"DVP" (space) message & send to 7575

رشوت واپس کرو !

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ اور ترینامول کانگرس کی لیڈر ممتا بینرجی نے وہ کام کر دکھایا ہے‘ جس طرح کے کام مہاتما گاندھی اور مائوزے تنگ جیسے بڑے لیڈر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے سبھی بنگالیوں سے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کے لیڈروں نے ان سے جو بھی رشوتیں کھائی ہیں‘ انہیں وہ ان لیڈروں سے وصول کر لیں۔ بنگال میں یہ لیڈر لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرانے کے لیے ''کٹ منی‘‘ مانگتے ہیں‘ جو لوگوں کو مجبوراً دینا پڑتی ہے۔ کسی کو بینک سے قرض لینا ہے‘ کسی کو اپنا غریب ریکھا کارڈ بنوانا ہے‘ کسی کو کوئی چھوٹی موٹی نوکری پکڑنا ہے‘ کسی کو سرکاری مکان اپنے نام الاٹ کروانا ہے یعنی ہر کام کے لیے لوگ لیڈروں کو ''کٹ منی‘‘ دیتے ہیں۔ یہ رسم پرانی ہے۔ کمیونسٹ حکومت میں مقامی لیڈر لوگوں سے رشوت وصولنے میں کوئی کمی نہیں رکھتے تھے۔ اب جبکہ ممتا بینرجی کو پارلیمنٹ کے چنائو میں بھاجپا نے کمر توڑ مار لگا دی ہے‘ تب ممتا نے یہ نیا دائو کھیلا ہے۔ عام آدمیوں کی ناراضی کا بھاجپا نے جو فائدہ اٹھایا ہے‘ اس نے ممتا کو اس نئی پہل کے لیے مجبور کیا ہے۔ اس پہل کا نتیجہ بھی غضب کا رہا ہے۔ اپنے آپ کو طرم خان سمجھنے والے مقامی لیڈر بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں۔ عام لوگ اپنی ''کٹ منی‘‘ واپس لینے کے لیے ان کے گھر گھیر ے میں لے رہے ہیں۔ ان کے گھروں پر جا کر گالیاں دے رہے ہیں اور کچھ لیڈر حضرات کی پٹائی بھی کر رہے ہیں۔ کچھ لیڈروں نے لوگوں کو رشوت کے روپے واپس کرنا بھی شروع کر دیے ہیں۔ جو لیڈر روپے واپس نہیں کر پا رہے‘ انہیں پٹوانے اور پکڑوانے میں بھاجپا کے کارکنان لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ترینامول کانگرس کے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ بھاجپا نے یہ فضول کا جال بچھایا ہوا ہے۔ بھاجپا لیڈروں کا کہنا ہے کہ ''کٹ منی‘‘ کی خراب رسم کمیونسٹوں کے وقت سے ضرور چلی ہوئی ہے‘ لیکن ترینامول کانگرس کی سرکار میں اس نے نئی اونچائیاں چھو لی ہیں‘ کیونکہ ترینامول کی اعلیٰ لیڈرشپ خود بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بنگال میں یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہی ہیں‘ لیکن عام آدمی کی رشوت سے نجات کچھ حد تک ہی ہو رہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ جب ملک کے بڑے لیڈر اور افسر رشوت کے بنا نہیں جی سکتے تو مقامی لیڈر کیسے اس کے بنا رہ سکتے ہیں؟ بڑوں کے نقش قدم پر چھوٹے اپنے آپ چلانے ہی لگتے ہیں۔ 
بھونسلہ سے سیکھے سارا ملک 
ہریانہ میں جیند کے پاس ایک گائوں ہے‘ بھونسلہ۔ اس گائوں میں آس پاس کے چوبیس گائوں کی ایک پنچایت ہوئی۔ یہ کھیڑا کھاپ پنچایت تھی۔ اس میں سبھی گائوں کے سر پنچوں نے سبھی کی رضا مندی سے ایک فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ ایسا ہے‘ جو بھارتی پارلیمنٹ کو‘ سبھی ودھان سبھائوں کو اور ملک کی سبھی پنچایتوں کو بھی کرنا چاہیے۔ آزادی کے بعد اتنا بڑا انقلابی فیصلہ بھارت کی کسی بھی پنچایت نے شاید نہیں کیا ہے۔ ہمارے پڑوس میں کچھ بدھ اور اسلامی ملک ہیں‘ جو یہ فیصلہ آسانی سے کر سکتے ہیں‘ لیکن ان کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ کیا ہے یہ فیصلہ؟ یہ ہے کہ اپنے اپنے نام کے ساتھ ان دیہات کے لوگ اپنی ذات اور خاندان کا نام نہیں لگائیں گے۔ صرف اپنا پہلا نام لکھیں گے جیسے صرف بنسی لعل‘ صرف بھجن لعل‘ صرف دیوی لعل! وہ اپنے مکانات‘ دکانوں‘ گاڑیوں پر بھی سے اپنی ذات کے بارے میں لکھا ہوا ہٹائیں گے۔ میںکہتا ہوں کہ درس گاہوں‘ ہسپتالوں‘ دھرم شالائوں‘ خانقاہوں‘ سبیل وغیرہ پر سے بھی ذات پات والے لفظ کیوں نہیں ہٹائے جاتے؟ ذات پات کو لے کر بننے والی پارٹیوں اور اتحادوں پر بین لگنے چاہئیں۔ ذات پات کی نفرت ختم کرنے کے لیے اب سارے ملک کو تیار ہونا ہو گا۔ کچھ برس پہلے جب من موہن سنگھ سرکار نے ذات پات پر کائونٹنگ کروانی شروع کی تو میں نے ''میری ذات ہندوستانی‘‘ تحریک چلائی تھی ۔ملک کی سبھی پارٹیوں نے اس تحریک کی زبردست حمایت کی تھی ۔خود کانگرس کی صدر سونیا گاندھی کی مداخلت سے وہ ذات پات کی کائونٹنگ روک دی گئی تھی۔ اگر بھارت سے ذات پات کا سسٹم ختم کرنا ہے تو نام کے ساتھ ذات پات والے الفاظ ختم کرنا ہوں گے اور یہ محض ایک شروعات ہے ۔ زیادہ ضروری ہے کہ ذات کی بنیاد پر نوکریوں میں ریزرویشن کو فی الفور ختم کیا جائے۔ ریزرویشن ضرور دیا جائے لیکن ان کو جو صرف تعلیم اور اقتصادی لحاظ کمزور ہوں۔ شادی کرتے وقت ذات پات کو دیکھنا بند کریں‘ جوڑے کی خاصیتیں اور ان کے اعمال اور عادت کو ہی اہمیت دیں۔ ذات پات کی رسم نے بھارت جیسے ملک کو' پنگو‘ بنا دیا ہے۔ یہ ہندو سماج کو سب سے خوفناک بد دعا ہے۔ اس سانپ نے ہمارے مسلمانوں‘ بدھوئوں‘ عیسائیوں‘ سکھوں اور جینیوں کو بھی ڈس لیا ہے۔ ذات پات کے خلاف آریہ سماج کے بانی مہرشی سوامی دیانند نے جو منتر ڈیڑھ سو برس پہلے پھونکا تھا‘ اس نے ہریانہ میں اپنا رنگ دکھایا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس منتر کی آواز صرف بھارت میں ہی نہیں‘ ہمارے پڑوسی ممالک میں بھی سنی جائے۔ کچھ سماجی خدمت گار‘ سماج سدھارک‘ کچھ سادھو سنیاسی‘ فقیر‘ ولی اور ڈاکٹر لوہیا جیسے کچھ عظیم لیدر اٹھیں اور جنوبی ایشیا کے پونے دو ارب لوگوں کی زندگی میں نئی روح پھونک دیں۔ 
کشمیر پر تو تو میں میں ٹھیک نہیں! 
