"DVP" (space) message & send to 7575

مودی حکومت انگریزی تھوپنا بند کرے!

میں کسی بھی بھارتی باشندے پر کوئی بھی زبان تھوپنے کے ہمیشہ خلاف رہا ہوں‘ چاہے وہ ہندی ہو یا انگریزی ہو۔ میں تامل ناڈو پر ہندی زبان نہ تھوپنے کی حمایت کرتا ہوں‘ لیکن سارے بھارت پر انگریزی تھوپنے کی سخت مخالفت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ میں انگریزی زبان کا مخالف نہیں ہوں‘ لیکن انگریزی زبان کی غلامی کا مخالف ہوں۔ بھارت کے جتنے بھی شاگرد یعنی طالب علم اپنی مرضی سے چاہے جتنی غیر ملکی زبانیں سیکھیں‘ میں سیکھنے کے اس عمل کا مخالف نہیں ہوں بلکہ سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھا اقدام ہے کہ اس طرح ہم بھارتیوں کو دوسرے ممالک کے ساتھ معاملات کرنے میں آسانی ہو گی۔ میں خود کئی زبانوں کا جانکار ہوں۔ پچاس برس پہلے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں جب میں نے اپنا عالمی سیاست پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہندی میں لکھنے کی گزارش کی تھی تو اس وقت پوری بھارتی پارلیمنٹ ہل گئی تھی۔ سبھی سیاسی پارٹیوں نے میری حمایت کی تھی۔ اگر بھارت کے حکمران‘ ایوان‘ عدالت‘ اعلیٰ تعلیمی ادارے‘ تجارت اور روزگار وغیرہ سے انگریزی کا لازمی ہونا ختم ہو جائے تو ملک کے سارے لوگ ایک دوسرے کی زبان اپنے آپ سیکھیں گے۔ تامل زبان والے ہندی سیکھیں گے اور ہندی والے تامل زبان سیکھیں گے۔ اس طرح بھارت مضبوط ہو گا اور لوگوں کے باہمی تعلقات بڑھیں گے۔ اگر نوکریوں کی بھرتی میں انگریزی لازمی نہیں ہو گی تو بھلا کون بھارتی اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو مہنگے انگریزی سکول میں پڑھانا چاہے گا؟ میں نئی تعلیم پالیسی کی رپورٹ میں اس جُز کی بہت تعریف کرتا ہوں‘ جس میں انگریزی کے نقصان گنوائے گئے ہیں‘ لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ اپنے آپ کو وطن پرست کہنے والی بھارتی سرکار نے انگریزی کو لوگوں پر نہ تھوپنے کا کوئی اصول نہیں بنایا ہے۔ تامل ناڈو میں ہندی کے ضروری ہونے کی شرط ختم کر کے مودی سرکار نے جتنے جلدی اپنے گھٹنے ٹیکے‘ کیا انگریزی کے لازمی ہونے کا خاتمہ کرنے کے سلسلے میں بھی اتنی ہی ہمت دکھائے گی؟ میں بھارت کے شہریوں سے درخواست کرتا ہوں کہ انگریزی کے لازمی ہونے کے خلاف ہر علاقے میں زبردست تحریک کھڑی کر دیں۔ انہیں انگریزی زبان سے اسی طرح نجات مل سکے گی۔ 
بدعنوانی ختم ایسے ہو گی!
گزشتہ ہفتہ سرکار نے انکم ٹیکس کے درجن بھر افسروں کو نوکری سے نکالا‘ اور اب وفاقی ٹیکس اور پیداوار ٹیکس شعبے سے تعلق رکھنے والے پندرہ افسروں کو بھی نکال باہر کیا۔ یہ وہ افسر ہیں‘ جن کی بد عنوانی کی جانچ بٹھائی گئی ہے۔ ان افسروں پر رشوت لینے‘ جبراً وصولی کرنے‘ انکم سے کہیں زیادہ دولت رکھنے وغیرہ جیسے الزامات ہیں۔ ان سارے افسروں کو سرکار کے بنیادی اصولوں کے آرٹیکل 56-A کے تحت ریٹائر کیا گیا ہے۔ نئی سرکار نے اپنے نئے دور میں یہ سخت قدم اٹھا کر اپنے افسروںکو واضح پیغام دے دیا ہے کہ کرپٹ افسروں کو وہ برداشت کرنے کے بالکل بھی موڈ میں نہیں ہے۔ وہ بد عنوانی کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ میرے خیال میں یہ پیغام تو ٹھیک ہے اور ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے اور خیر مقدم کیا بھی جا رہا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ان پیغامات کا کیا کچھ ٹھوس اثر بھی ہو گا یا وہ صرف کاغذی گولا بن کر رہ جائیں گے؟ جن افسروں کو جبری ریٹائرڈ کیا گیا ہے‘ ان کی عمر پچاس کے آس پاس ہے۔ اگر وہ باقاعدہ نوکری کرتے رہتے تو دس بارہ برس میں انہیں جتنی پگار (تنخواہ) ملتی رہتی‘ اس کا کئی گنا تو انہوں نے بد عنوانی کر کے ہڑپ لیا ہے۔ انہوں نے جتنی رشوتیں کھائی ہیں‘ ان کا بیاج (سود) ہی ان کی تنخواہ سے زیادہ ہو گا۔ اس کے علاوہ انہیں پینشن بھی ملتی رہے گی۔ اس بیچ رشوت دینے والی کمپنیاں بھی انہیں چھپ چھپا کر نوکریاں دے سکتی ہیں۔ ایسے افسروں کو صرف نوکری سے نکال دینا کافی نہیں۔ اس کارروائی سے دیگر نوجوان افسروں کی رگوں میں کوئی ڈر دوڑے گا کیا؟ بالکل نہیں۔ وہ بدنامی کی بھی کوئی پروا نہیں کریں گے۔ تب پھر کیا کیا جائے؟ میرا ہدف صرف بد عنوانوں کو سزا دینا ہی نہیں ہے بلکہ ایسے اصول بنانا ہے‘ جس سے مستقبل میں رشوت کھانے والوں کی ہڈیوں میں بھی کپکپی دوڑ جائے۔ بد عنوانی میں ڈوبے ہوئے نوکرشاہوں کی بھی صفائی ہو۔ یہ کیسے ہو گی؟ اس کے لیے پہلا کام تو یہ ہونا چاہیے کہ ان بد عنوان افسروں کے بڑے بڑے فوٹو اور تعارف ملک کے خاص اخبارات اور مشہور ٹی وی چینلوں میں دکھائے جائیں۔ دوسرا‘ ان کے رشتہ داروں کی ساری ملکیت کو ضبط کیا جانا چاہیے۔ تیسرا‘ انہیں ایک پیسہ بھی پینشن کی شکل میں نہیں دیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ ان میں سے کچھ بڑے مجرموں کو جیل کی ہوا بھی کھلائی جا سکتی ہے۔ یہ سب تو کریں ہی‘ لیکن ان کے ساتھ ساتھ لیڈر لوگ بھی خود کو صاف رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔ ان کے ماتحت نوکر شاہوں میں ان کے کردار کے سبب ہی بد عنوانی کرنے کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے۔
صدر بولے تو اچھا لیکن...
نئی پارلیمنٹ سے صدر شری رام ناتھ کووند نے جو خطاب کیا‘ وہ اپنے آپ میں بہت اچھا کام تھا۔ سب سے پہلے تو میں ان کے بھاشن میں بولی گئی ہندی کی تعریف کروں گا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بھاشن بنیادی ہندی میں لکھا گیا تھا اور صدر نے اسے جس سنجیدگی سے پڑھا‘ وہ بھی اچھا اثر چھوڑ رہا تھا۔ انہوں نے گزشتہ پانچ برس والی مودی سرکار کے کئی پہلوئوں کا ذکر کیا اور اگلے پانچ برس کے لیے کئی معاملات میں امید بندھائی۔ اس میں شک نہیں کہ بھارتی سرکار نے عوامی خدمت کے کئی مشن شروع کیے اور ان میں سے کچھ تھوڑے بہت کامیاب بھی ہوئے‘ لیکن ایسا تو سبھی سرکاروں کو کرنا ہی پڑتا ہے؛ البتہ گزشتہ چنائو کے دوران جو وعدے بھاجپا اور مودی نے کیے تھے‘ ان میں سے زیادہ تر ادھورے رہ گئے تھے۔ ان کا ذکر صدر صاحب کرتے اور انہیں پورا کرنے کا بھروسہ دلاتے تو اور بھی اچھا ہوتا‘ لیکن اصلیت یہ ہے کہ یہ بھاشن تو بنیادی طور پر پی ایم او تیار کرتا ہے۔ اس بھاشن کے دوران کئی معاملات پر سب سے زیادہ تالیاں بجیں۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہی نا کہ مودی کی جیت کی بنیاد ان کے کام اتنے نہیں ہیں جتنے کہ جذباتی کام! مودی سرکار کو اپنے دوسرے دور میں اس کمی کے حوالے سے خبردار رہنا ہو گا اور اپنی واضح اکثریت کی خماری میں ہوش نہیں کھونا ہو گا۔ اس وقت ملک کی اکانومی کافی نازک حالت میں ہے۔ سرکاری آنکڑے کہاں تک درست ہیں‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بھارت کی کل پیداوار (جی ڈی پی) کے بارے میں بھی ماسٹر آف اکانومسٹ کے بیچ بحث چھڑ گئی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں اس بار سب سے کم جی ڈی پی رہی ہے۔ روزگار اس وقت جتنا کم ہوا ہے‘ اتنا گزشتہ 45 برسوں میں نہیں کم ہوا ہو گا۔ دنیا بھر میں مشہور گیلپ پول کے مطابق دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک میں بھارت کا مقام سب سے نیچے ہے۔ عوام کے 'خوشحال‘ ہونے کے نظریہ سے۔ 2017ء میں بھارت کے صرف تین فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ وہ آرام سے رہتے ہیں‘ جبکہ 2014ء میں چودہ فیصد تھے۔ چین میں آج ایسا کہنے والے لوگ 21 فیصد ہیں۔ مودی سرکار نے ہی نہیں‘ ہماری سبھی سرکاروں نے دو معاملات کا بہت مذاق اڑایا ہے۔ ایک تعلیم اور دوسرا‘ صحت! ایک لوگوں کے دل اور دوسرا جسم کو طاقتور بناتا ہے۔ ہماری سرکاریں دل اور جان کا مذاق اڑا کر دولت کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔ بھارت تعلیم پر تین فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ امریکہ اور یورپی ملک آٹھ سے بارہ فیصد تک خرچ کرتے ہیں۔ ہم صحت پر بمشکل تین سے چار فیصد خرچ کرتے ہیں جبکہ مغربی ملک 12 سے 17 فیصد تک خرچ کرتے ہیں۔ بھارت کے لوگوں کا جسم اور دل ٹوٹا رہے گا‘ تو دھن کہاں سے پیدا ہو گا؟ کچھ پیدا بھی ہو گا تو پس مٹھی بھر لوگوں کے لیے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں