"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت پاکستان سے بات چیت شروع کرے!

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ جے شنکر کو خط لکھے ہیں۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے بیچ بات چیت کی پہل کی ہے۔ دونوں نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے بیچ جتنے بھی مسائل ہیں‘ انہیں بات چیت سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے نئی سرکار کو یہاں دوسرا خط لکھا ہے‘ اور مبارک دینے کے لیے مودی کو فون بھی کیا تھا۔ پاکستان کے لیڈروں کی جانب سے یہ پہل دو واقعات کے بیچ ہو رہی ہے۔ ایک تو عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے پاکستان کے لیے نئے قرضے کا معاہدہ جبکہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو گرے فہرست میں رکھا گیا ہے‘ دوسرا بھارت کا سارک کی جگہ بمسٹیک (بے آف بنگال انیشی ایٹو فار ملٹی سیکٹورل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن) پر اپنا دھیان ٹکانا۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ پاکستان مغربی پڑوسی ہے اور بمسٹیک کے باہر ہے۔ پاکستانی خارجہ پالیسی کے لیے یہ دونوں بڑے چیلنجز ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان صاحب کو یہ بھی پتا چل گیا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کی مضبوط دوستی کے باوجود چین بھارت سے اچھے تجارتی تعلقات بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ یہ الگ بات کہ بھارت چین کا اعتماد جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکا‘ نہ ہی چین کے ساتھ تنازعات کو حل کیا جا سکا ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کے ساتھ معاملات ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کی بجائے اب چین کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کر لیے ہیں‘ اور یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان امریکہ پر انحصار کم سے کم کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایسی حالت میں عمران خان صاحب جو پہل کر رہے ہیں‘ اسے ہمارے پالیسی سازوں کو سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ اب بھی ہمیں کیا پرانا راگ گانا ہو گا کہ دہشتگردی اور بات چیت ساتھ نہیں چل سکتی؟ کیوں نہیں چل سکتی؟ گولی اور بولی‘ بات اور لات‘ ساتھ ساتھ کیوں نہیں چل سکتے؟ مہا بھارت جنگ میں یہ چلے تھا یا نہیں؟ ہمارے پالیسی ساز یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ پاکستان کے سیاسی لیڈر لاکھ چاہیں تو بھی دہشتگردوں کو قابو نہیں کر سکتے کیونکہ دہشت گردی اب ایک عالمی مسئلہ ہے اور پوری دنیا اسے مانتی ہے۔ ایسے حالات میں بھارت سرکار کی بعض پالیسیاں دہشت گردوں کے لیے جواز پیدا کرتی ہیں‘ نہ کہ کمی۔ کیا کشمیر کے حالات دہشتگردوں پر قابو پانے میں مدد دے سکتے ہیں؟ اس لیے یہ درست وقت ہے جب بھارت کو پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہیے۔ مودی سرکار دوسری بار واضح اکثریت سے چنی گئی ہے۔ بالا کوٹ حملے نے بھی بھارتی عوام کو ایک طرح سے تسلی دی ہے۔ اس کے بعد پاکستانی فضائیہ کی جانب سے کارروائی نے حساب برابر کر دیا؛ چنانچہ ان واقعات میں تو نہ کوئی فاتح ہوا اور نہ کوئی شکست خوردہ یعنی دونوں پہلوان برابر پر چھٹے۔ اس لیے لڑائی کو طول دینے کی بجائے صلح صفائی کی جا سکتی ہے۔ جے شنکر جیسا منجھا ہوا اور ماہر سفارت کار ہمارا وزیر خارجہ ہے‘ ہمیں گھبرانے کی بجائے کھل کر بات کرنی چاہیے۔ یہ واضح ہے کہ بمسٹیک سارک کی جگہ نہیں لے سکتا کیونکہ سارک کا جغرافیائی دائرہ اس قدر کھلا ہے کہ یہ مشرق کو مغرب سے ملاتا ہے جبکہ بمسٹیک اس کے مقابلے میں ایک محدود دائرے کی ایک جیسی ریاستوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ مودی نے مالدیپ اور سری لنکا کے دورے سے اپنا دوسرا دور شروع کیا‘ یہ اچھا ہے لیکن یہ ملک پاکستان اور افغانستان کے برابر نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ دونوں ملک (پاکستان اور افغانستان) وسطی ایشیا‘ یورپ اور جنوبی ایشیا کے بیچ گولڈن پُل ہیں۔ 
مایا مکت اکھلیش 
سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا اتحاد اگر چناوی ہار کے بعد بھی چلتا رہتا تو مجھے تعجب ہوتا۔ اب اتر پردیش کی یہ دونوں مخصوص پارٹیاں اتر پردیش کے ودھان سبھا کے تیرہ چھوٹے چنائو الگ الگ لڑیں گی اور ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے سے ٹکر لیتے ہوئے بھی لڑیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مایا وتی اور اکھلیش نے ایک دوسرے پر کوئی ذاتی حملہ نہیں کیا اور امید کی ہے کہ ان کے باہمی تعلقات اچھے بنے رہیں گے۔ یہ درست وقت ہے جب ان دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کو سوچنا چاہیے کہ وہ سیاست میں کیوں ہیں؟ کیا یہ دونوں لیڈر ذات پات کی مایا سے نجات حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ اکھلیش اپنے والد ملائم جی اور مایا وتی اپنے گرو کانشی رام جی کے سبب سیاست میں آئے اور انہیں ان کے سبب ہی لیڈر بننے کا موقع ملا لیکن وہ دونوں کیسی سیاست کر رہے ہیں؟ ذات والوں کو پٹائے ہوئے ہیں۔ دونوں لوہیا اور امبیڈکر مالا جپتے رہتے ہیں۔ شاید انہیں پتا نہیں ہے کہ لوہیا اور امبیڈکر‘ دونوں بھارت سے ذات پات کے چکر کو بنیاد سے ہی ختم کرنا چاہتے تھے۔ تبھی تو لوہیا جی نے ''ذات توڑو‘‘ تحریک چلائی تھی۔ لیکن اکھلیش اور مایا وتی نے لوہیا اور امبیڈکر کو نیچا کر دیا۔ ان کی ذات والی سیاست 2019ء کے چنائو میں مات کھا گئی۔ مایا وتی کی سیٹیں تو صفر سے دس ہو گئیں‘ لیکن اکھلیش جہاں کے تہاں رہ گئے۔ اکھلیش میں کافی امکانات ہیں لیکن اپنے والد اور چاچا کی بے عزتی کا پھل اتر پردیش کے یادو سماج نے اسے چکھا دیا۔ امر سنگھ کے الفاظ میں انہیں اکھلیش کی یہ 'اورنگ زیبی ادا‘ پسند نہیں آئی۔ اس وقت اتر پردیش میں اکھلیش سے بڑھیا لیڈر اور کوئی نہیں۔ اگر وہ لوہیا اور امبیڈکر کے راستے پر چلیں اور کرانتی کے لیے عوامی تحریک کا راستہ پکڑ یں تو وہ بھارت ہی نہیں‘ سارے جنوبی ایشیا کے ملکوں میں ہر دل عزیز ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پورا جنوبی ایشیا کسی لائق اور عظیم لیڈر کا انتظار کر رہا ہے۔ جس ملک نے نہرو‘ اندرا جی اور اٹل جی جیسے لیڈر دیے ہیں وہی شاید اکیسویں صدی کے کسی بڑے لیڈر کو اچھا لے گا۔
دونوں کی زیادتی 
اسلام آباد کے بھارتی قونصلیٹ میں ایسا کیا ہو رہا تھا جسے ناکام کرنے کے لیے کام شروع کر دیا گیا۔ وہاں یکم جون کو بس ایک افطار پارٹی ہو رہی تھی۔ وہاں کوئی پاکستان مخالف پروگرام نہیں ہو رہا تھا۔ کیا افطار پارٹی میں بھی اڑنگا لگانا مناسب ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کے حکمران بھارت کو ایک 'ہندو ملک‘ ہی مانتے ہیں‘ جیسے کہ پاکستان کو وہ ایک مسلم ملک مانتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو 'ہندو ملک‘ کے ہائی کمشنر اجے بساریا کی افطار پارٹی کا پاکستان کے حکمرانوں کو زور و شور سے استقبال کرنا چاہیے تھا‘ لیکن وہاں ہوا کیا؟ وہاں مدعو لگ بھگ تین سو مہمانوں کو پاکستانی پولیس نے پریشان کیا۔ کچھ کو اندر جانے ہی نہیں دیا گیا۔ یہ لوگ کون تھے؟ یہ سب پاکستان کے گنے چنے اچھے لوگ تھے۔ یہ ایرے غیرے نتھو خیرے نہیں تھے۔ جب بھارت کی طرف سے اعتراض جتایا گیا تو جواب تھا کہ آپ نے بھی 23 مارچ اور 28 مارچ کو یہی کیا تھا۔ اٹھائیس مئی کو دلی کے پاکستانی قونصلیٹ میں ہونے والی افطار پارٹی میں بھارتی پولیس نے بھی یہی کیا تھا۔ یعنی جیسے کو تیسا کیا گیا۔ میں سوچتا ہوں کہ دونوں ملکوں نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔ اگر بھارت نے ویسا کر بھی دیا تھا تو پاکستانی سرکار‘ خاص طور سے وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب کو اپنی اونچائی پر ٹکے رہنا چاہیے تھا۔ اچھائی دکھانا سدا بڑے بھائی کے لیے ضروری نہیں ہوتا۔ عمران خان صاحب نے مودی کی جیت پر مبارک دی اور اس سے کئی دن پہلے انہوں نے کہا تھا کہ مودی اگر جیت گئے تو پاک بھارت تعلقات سدھرنے کے کافی امکانات ہیں۔ لیکن اب لگتا ہے کہ 'جیسے کو تیسا‘ کی پالیسی پر دونوں ملک چلتے رہے تو اگلے چار پانچ برس میںکئی کشیدہ واقعات اور بھی ہوتے رہیں گے۔ کچھ دن بعد ہونے والے شنگھائی اجلاس کے بشکیک پروگرام میں پتا نہیں یہ دونوں وزیر اعظم ہاتھ بھی ملائیں گے یا نہیں؟ میں تو دونوں سے کہوں گا کہ آپسی تعلقات سدھارنے کے لیے کیا آپ دونوں کچھ ایسا نہیں کر سکتے کہ جو آج تک دونوں ملکوں کے سارے حکمران نہیں کر سکے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں