پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی‘ دونوں ہی نیو یارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھاشن دیں گے۔ دونوں کی تقریریں ایک ہی دن ہیں‘ آگے پیچھے‘ یعنی تھوڑے وقفے سے۔ شاید پہلے جناب عمران خان صاحب بولیں گے اور پھر مودی! سب سوچ رہے ہیں کہ عمران خان اور مودی کے بیچ جم کر دنگل ہو گا۔ دو پڑوسیوں کے اس دنگل کو ساری دنیا دیکھے گی۔ لوگوں کو یہ ڈر بھی ہے کہ نکیتا خرشچوف کی طرح ان لیڈروں کے بیچ نوبت کہیں خطرناک صورت نہ اختیار کر لے‘ لیکن خارجہ سیکرٹری کے بیان سے بہت راحت ملی ہے کہ مودی اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران کشمیر کا مدعا اٹھائیں گے ہی نہیں‘ کیونکہ ان کے پاس اٹھانے کے لیے درجنوں اہم مدعے (معاملات) ہیں۔ یہ عزم بہت درست ہے اور تعمیری بھی لیکن اگر عمران خان صاحب مودی سے پہلے بولے یعنی انہوں نے مودی سے پہلے تقریر کی اور جم کر الزام لگائے تو بھی کیا مودی چپ رہیں گے؟ شاید انہیں کچھ بولنا ہی پڑے گا۔ اگر وہ بولیں تو میری رائے میں وہی بولیں‘ جو بھارت میں وہ بول رہے ہیں۔ جہاں تک عمران خان صاحب کا سوال ہے کہ وہ کیا بولیں گے؟ چین کے علاوہ کس ملک نے ان کی آواز میں آواز ملائی ہے؟ دیگر ممالک کی بات جانے دیجئے‘ ایک بھی مسلم ملک نے پاکستان کی پشت نہیں ٹھونکی۔ جہاں تک امریکہ کا سوال ہے‘ وہ افغانستان سے جان چھڑانے کے چکر میں عمران خان صاحب کو کچھ اہمیت ضرور دے رہا تھا لیکن طالبان سے مذاکرات رد ہونے کے بعد پاکستان کا یہ سہارا بھی کھسک گیا ہے۔ اب عمران خان کیا کریں گے؟ پاکستان میں ان کے حزب اختلاف والے ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ انہیں نیویارک میں کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا لیکن میرا خیال یہ ہے کہ عمران خان صاحب کو اب گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے ایسی ہوا بنانی چاہیے کہ پاک بھارت بات چیت جلد از جلد شروع ہو سکے۔ کشمیر سے ہی شروع ہو اور دونوں کشمیروں کے بارے میں ہو۔ دونوں کشمیروں کے کشمیری اسی طرح آزاد رہیں جیسے کہ عمران اسلام آباد میں آزاد ہیں اور میں دہلی میں آزاد ہوں۔ یہی بات میں محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جناب نواز شریف اور جنرل مشرف صاحب سے بھی کہتا رہا ہوں۔ کشمیر ہمارے دونوں ملکوں کے بیچ کھائی بنا ہوا ہے۔ اسے جناب عمران خان چاہیں تو پُل بنا سکتے ہیں۔
سب کے لیے ایک جیسا قانون
بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے کچھ تازہ فیصلوں میں بھارت کی اب تک کی سرکاروں کی مرمت کر دی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 44 میں سارے ملک کے لیے ایک جیسی شہریت بنانے کا جو عزم تھا‘ اسے آج تک کسی بھی سرکار نے پورا کیوں نہیں کیا؟ اس کا جو سبب مجھے سمجھ میں آیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ کوئی بھی بھارتی سرکار گھر بیٹھے مصیبت مول نہیں لینا چاہتی۔ وہ سانپوں کے پٹارے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتی۔ سب کے لیے ایک جیسا قانون سینکڑوں معاملات میں بنا ہی ہوا ہے لیکن شادی بیاہ‘ ملکیت کا بٹوارہ‘ طلاق‘ ایک سے زیادہ شادیاں وغیرہ کچھ معاملے ایسے ہیں‘ جنہیں مذاہب سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ان میں اگر کوئی بھی سدھار آپ کریں گے تو آپ کے خلاف سارے مذاہب کے ٹھیکیدار ایک ہو جائیں گے اور ملک میں بغاوت پھیلا دیں گے۔ جب 1956ء میں ہندو کوڈ بل بنا تھا تو ہندتوا وادی اتحادوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اب جیسے ہی ایک جیسی سٹیزن شپ قانون کی بات ہوتی ہے‘ تو ہمارے ملک کے مسلم‘ پارسی‘ یہودی‘ سکھ اور عیسائی اعتراض کرنے لگتے ہیں۔ بھارتی لیڈروں کی روحانی اور اخلاقی سطح اتنی اونچی نہیں ہے کہ ان سبھی کی بھلائی کی باتوں کو وہ لوگوں کے گلے اتار سکیں‘ ورنہ وہ بھارت میں سبھی مذاہب کے لوگوں کو یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ نیا قانون ان کے مذہب کے بنیادی معاملات کو بالکل چوٹ نہیں پہنچائے گا۔ وہ ہندوئوں کو نکاح پڑھنے‘ مسلمانوں کو پھیرے لینے یا عیسائیوں اور یہودیوں کو وید پاٹھ کرنے کے لیے قطعاً مجبور نہیں کرے گا۔ انہیں شادی جس بھی رسم سے کرنی ہے‘ کریں۔ پانچ ہزار برس پرانی اپنی مذہبی رسم کو اپنانا ہے تو ضرور اپنائیں‘ لیکن سینکڑوں ہزاروں برس پرانے گھسے پٹے قوانین کو آنکھ موند کر ماننے کی کیا وجہ ہے؟ قانون تو انسانی ذات نے بنائے ہیں۔ وہ ملک اور دور کے مطابق بنتے ہیں‘ بدلتے ہیں۔ آج بھی دنیا کے آئین میں کتنی ترامیم ہوتی رہتی ہیں۔ آج ایک سے زیادہ شوہر اور ایک سے زیادہ بیویوں جیسی رسمیں‘ جہیز‘ تین طلاقیں‘ ملکیت پر صرف بیٹے کا حق‘ بچپن کی شادیاں‘ بیوہ شادی منع‘ ستی رسم‘ ماما بھانجی جیسی گئی بیتی غیر اخلاقی اور غیر رسمی رسومات کو ماننا ضروری کیوں ہے؟ ملک کے سماج سدھارکوں کو اپنے اپنے شعبے میں زبردست تحریک چلانی چاہیے اور ہندو کوڈ بل‘ مسلم نجی قانون اور کینن لاء جیسے مذہبی قوانین کی جگہ سارے ملک کے باشندوں کے لیے ایک جیسا قانون سرکار کو پیش کرنا چاہیے۔ اس برابری والے قانون پر ایک برس یا چھ ماہ تک کھلی بحث ہونی چاہیے اور پھر بھارتی پارلیمنٹ اسے سبھی کی رضا مندی سے پاس کرے۔ جو دیگر ممالک کے لیے مثال بن جائے‘ ایسی پہل بھارت کو کرنی چاہیے۔
تمہیں جان پیاری ہے یا پیسے پیارے ہیں؟
وفاقی سرکار کے ذریعے نافذ کیے گئے نئے ٹریفک قانون کو لے کر بھارت میں عجیب بحث چل پڑی ہے۔ اس قانون کو لانے کا کریڈٹ وفاقی وزیر نتن گڈکری کو جاتا ہے۔ مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے لیکن اسی پارٹی کی کچھ صوبائی سرکاروں نے اس قانون کو نافذ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ اس نئے قانون کے مطابق آمد و رفت کے قانون کی حکم عدولی کرنے والوں پر جرمانے کی رقم دس گنا کر دی گئی ہے۔ لائسنس کے بنا چالان‘ نشے میں چالان‘ ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ نہ لگانا‘ سگنل کی پروا نہ کرنا‘ گاڑی بہت تیز چلانا‘ ٹرکوں میں اوور لوڈنگ وغیرہ کے حوالے سے بنے قوانین کو نہ ماننے والوں کو دس ہزار روپے تک کا جرمانہ اور سزا کا بھی اصول اس نئے قانون میں ہے۔ اتنے سخت قوانین اسی لیے رکھے گئے ہیں کہ آمد و رفت کے قوانین کی جتنی زبردست خلاف ورزی بھارت میں ہوتی ہے‘ دنیا کے بہت کم ممالک میں ہوتی ہو گی۔ کروڑوں لوگ بنا لائسنس کار چلاتے ہیں۔ نشے میں دھت ہو کر اندھا دھند گاڑیاں دوڑاتے ہیں۔ ہر برس لاکھوں لوگ حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ اس سلسلے کو روکنے یا کم کرنے کے لیے گڈکری نے اتنا سخت قانون بنوایا ہے لیکن اس کا مقصد سرکاری خزانہ کو بھرنا نہیں ہے۔ بھارت کے لوگوں کو یہ طے کرنا ہے کہ انہیں اپنی جان پیاری ہے یا پیسے پیارے ہیں۔ اس نئے قانون کا گزشتہ دو ہفتوں میں زبردست اثر ہوا ہے۔ ٹریفک حادثوں کے تعداد کافی کم ہوئی ہے اور لائسنس بنوانے والوں کی تعداد تین سے چار گنا بڑھ گئی ہے۔ دہلی میں پندرہ ہزار کی جگہ 45 ہزار لوگ لائسنس دفتروں پر بھیڑ لگائے ہوئے ہیں۔ اب سڑک کے سگنلوں پر بھی کار ڈرائیور خاص دھیان دینے لگے ہیں۔ مالکوں نے اپنے ڈرائیوروں کو کہہ دیا ہے کہ سگنلوں کی خلاف ورزی کرو گے تو جرمانہ تم کو بھرنا پڑے گا۔ یہ ڈر اگر کچھ ماہ بھی بنا رہے تو ملک میں ٹریفک کی حالت میں بہت سدھار ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے بھارتی عوام گڈکری کا احسان مند رہے گا‘ لیکن یہ ہونا نہیں ہے‘ کیونکہ صوبوں کی کانگریسی سرکاروں نے ہی نہیں‘ کئی بھاجپا سرکاروں نے بھی اس نئے قانون کے خلاف خم ٹھوک لیے ہیں۔ ایسے میں گڈکری کیا کریں گے؟ وہ بھی صوبوں کو کہہ رہے ہیں کہ آپ کو جو کرنا ہے سو کریں۔ بیماری خطرناک ہے اور دوا کڑوی ہے۔ آپ کو پسند نہیں ہے تو آپ میٹھی گولی کھائیے اور مست رہیے۔