال مجھ سے کئی ٹی وی چینلوں نے کانگریس کی بیٹھک سے پہلے پوچھا تھا تو میں نے کہا تھا کہ اگر وہ ہو بھی جائیں تو کانگریس اسے قبول نہیں کرے گی۔ یہی ہوا۔ کانگریس اب ایک جمہوری پارٹی نہیں‘ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن چکی ہے۔ اگر راہول مستعفی ہو جاتے تو بتائیے کہ یہ کمپنی بیوہ نہیں ہو جاتی؟ اس کا بوجھ کون اٹھاتا؟ کس کانگریسی لیڈر کی حیثیت ایسی ہے کہ وہ کانگریس کو چلا سکے؟ کانگریس میں لیڈر ہے ہی کہاں؟ سب نوکر ہیں‘ جیسے کہ کسی کمپنی میں ہوتے ہیں۔ اندرا جی کی وقت میں اسے انگریزی میں نیشنل کانگریس کہا جاتا تھا یعنی این سی۔ میں اس کی ہندی کیا کرتا تھا: این کا مطلب نوکر اور سی کا مطلب چاکر‘ یعنی نوکر چاکر کانگریس۔ آپ وزیر اعظم بن جائیں یا صدر‘ اگر آپ کانگریسی ہیں تو آپ کی حیثیت اندرا گاندھی فیملی کے نوکر چاکر کی طرح ہی رہے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کانگریس میں لائق لوگوں کی کمی ہے۔ کانگریس میں ابھی بھی درجن بھر لوگ ایسے ہیں‘ جو وزیر اعظم بننے کے لائق ہیں لیکن گزشتہ پچاس برس میں کانگریس کی صورت ایسی ہو گئی ہے کہ اگر راہول اور پریانکا اس کی لیڈرشپ نہ کریں تو اسے بکھرتے دیر نہیں لگے گی۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ صرف چند ہی لوگ ہیں جو اس پارٹی کو متحد رکھ سکتے ہیں اور آگے چلا سکتے ہیں۔ صرف چند۔ میرے ذاتی خیال میں کانگریس کا زندہ رہنا اور مضبوط ہونا ملک کی جمہوریت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اب اگلے پانچ برس تک ایک بھائی بھائی پارٹی کا مقابلہ ایک بھائی بہن پارٹی کرے گی۔ امیت اور نریندر کے مقابلے راہول گاندھی اور پریانیکا ہوںگے۔ میرا تو یہ بھی خیال ہے کہ بھاجپا بھی اب کانگریس کی طرح بنتی جا رہی ہے۔ دونوں پارٹیوں کے کردار میں برابری آتی جا رہی ہے۔ دونوں ایک ہی نہج پر آ گئی ہیں۔ کانگریس نے راہول کو پورا حق دے دیا ہے کہ وہ پارٹی کا ڈھانچہ بدل دیں اور جیسا اسے بنانا چاہیں بنا لیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پارٹی کا ڈھانچہ بدلنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا نئے لوگوں کو عہدہ دے دینے سے ڈھانچہ بدل جائے گا؟ ڈھانچہ بدلنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ پارٹی کے ہر عہدے کے لیے چنائو ہونا چاہیے۔ صدارت کے عہدے کے لیے بھی۔ اوپر سے لوگوں کو نہیں تھونپا جانا چاہیے۔ جمہوری طریقے سے ان کا انتخاب ہونا چاہئے تاکہ لوگوں کو یہ لگے کہ جمہوریت کو پسند کرنے والی اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی یہ پارٹیاں اپنے اندر جمہوریت رکھتی بھی ہیں۔ دوسرے‘ اپنی اکڑ چھوڑ کر ملک کی لگ بھگ سبھی صوبائی پارٹیوں کو متحد ہو کر ایک اتحاد کھڑا کرنا چاہیے‘ کیونکہ بھارت میں ہونے والے پچھلے اور حالیہ انتخابات سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ جب تک اپوزیشن پوری طرح متحد نہیں ہو گی‘ اس کے لیے اقتدار کے ایوانوں میں جگہ بنانا مشکل بلکہ ناممکن رہے گا۔ تیسرا‘ سب سے بڑا کام جو کانگریس کو کرنا چاہیے‘ وہ یہ ہے کہ جن تحریک اور عوامی بیداری کے مشن کو چلانا چاہیے‘ آگے بڑھانا چاہیے۔ ایسے مشن جو پارٹیوں کی کیاریاں بھی توڑ ڈالیں۔ ویسے مشن جیسے مشن کبھی مہاتما گاندھی اور بعد میں ڈاکٹر لوہیا نے چلائے تھے۔ جیسے ذات توڑو‘ انگریزی ہٹائو‘ مرد و عورت کے برابر حقوق۔ اس طرح کے مشنوں میں سبھی کی تعلیم سبھی کی صحت‘ سبھی کا تحفظ‘ سبھی کی نشہ بندی‘ رشوت خوری‘ جہیز سے فری مشن بھی جوڑے جا سکتے ہیں۔ ان مشنوں میں سبھی پارٹیوں کے لوگ حصہ لے سکتے ہیں۔ ابھی تو کانگریس پارٹی کی دیکھا دیکھی سبھی پارٹیوں کے کارکنان نے اپنے آپ کو دلالوں کی فوج بنا لیا ہے۔ وہ ووٹ اور نوٹ کباڑنا (اینٹھنا) ہی اپنا پاک فرض سمجھتے ہیں۔ اگر راہول کچھ ہمت کریں تو کانگریس ہی نہیں بھارت کی سیاست کو بھی درست راستہ مل سکتا ہے؛ تاہم اس کا طریقہ ایک ہی ہے کہ سب سے پہلے پارٹی کے اندر کے معاملات ٹھیک کیے جائیں اور پھر ایک طاقت ور اتحاد قائم کیا جائے۔