لوک سبھا میں صدر کے خطاب پر شکریہ ادا کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے نہرو گاندھی فیملی پر جو طعنہ کسا‘ وہ اتنا درست ہے کہ اسے غلط نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن انہوں نے کانگریس کے لیے جو کچھ کہا ہے‘ وہ کیا ملک کی سبھی پارٹیوں پر نافذ نہیں ہوتا؟ انہوں نے کہا کہ کانگریس اتنی اونچی اٹھ گئی کہ وہ جڑ سے ہی اکھڑ گئی۔ سچ مچ کانگریس کے لیڈروں کو 'جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہیں‘ رس ملائی اور شہد کے ٹیسٹ کا تو پتا ہے‘ لیکن گندم اور کریلے کے سواد کو کیا جانیں؟ وہ عوام سے کٹ گئے ہیں۔ صرف کرتا پاجامہ پہن لینے سے کوئی عوام کے نزدیک نہیں ہو جاتا۔ چنائو مشن کے دوران انہوں نے جیسی زبان کا استعمال کیا‘ کیا ہمارے عام عوام بھی ایک دوسرے کے لیے ایسی زبان کا استعمال کرتے ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ راہول گاندھی کے مقابلے میں نریندر مودی کی زبان زیادہ اثر دار اور صبر والی تھی‘ اور ان کے بھاشن بھی عوام کو لبھانے والے تھے‘ لیکن کیا مودی بھی عوام سے اتنے ہی کٹے ہوئے نہیں ہیں‘ جتنے کہ کانگریسی لیڈر؟ گزشتہ پانچ برس میں مودی نے ایک دن بھی عوامی دربار نہیں لگایا‘ ایک دن بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔ شاید ایک دن بھی اپنے معاملات میں آزاد خیال والے دانشوروں سے کوئی رائے نہیں لی۔ پس‘ لگاتار بھاشن ہوتے رہے۔ یک طرفہ بحث چلتی رہی۔ نوکر شاہوں کو وہ اپنے کندھوں پر سوار کیے رہے۔ یہ تو اتفاق ایسا بنا کہ مضبوط اپوزیشن کی کمی نے انہیں پہلے سے تگڑی اکثریت دے دی۔ انہیں غلط فہمی ہو گئی کہ وہ عوام سے جڑے ہوئے ہیں۔ بھاجپا یا کانگریس یا دیگر کوئی بھی صوبائی پارٹی اگر عوام سے جڑی ہوئی ہوتی تو وہ خود کی زبان‘ شراب بندی‘ رشوت سے نجات‘ پلاسٹک سے نجات‘ مرد عورت برابر حق‘ دام باندھو‘ پانی بچائو جیسی کئی عوامی تحریک چلا دیتی‘ لیکن ابھی تو سبھی پارٹیاں نوٹ اور ووٹ کا طبلہ بجا رہی ہیں۔ آپ کسی بھی لیڈر سے پوچھئے کہ آپ سیاست میں کیوں آئے ہیں؟ تو اس کا جواب وہی ہوتا ہے‘ جو میں نے اوپر کہا ہے۔ کیا آج پورے بھارت میں کوئی گاندھی‘ ونوبا‘ لوہیا‘ جے پرکاش‘ امبیڈکر‘ گرو گولولکر‘ دین دیال اپادھیائے‘ راما سوامی نائیک اور مدھو لمے جیسا لیڈر ہے؟ کون بھرے گا اس خالی جگہ کو؟
بھارت امریکہ دوستی
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا مختصر دورۂ بھارت کافی حد تک کامیاب کہا جا سکتا ہے۔ ویسے تو پہلے بھی وہ کئی بار بھارت آ چکے ہیں لیکن بطور وزیر خارجہ وہ پہلی بار بھارت آئے۔ ان کے دورے کا خاص مقصد اوساکا میں ہونے والی جی ٹونٹی بیٹھک (اجلاس) کے لئے پہلے سے تیاری کرنا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس موقع پر ان کے سفر کے دوران کئی بد مزگیاں ہو سکتی ہیں‘ جیسے ایرانی تیل‘ ایس 400 روسی میزائل‘ بھارت امریکہ تجارت وغیرہ جیسے مسئلے گزشتہ کچھ دنوں سے دونوں ملکوں کے بیچ کہا سنی کو پیدا کر رہے تھے۔ لیکن تسلی کی بات ہے کہ پومپیو اور ہمارے وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے دونوں ملکوں کے بیچ کسی طرح کی کڑواہٹ پیدا ہوئی ہو‘ بلکہ پومپیو نے تو کھلے میں ایسی بات کہہ دی‘ جو آج تک کسی امریکی لیڈر نے کہنے کی ہمت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اپنی پاکستان پالیسی کو ایک دم الٹ دیا ہے۔ گزشتہ امریکی سرکاروں کی پاکستان پالیسی کو بدلتے ہوئے ان کی سرکار نے پاکستان کو یہ بتا دیا ہے کہ وہ دہشتگردی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرے گی۔ بھارت کو اور کیا چاہیے؟ اسی مدعا کو لے کر نریندر مودی نے اوساکا کا قصد کیا۔ جی ٹونٹی اجلاس میں بھی یہی مدعا چھایا رہا۔ اس کے علاوہ ایران پر لگی پابندیوں کے سبب اب بھارت کی تیل کی ضرورت پوری کرنے میں امریکہ متحرک مدد کرے گا۔ باہمی تجارت میں پیدا ہوئی گانٹھوں کو کھولنے کے لیے لے دے کی پلاننگ کی طرف بھی پومپیو نے اشارہ کیا ہے۔ جہاں تک روس کی ایس 400 میزائلوں کی خرید کو رد کرنے کا امریکی دبائو ہے‘ تو جے شنکر نے واضح کر دیا ہے کہ بھارت اپنے ملکی مفادات کی ان دیکھی نہیں کر سکتا۔ بھارت اور امریکہ‘ دونوں ملکوں کی اس وقت مشترکہ فکر ہے‘ چین! چین اور امریکہ کے بیچ اس وقت خطرناک تجارتی مڈ بھیڑ چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ چین کے دوستوں سے امریکہ ان دنوں دوری بنا رہا ہے‘ جیسے پاکستان سے اور امریکہ کے دوستوں سے چین کا مقابلہ بڑھ رہا ہے‘ جیسے بھارت‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ۔ ایسے میں بھارت اور امریکہ کے بیچ گہرے رشتے بڑھنا فطری ہے۔ پھر بھی بھارت کو خبردار رہنا ہو گا‘ کیونکہ ٹرمپ کا امریکہ اپنے مطلب کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
مودی ٹرمپ پریم میلاپ
اوساکا میں ہوئی نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات سے یہ امید بندھی ہے کہ بھارت امریکہ تعلقات میں وہاں پیدا ہوئی بے تعلقی زیادہ فکر مند نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے بیچ کچھ مدعوں پر نا اتفاقی تو ضرور رہے گی‘ لیکن دل میں فرق نہیں ہو گا۔ جہاں تک امریکی مال کی نکاسی کو بڑھانے کی بات ہے‘ تو ٹرمپ نے اوساکا روانہ ہونے سے پہلے ایک کافی سخت ٹویٹ کیا تھا۔ اس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارت امریکی چیزوں پر ٹیکس بڑھانا بندکرے‘ لیکن اوساکا میں مودی سے ملنے کے بعد امریکی ترجمان نے کہا کہ دونوں ملکوں کے افسر ان معاملات کو بات چیت سے حل کریں گے۔ سچائی یہ ہے کہ امریکہ چین تجارت میں چل رہا تنائو بڑھ گیا تو عالمی تجارت میں کم از کم پانچ سو بلین ڈالر کا فرق پڑ جائے گا۔ چین اور امریکہ‘ دونوں ملکوں کو برآمدات اور درآمدات کی نئی منڈیاں کھوجنا ہوں گی۔ ایسے میں بھارت کی چاندی ہو سکتی ہے۔ اس کیفیت میں یہ بحث اپنے آپ دری کے نیچے کھسک جائے گی۔ جہاں تک روس کے ایس 400 میزائل خریدنے کی بات ہے‘ امریکی وزیر خارجہ پومپیو کی موجودگی میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ بھارت اپنے ملکی مفاد کی ان دیکھی نہیں کرے گا۔ کیا پومپیو نے یہ بات ٹرمپ کو نہیں بتا دی ہو گی؟ ٹرمپ نے اچھا برتائو دکھایا اور اس مدعا کو مودی کے ساتھ اٹھایا ہی نہیں۔ ٹرمپ نے ان دنوں فائیو جی کی چینی تکنیک کے بائیکاٹ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے‘ لیکن اس معاملے میں بھی مودی نے ٹرمپ کو با اخلاق طریقے سے سمجھا دیا ہے کہ بھارت اس کا استعمال کرنا چاہتا ہے تاکہ اس تازہ ترین تکنیک کا فائدہ اس کے کروڑوں لوگ اٹھا سکیں۔ ایرانی تیل کے بائیکاٹ پر بھی مودی نے ٹرمپ کو بتا دیا کہ فارس کی خلیج میں بھارت کتنا پھنسا ہوا ہے۔ انہوں نے ٹرمپ پر واضح کیا کہ ہمارے لاکھوں لوگ ان ملکوں میں کام کرتے ہیں۔ اور یہ کہ اس علاقے میں امن و استحکام کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ اس معاملے میں پومپیو نے تیل کی سپلائی کے بارے میں بھارت کو پہلے ہی تسلی دے دی تھی۔ ٹرمپ نے بھی مودی سے کہا ہے کہ وہ بھرپور کوشش کریں گے کہ اس علاقہ میں امن رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ دہشتگردی کے خلاف کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ ایران کو سخت دہشت گرد ملک بتاتے ہیں اور مغربی ایشیا اور کچھ افریقی ممالک میں چل رہی زبردست مڈ بھیڑوں کے لیے بھی اسی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں‘ لیکن کچھ دوسرے ممالک کے بارے میں ان کی سوچ کیا ہے؟ مجھے اس بات پر تھوڑی حیرانی ہے کہ اوساکا میں نریندر مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ سلامتی کونسل میں بھارت کو ممبر شپ دلوانے کے لیے امریکہ کیا کر رہا ہے؟ وہاں چین کی کاٹ کرنے کے لیے بھارت کی جانب سے یہ ترپ کا پتا ثابت ہو گا۔