بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اپنے حالیہ دورۂ چین کے دوران نو سمجھوتوں پر دستخط کیے ہیں۔ بھارت میں ان دنوں بجٹ کا اتنا شور و غل تھا کہ اس ضروری بات کی طرف ہمارا دھیان نہیں گیا۔ ہمارے پڑوسی ملک کسی بھی عظیم قوت کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات بڑھائیں‘ اس میں بھارت کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے‘ لیکن ہمارے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں چین جس طرح سے گہرائی بڑھا رہا ہے‘ اس سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ وہ کہیں کوئی سامراجی جال تو نہیں بچھا رہا ہے۔ اس نے پاکستان پر ساٹھ بلین ڈالر قربان کرنے کا اعلان تو پہلے ہی کر رکھا ہے‘ اب اس نے بنگلہ دیش کو بھی اکتیس بلین ڈالر دینے کا عزم کر لیا ہے۔ پاکستان کو یہ روپے وہ شاہراہ ریشم کے لیے دے رہا ہے تو بنگلہ دیش کو وہ بنگلہ دیش چین اور بھارت اور میانمار کے بیچ سڑک بنانے کے لیے دے رہا ہے۔ جن تعمیراتی کاموں پر چین اپنا پیسہ پانی کی طرح بہا رہا ہے‘ ان ترقیاتی کاموں کی بنیادی تجویز کا بھارت نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ اس کے دو اجلاسوں میں بھارت کا کوئی بھی لیڈر یا افسر گیا ہی نہیں تھا۔ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش ہی نہیں‘ چین کی کوشش ہے کہ بھارت کے سبھی پڑوسی ملک اس کی گرفت میں آ جائیں۔ اس نے نیپال‘ سری لنکا‘ برما‘ مالدیپ وغیرہ پر زبردست ڈورے ڈالے ہیں۔ اس ملکوں میں اس کی پالیسی اس لیے بھی کامیاب ہوئی کہ ان ملکوں میں ایسی سرکاریں آ گئی تھیں جو بھارت کی جانب کم دوستی والے یا مخالف رویے رکھتی تھیں۔ جیسے مالدیپ میں یامین سرکار‘ سری لنکا میں مہندا راج پکشے اور نیپال میں کے پی اولی سرکار۔ بنگلہ دیش کو بھی چین نے تبت تک (1975ء) منظوری نہیں دی تھی‘ جب تک وہاں بھارت پریمی شیخ مجیب زندہ تھے۔ ضیا الرحمان کی سرکار سے ہی اس نے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ چین نے نہ صرف بنگلہ دیش کے بننے کی مخالفت کی تھی بلکہ اس کے اقوام متحدہ میں داخلے کی بھی مخالفت کی تھی۔ اس وقت چین بنگلہ تجارت دس بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے‘ جس میں چین کا پلڑا نو بلین ڈالر کے ساتھ بھاری ہے۔ پورا بنگلہ دیش چینی مال سے اٹا رہتا ہے۔ بنگلہ فوج کے پاس چینی ہتھیار ہی سب سے زیادہ ہیں۔ 2016ء چینی صدر شی جن پنگ نے ڈھاکہ میں اعلان کیا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کو چوبیس بلین ڈالر کی مالی مدد دیں گے۔ بنگلہ دیش‘ چین اور بھارت کے بیچ بھاری توازن بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے‘ کیوں کہ وہ بھولا نہیں ہے کہ بھارت نے ہی اسے بنوایا ہے۔ شیخ حسینہ نے اس دورۂ چین کے دوران دالن میں ہوئی ایک عالمی بیٹھک میں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہایت ہی گہرا بتایا ہے۔
تبت سے کیوں ڈرے چین؟
نیپال میں لگ بھگ بیس ہزار تبتی پناہ گیر رہتے ہیں۔ اس بار 6 جولائی کو انہیں نیپالی سرکار نے دلائی لاما کا یوم پیدائش نہیں منانے دیا۔ دلائی لاما کا یہ 84واں جنم دن تھا۔ نیپال میں برسوں سے رہ رہے ہزاروں تبتیوں کو اس لیے ناامید ہونا پڑا کہ اس پر چین کا بھاری دبائو ہے۔ چین بالکل نہیں چاہتا کہ تبتی لوگ نیپال یا بھارت میں رہ کر چین کے خلاف تحریک چلائیں۔ ان دنوں بھارت اور نیپال‘ دونوں ہی چین کو گانٹھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ نیپال میں جب سے پشپ کمل دہل پرچنڈ اور کے پی اولی کی کمیونسٹ سرکاریں بنی ہیں‘ چین کا دبائو بہت بڑھ گیا ہے۔ چین اور نیپال کی سرحد 1236 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس حد پر سخت حفاظتی انتظام ہونے کے باوجود اتنے راستے بنے ہوئے ہیں کہ تبت سے بھاگ کر آنے والے لوگوں کو روکنا دونوں ملکوں کی لیے مشکل ہوتا ہے۔ جب سے (1950ء سے) تبت پر چین کا قبضہ ہوا ہے اور دلائی لاما (1959ء میں) بھاگ کر بھارت آئے ہیں‘ ہر برس تبت سے بھاگ کر ہزاروں لوگ دنیا کے کئی ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ لیکن نیپال سب سے نزدیک پڑوسی ہونے کے سبب چین کو بار بار بھروسہ دلاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی زمین کا استعمال چین مخالف موومنٹ کے لیے نہیں ہونے دے گا۔ بدلے میں چین نیپال میں آنکھ میچ کر پیسہ بہا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ نیپالی زمین سے تبت کی آزادی کی تحریک چلانے دینا یا وہاں پُر تشدد حرکات کو بڑھاوا دینا عالمی قانون کے خلاف ہے‘ لیکن دلائی لاما کے جنم دن پر بین لگانا‘ تبتیوں کے جلسے پر روک لگانا اور پناہ گیروں کو مستند سرٹیفکیٹ نہ دینا بھی تو عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ تبت کے معاملے میں چینی سرکار نے مجھے کبھی تبت نہیں جانے دیا۔ جہاں تک تبت کی آزادی کا سوال ہے‘ کچھ برس پہلے دلائی لاما نے آسٹریا میں صاف صاف کہا تھا کہ تبت کو وہ چین کا اٹوٹ حصہ مانتے ہیں‘ وہ تبت کو چین سے الگ نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ تبتی تہذیب اور مذہب کے معاملے میں خود مختاری چاہتے ہیں۔ بھارت اور نیپال بھی تبت کو چین کا ہی حصہ بتا چکے ہیں۔ پھر بھی چین کے حکمران پتا نہیں کیوں اتنے ڈرے ہوئے ہیں؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ دلائی لاما سے سیدھی بات کیوں نہیں کرتے؟ پندرہ بیس برس پہلے وہ دلائی لاما کے بھائی کے ساتھ رابطے میں تھے لیکن وہ بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر اس بارے میں کچھ پہل کریں تو اس کی نتائج اچھے نکل سکتے ہیں۔
ہم آہنگی کا نمونہ
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اہم مثال کل دہلی میں دیکھنے کو ملی۔ ایسی باہمی رواداری تمام مذہبوں اور فرقوں کے لوگ آپس میں کریں تو ہندوستانی ہی نہیں، سارے جنوبی ایشیا میں ایک نئی صبح کی آمد ہو جائے گی۔ یہ قصہ ہے پرانی دہلی کے حوض قاضی علاقے کا۔ اس کے نام سے ہی آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ مسلمانوں کی اکثریت والا محلہ ہے۔ یہاں درگا ماتا کا ایک مندر ہے۔ اس مجسمے کو 30 جون کو کچھ لوگوں نے توڑ دیا تھا۔ ایسا ہونے پر فسادات ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ آپس میں ترشی بڑھ جاتی ہے۔ لیڈر لوگ اپنی سیاسی شطرنج بچھا کر طرح طرح کے دائو کھیلنے لگتے ہیں‘ لیکن حوض قاضی کے ہندو اور مسلمان باشندوں نے کمال کر دیا۔ وہاں کے لیڈروں نے اپنی سیاست کی کوشش کی لیکن وہاں کے باشندوں نے آپس میں کشیدگی پھیلانے اور خون بہانے کے بجائے محبت اور ہم آہنگی کا دریا بہا دیا۔ وشوا ہندو پریشد اور دیگر ہندو تنظیموں نے مندرکی دوبارہ تعمیر اور ساکھ کے نام پر کل ایک بہت بڑا جلوس نکالا۔ اس تقریب میں وجے گوئل، شیام جاجو اور پونم مہاجن نے خصوصی کردار ادا کیا۔ یہ تینوں بی جے پی کے ممتاز لیڈر ہیں۔ بی جے پی کو کٹر ہندو نظریاتی، فرقہ پرست اور تنگ نظرکہا جاتا ہے لیکن دیکھئے کہ وہاں کیسا عجوبہ ہوا۔ دس ہزار ہندوؤں کے اس جلوس کو اس محلے کے مسلمانوں نے کھانا کھلایا اور ان کی مہمان نوازی کی۔ مسلمانوں کے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہوئے ہندوؤں کی جو تصویریں چھپی ہیں، انہیں دیکھ کر کون سرشار نہیں ہو گا؟ یہی سچا ہندوتوا ہے اور یہی سچا ہندوستانی مسلمان ہے۔ یہ عجوبہ تو پرامن طریقے سے ختم ہو گیا لیکن اس کی وجہ سے دہلی انتظامیہ انتہائی مستعد تھی کہ یہ پروگرام بہتر طریقے سے پورا ہو جائے، لہٰذا 2000 سے بھی زیادہ پولیس اور نیم فوجی دستے کے جوان تعینات کئے گئے تھے۔ اگر یہ طور طریقہ ہم ہندوستانیوں کے مزاج کا حصہ بن جائے یعنی ہم سب کی عبادت گاہوں کا احترام کرنے لگیں تو انتظامیہ کو یہ سب انتظامات کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
بنگلہ دیش‘ چین اور بھارت کے بیچ بھاری توازن بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے‘ کیوں کہ وہ بھولا نہیں ہے کہ بھارت نے ہی اسے بنوایا ہے۔ شیخ حسینہ نے اس دورۂ چین کے دوران دالن میں ہوئی ایک عالمی بیٹھک میں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہایت ہی گہرا بتایا ہے۔