جموں و کشمیر میں صدارتی نظام اب کچھ مہینے اور چلے گا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کے اس اعلان پر کشمیری لیڈروں اور اپوزیشن نے ناراضی ظاہر کی ہے۔ ان کی ناراضی فطری ہے‘ لیکن امیت شاہ کا کہنا ہے کہ لوک سبھا کے چناوئوں کے ساتھ دو ماہ پہلے کشمیر میں ودھان سبھا کے چنائو اسی لیے نہیں کروائے جا سکتے تھے کہ ودھان سبھا کے ممبرز کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ حزب اختلاف نے ایک دلیل اور بھی دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر وزیر داخلہ مانتے ہیں کہ کشمیر میں حالات سدھر رہے ہیں تو پھر وہ چنائو کرانے سے کیوں ڈر رہے ہیں؟ سرکار کا دعویٰ ہے کہ شدت پسندی کا خاتمہ تیزی سے ہو رہا ہے‘ مگر اب کشمیر کے اندر جو حالات ہیں وہ مقامی نوجوانوں کو انتہا پسندی کی جانب راغب کرنے کا بڑا موجب بن سکتے ہیں۔ امیت شاہ کے دورہ امر ناتھ کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات تو کیے ہی گئے‘ انہوں نے پولیس اور فوج کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ شدت پسند قرار دئیے گئے لوگوں کے رشتہ داروں سے گفتگو کریں اور نوجوانوں کو گمراہ ہونے سے بچائیں۔ انہوں نے ان سے یہ گزارش بھی کی کہ جن سپاہیوں کی لڑائی میں موت واقع ہوتی ہے‘ ان کے سگے رشتہ داروں کے ساتھ بھی خاص تعلقات قائم کیے جائیں۔ جیسا کہ وہ خود 12 جون کو اننت ناگ میں مارے گئے پولیس انسپکٹر ارشد خان کے گھر گئے۔ امیت شاہ نے ایسا اشارہ بھی دیا کہ ابھی حریت پسندوں سے بات چیت کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ زیادہ تر حریت پسند لیڈروں کے خلاف طرح طرح کی جانچیں چل رہی ہیں‘ جن کے سبب وہ بھارتی حکومت پر کوئی اعتبار نہیں کرتے ہیں۔ ادھر پاکستان میں بھی شدت پسندی پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت دنیا کی جانب بہت مختلف نظر سے دیکھتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ایک ریٹائرڈ کرکٹر ہیں اور کھلاڑی کا نظریہ بنیادی طور پر امن پسندی کا ہوتا ہے۔ ان کے رد عمل میں یہ احساس بہت نمایاں طور پر سامنے آیا ہے۔ اس لیے سچ پوچھا جائے تو ہندوستان کی سرکار آج مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کی جس بہتر پوزیشن میں ہے‘ ویسی پہلے شاید ہی کبھی رہی ہو۔ ایسے نازک وقت میں بھاجپا اور کانگرس کشمیر کو لے کر ایک دوسرے پر حملے کریں‘ یہ ان کی سیاست کے مفاد میں تو ہو سکتا ہے لیکن یہ کشمیر کے مفاد میں قطعی نہیں ہو سکتا ہے۔ اس وقت کشمیر کے بارے میں ملک کی سبھی پارٹیوں کا ایک ہی راگ ہونا چاہیے تاکہ جو بھی حل نکلے اسے کشمیری عوام تہہ دل سے قبول کریں۔ یہاں ہمیں پی وی نرسمہا رائو اور اٹل جی کے اقوال یاد رکھنے چاہئیں‘ اٹل جی نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر انسانیت‘ جمہوریت اور کشمیریت کے دائرے میں حل ہونا چاہیے۔ رائو صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ جہاں تک کشمیریوں کی خود مختاری کا سوال ہے تو اس کی حد آسمان تک ہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ مسئلہ ہندوستان‘ پاکستان اور کشمیری عوام میں گفت و شنید کا متقاضی ہے اور اس گفت و شنید کی حدیں بہت وسیع ہونی چاہئیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں