کرتار پور گلیارے کو مینیج کرنے پر پاکستان اور بھاجپا اصولی ہم صلاح ہو گئے ہیں۔ اسلام آباد نے یقین دلایا ہے کہ وہ کرتار پور گردوارے کے نام پر چلنے والی بھارت کے خلاف موومنٹ پر پابندی لگائے گا۔ اس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ بھارت کے ہر شہری کو‘ اگر اس کے پاس پاسپورٹ ہے‘ ویزا کے بنا (بغیر) بھی کرتار پور جانے دیا جائے گا اور وہاں تک پہنچنے کے لیے وہ ایک پل بھی جلد بنائے گا۔ بھارت نے خالصتانی لیڈر گوپال سنگھ چاولہ کو سکھ گردوارہ کمیٹی سے بھی باہر نکلوا دیا ہے۔ چاولہ مندرجہ بالا کمیٹی کا سیکرٹری تھا اور بھارت کے خلاف باتیں کرتا رہتا تھا۔ یہ فیصلہ کرنا اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ میں پاکستان کے کئی وزرائے اعظم اور دوسرے حکام سے پوچھتا رہا ہوں کہ کیا آپ کچھ ایسے آدمیوں اور تنظیموں کے نام مجھے بتا سکتے ہیں‘ جو بھارت میں متحرک ہوں اور وہ پاکستان کو توڑنے میں لگے ہوں؟ دونوں ملکوں میں اس طرح کی تنظیموں اور ان سے جڑے ہوئے آدمیوں پر پابندی ہونی چاہیے۔ دونوں ملک اٹوٹ رہیں‘ ترقی کریں اور خوش حال بنیں‘ تبھی ان کے تعلقات سدھریں گے اور حالات میں وہ بہتری آ سکے گی جو دونوں قوموں کی ترقی کے لیے بے حد ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ جو بھی ہو‘ فی الحال کرتار پور کوریڈور کے معاملے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے ہوائی راستوں پر سے اب پابندی مکمل طور پر اٹھا لینی چاہیے۔ پچھلے کچھ عرصے میں بھارت کے جہاز پاکستانی حد سے نہیں گزرتے تھے۔ انہیں چکر لگا کر ہی مغربی ممالک میں جانا پڑتا تھا۔ فروری سے اب تک پانچ چھ سو کروڑ روپے کا زیادہ خرچ بھارتی جہازوں کو کرنا پڑا ہے۔ پاکستان اس بین کو ہٹانے کے لیے یہ شرط رکھ رہا تھا کہ بھارت اپنی حدودمیں ہوائی اڈوں پر تعینات اپنے جنگی جہازوں کو ہٹا لے۔ بھارت کو یہ مانگ ماننے میں دیر نہیں کرنی چاہیے تھی؟ انہیں فوراً ہٹانا چاہیے تھا۔ اس وقت پاکستان جیسی مشکلات میں پھنسا ہوا ہے‘ دور دور تک یہ امکانات نہیں کہ وہ بھارت پر کوئی حملہ کرنا چاہے گا۔ ایسے حالات اپنے آپ بن رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر بھی حل ہو سکتا ہے اور بھارت پاک تعلقات بہتر ہونا بھی شروع ہو سکتتے ہیں۔ اگر وسطی ایشیا کے ممالک تک آنے جانے کے لیے پاکستان ہوائی رستے کے ساتھ ساتھ زمینی راستہ بھی بھارت کے لیے کھول دے تو سارے جنوب ایشیا کی ہی قسمت چمک اٹھے گی۔
غریبی کا مذاق ہے یہ!
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں غریبی کو سب سے زیادہ ختم یا کم کرنے والا کوئی ملک ہے تو بھارت ہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں 2002ء سے 2016ء تک یعنی چودہ برسوں میں 27 کروڑ دس لاکھ لوگ غریبی کی لکیر (خطِ افلاس) سے اوپر اٹھ گئے۔ کانگریس سرکار کی اس سے زیادہ تعریف کیا ہو سکتی ہے؟ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی سرکار کو کامیابی کا یہ سب سے خوبصورت اور مستند سرٹیفکیٹ دیا جا سکتا ہے۔ یہ رپورٹ 103 ممالک کے سوا تین ارب لوگوں کی سٹڈی کر کے بنائی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے ملکوں کی حالت میں سب سے زیادہ سدھار ہوا ہے اور ان کے عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے۔ اس ریسرچ میں صرف یہی نہیں دیکھا گیا کہ کسی غریب یا اس کے فیملی کی روزمرہ کی انکم کتنی ہے بلکہ یہ بھی جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کے کھان پان (کھانے اور پہننے)‘ رہائش‘ بچوں کی تعلیم‘ صفائی‘ سکولوں میں حاضری‘ کھانا پکانے کے لیے ایندھن کی موجودگی یا دستیابی‘ تشدد جیسے خطروں سے نمٹنا وغیرہ جیسے معاملات میں انتظامات درست ہیں یا نہیں؟ ان سب مدعوں پر جانچ کر کے اقوام متحدہ کی یہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ بھارت نے کمال کر دیا ہے۔ اس کمیٹی نے ضرور کمال کر دیا ہو گا۔ بھارت نے کمال کیا یا نہیں لیکن اس کمیٹی کو سب سے پہلے یہ سمجھ ہونی چاہیے کہ غریبی کے معنی کیا ہیں؟ اور غربت کہتے کسے ہیں؟ کون ہے‘ جسے ہم غریب مانیں اور کون سے طبقے ایسے ہیں‘ جن کو غریب تسلیم نہیں کیا جا سکتا؟ بھارت میں اب سے دس پندرہ برس پہلے تک اسے غریب کہا جاتا تھا‘ جو گائوں میں اٹھائیس روپے اور شہر میں بتیس روپے روز کمائے۔ انہیں دنوں کچھ ماہرین اقتصادیات نے اسے چالیس روپے اور بیالیس روپے روز کر دیا تھا۔ آج کل ایک ڈالر سے ڈیڑھ ڈالر تک کو غریبی کا آنکڑہ مانا جاتا ہے۔ یعنی جو لوگ ایک تا ڈیڑھ ڈالر ہی روزانہ کما پاتے ہیں اور اس سے زیادہ کمانے کی استعداد نہیں رکھتے‘ انہیں غریب مانا جائے گا کیونکہ وہ اتنا نہیں کما پاتے کہ اپنی روزمرہ کی خوراک ہی پوری کر سکیں‘ دوسرے اخراجات پورے کرنا اور زندگی کے دوسرے لوازمات پورے کرنا تو دور کی بات ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آج بھارت کے کس شہر میں کون آدمی سو روپے روز میں گزارہ کر سکتا ہے؟ میاں بیوی اور دو بچے دو سو روپے روز میں کیا‘ روٹی کپڑا‘ مکان‘ علاج تعلیم اور انٹرٹینمنٹ کی کم از کم سہولیات پا سکتے ہیں؟ کیا وہ ایک انسان کی زندگی جی سکتے ہیں؟ بھارت کے لاکھوں غریب علاج کی کمی کے چلتے دم توڑ دیتے ہیں۔ انہیں نہ تو مناسب خوراک مل پاتی ہے اور نہ بیماری کی صورت میں مناسب ادویات ہی دستیاب ہو سکتی ہیں۔ یہ اخراجات نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ کروڑوں بچے اپنی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ بھارت میں کروڑوں لوگ آج بھی ایسے جھونپڑوں میں دن کاٹتے ہیں‘ بارش ہو تو جن کی چھت ٹپکتی رہتی ہے‘ فرش کیچڑ میں سنا رہتا ہے‘ دیواروں پر سانپ بچھو رینگتے رہتے ہیں اور اگر دھوپ ہو تو حبس جان لیوا ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈ اور گرمی کی مار جھیلنے پر بھی کروڑو دیہاتی‘ جنگلی لوگ‘ کسان اور مزدور آج بھی مجبور ہیں۔ گائوں کے گھر گھر میں بجلی اور بیت الخلا صرف کاغذوں پر آنکڑوں کا کھیل ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ بھارت میں سب کو یہ ساری سہولتیں آج بھی پوری طرح میسر نہیں ہیں۔ اسی کھیل میں الجھ کر اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ بھی بہہ گئی ہے۔ ہم بھارت والے اس رپورٹ پر پھول کر کپا ہو سکتے ہیں لیکن یہ ہماری غریبی کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
عالمی عدالت کا فیصلہ
ہیگ کی عالمی عدالت کے ججز اس وقت بہت خوش ہوں گے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کل بھوشن یادیو کے کیس جیسا فیصلہ کبھی نہیں دیا ہو گا۔ اس فیصلہ کا سب سے بڑا کرشمہ یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں جشن منا رہی ہیں۔ بھارت کہہ رہا ہے کہ پندرہ سولہ ججوں نے کلبھوشن یادیو کے مقدمہ کو پھر سے چلانے اور اسے بھارتی وکلا کی مدد لینے کا حق دے کر انصاف کیا ہے‘ لیکن پاکستان کہہ رہا ہے کہ عدالت نے بھارت کی اس گزارش کو رد کر دیا ہے کہ یادیو کو وہ بے گناہ مانے اور اسے رہا کرے۔ عدالت نے ایک خاص سطح کی رسائی دینے کی جو بات کی ہے وہ پاکستان نے تسلیم کر لی ہے۔ اگر پاکستانی لوگ اس فیصلے پر جشن منا رہے ہیں تو بھارت میں بھی لوگ خوش ہیں کہ کل بھوشن یادیو کی جان بچ گئی۔ جان بچے گی یا نہیں‘ وہ تو پاکستان کی عدالت طے کرے گی‘ لیکن اب عالمی عدالت کے فیصلے کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا۔ بھارتی وکیلوں کے لیے بھی اپنے دروازے کھولنا ہوں گے۔ اس کے موت کے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی بات کہہ کر ہیگ کی عدالت نے ایک بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین معاملات‘ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ کرتار پور کوریڈور کی تعمیر سے حالات اعتدال پر آ رہے ہیں‘ پانچ ماہ قبل گرفتار کئے گئے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئی اور تنائو کم ہوا۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو آنے والے دنوں میں بھی باہمی تعاون کے اس سلسلے کو جاری رکھنا ہو گا۔