مودی سرکار کے پہلی بار آتے ہی بد عنوان افسروں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تھی لیکن پھر سرکار ڈھیلی پڑ گئی‘ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اب نئی سرکار آتے ہی اس نے بد عنوانوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کر دی ہے۔ اب لگ بھگ پچاس افسروں کو سرکار نے جبراً ریٹائر کر دیا ہے یا یوں کہیں تو بہتر ہو گا کہ انہیں دھکا مار کر نکال دیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تر وزارتِ خزانہ سے متعلق افسر ہیں۔ یہ افسر انکم ٹیکس‘ سیلز ٹیکس وغیرہ جیسے شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن مبارک کی حق دار ہیں کہ پیسوں کی مشکلات میں پھنسی سرکار کو سنبھالتے ہوئے بھی انہوں نے یہ جرأت والا کام کیا لیکن یہ کام اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ سرکار کے افسروں اور ملازمین کی تعداد لاکھوں میں ہو‘ لیکن ان میں سے صرف پچاس ہی پکڑے جائیں تو اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ سرکار میں بد عنوانی دانے بھر کی بھی نہیں ہے۔ لیکن اصلی معاملہ ایک دم الٹا ہے‘ یعنی ہزار میں سے پچاس ملازم بھی اگر صاف ہوں تو غنیمت ہے۔ پورے کنویں میں ہی بھانگ پڑی ہوئی ہے۔ سرکار کا کون سا شعبہ ہے‘ جس میں بد عنوانی نہیں ہے؟ افسر اور ملازم جس بے شرمی سے لوگوں سے رشوت مانگتے ہیں اور انہیں تنگ کرتے ہیں‘ اس کو بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کا بنیادی سبب ہے بھارتی لیڈروں کا بد عنوان ہونا۔ ملازموں کو پتا ہے کہ ان کے سیاسی سوامی موٹا پیسہ کھائے بنا زندہ نہیں رہ سکتے‘ اسی لیے ان کا چھوٹا موٹا پیسہ کھانا وہ برداشت کریں گے ہی‘ اسی لیے آزادی کے 72 برس بعد بھی بھارت میں بد عنوانی کی دھارا لگاتار بہتی چلی جا رہی ہے۔ بھارت میں گزشتہ پانچ برسوں میں سرکاری بد عنوانی کی لگ بھگ چھبیس ہزار شکایات درج ہوئی ہیں۔ یوں تو ان کی تعداد چھبیس لاکھ ہو سکتی تھی‘ لیکن شیر کے منہ میں کوئی ہاتھ کیوں ڈالے؟ سرکار کی جانب سے کچھ بد عنوان افسروں کے خلاف کی گئی کارروائی لائقِ تعریف ہے لیکن میرے خیال سے اس میں دو باتیں اور جوڑی جانی چاہئیں۔ پہلی بات یہ کہ ان افسروں نے کہاں کیا کیا بد عنوانی کی ہے؟ اسے افشا کیا جانا چاہیے۔ دوسرا‘ ان کی اور ان کے فیملی کی سبھی دولت کو ضبط کیا جانا چاہیے اور انہیں کوئی پینشن بھی نہیں ملنی چاہیے۔ ان کے ناموں کو تصویر کے ساتھ اخبارات اور ٹی چینلوں میں پیش کیا جانا چاہیے۔ جن افسروں کو زبردستی نوکری سے نکالا گیا ہے‘ ان میں ایک نے بھی چوں تک نہیں کی‘ کوئی عدالت میں نہیں گیا‘ کسی نے دھرنا نہیں دیا‘ یعنی انہوں نے خود اپنے بد عنوان ہونے پر مہر لگائی ہے۔ سرکار انہیں صحیح سلامت کیوں چھوڑ رہی ہے‘ یہ سمجھ میں نہیں آتا۔
پس‘ صرف مالا جپو!
اب سے پچاس برس پہلے گاندھی کے جس دن سو برس پورے ہوئے تھے (2 اکتوبر (1969 میں لندن میں تھا۔ اب بھی اسی سلسلے میں 11 اکتوبر کو لندن میں میرا پروگرام ہے۔ مجھے یاد ہے کہ لندن میں ہوئے عالمی جلسے میں اٹلی کے گاندھی کہے جانے والے دانیل دولچی جیسے کئی ممالک کے خاص دانشور اور سماجی خدمت گار آئے ہوئے تھے۔ میرے ہندی بھاشن کا انگریزی ترجمہ مشہور ادیب نرمل ورما نے کیا تھا۔ اب میں سوچتا ہوں‘ ان گزشتہ پچاس برسوں میں ہم نے گاندھی کا کیا کیا؟ ہم لوگوں نے‘ بھارت نے اور دنیا نے گاندھی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ گزشتہ پچاس برسوں میں ملک کے زیادہ تر شہروں اور دیہات میں اور دنیا کے تمام ملکوں میں گاندھی کے سٹیچو قائم ہو گئے ہیں‘ بھارت بھر میں گھروں اور دفاتر میں ان کی تصاویر لگ گئی ہیں۔ ان کے یومِ ولادت پر جشن اور چھٹیاں منائی جاتی ہیں لیکن وہ لوگ‘ وہ ملک اور وہ دنیا اب دشوار ہو چکی‘ جسے دیکھ کر گاندھی جی خوش ہو جاتے۔ گاندھی جی کے نام کی مالا وہ لوگ اور وہ اتحاد بھی جپنے لگے ہیں‘ جو پانی پی پی کر انہیں کوستے تھے۔ وہ کیا وجہ ہے‘ جس کے سبب لینن اور مائو تاریخ کی گوپھائوں (غاروں) میں گم ہوتے جا رہے ہیں اور گاندھی کی چمک بڑھتی جا رہی ہے؟ کارل مارکس کے مرید لینن اور مائو کا زور حالت بدلنے پر تھا جبکہ گاندھی کا زور دل کی کیفیت بدلنے پر تھا۔ مارکس اور لینن سماج اور ملک کو الٹنا چاہتے تھے اور گاندھی آدمی کو پلٹنا چاہتے تھے۔ ملک اور سماج کو تشدد کے ذریعے الٹنے کی پالیسی ناکام ہو گئی ہے لیکن عدم تشدد (اہنسا)‘ سچ اور محبت کے ذریعے آدمی کو‘ اس کے ذہن کو جگایا جا سکتا ہے۔ یہ اعتماد ہی گاندھی جی کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ پس زندہ ہی رکھے ہوئے ہے‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ دنیا میں کیا‘ بھارت میں بھی گاندھی کہاں دکھائی پڑتے ہیں؟ پتھروں کے بت میں‘ دیوار پر ٹنگی تصاویر میں‘ نوٹوں اور سکوں پر! ہم بھارتیوں کی زندگی میں گاندھی کہاں ہیں؟ کیا ہمارے سلوک کی بنیاد سچ اور عدم تشدد ہے؟ کیا ہم سبزی خوری‘ نشہ بندی‘ سدا سچ‘ فرمانبرداری‘ سادگی‘ سبھی مذاہب کے لیے دل میں پیار کا اپنی روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں؟ گاندھی دنیا کے عظیم انسانوں سے الگ اسی لیے ہیں کہ وہ دوسروں کو جو کہتے تھے‘ اسے پہلے خود پر لاگو کر کے دکھا دیتے تھے۔ اب نہ بھارت میں ایسا لیڈر ہے‘ نہ دنیا میں۔ کروڑوں لوگ کس کے نقش قدم پر چلیں؟ ہمارے بیچ جب کوئی کچھ کرنے والا ہی نہیں تو عمل کہاں سے ہو گا؟ پس‘ ہم صرف گاندھی کی مالا جپتے رہے ہیں۔
دلت کو آزادی دینے کا درست طریقہ
بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو ہی الٹ دیا ہے۔ مارچ 2018ء میں اس نے ایسا فیصلہ دیا تھا‘ جس کے سبب شیڈیول کاسٹ کو لاحق پریشانی سے متعلق قانون کو تھوڑا نرم کیا گیا تھا۔ اب اسے پھر سخت بنا دیا گیا ہے۔ بنیادی قانون یہ تھا کہ کوئی بھی آدمی کسی بھی شیڈیول کاسٹ پر ظلم کا الزام لگا کر اسے گرفتار کروا سکتا تھا۔ اس کی کوئی پہلے ضمانت نہیں ہو سکتی تھی۔ مقدمہ چلنے پر عدالت ہی اسے ضمانت دے سکتی تھی۔ اس قانون کے چلتے ہزاروں بے گناہ لوگوں کو جیل سہنا پڑتی تھی۔ گزشتہ تجربوں نے یہ سکھایا کہ جیسے کسی برس میں ایسے پندرہ ہزار معاملے عدالت میں آئے تو اس میں گیارہ سے بارہ ہزار فرضی ثابت ہوئے یعنی لوگوں نے ذاتی رنجش‘ حسد اور ٹھگی سے متاثر ہو کر اپنے کسی افسر‘ کسی پڑوسی یا کسی مالدار آدمی کے خلاف پولیس رپورٹ لکھوا دی تاکہ وہ جیل میں سڑتا رہے۔ اس بات پر دھیان دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے گزشتہ سال یہ انتظام کیا کہ اگر کسی کی شکایت آئے تو اس کی پولیس جانچ کیے بنا اس کے خلاف ایف آئی آر نہ لکھی جائے اور اگر شکایت کسی سرکاری افسر کے خلاف ہو تو اس افسر کو مقرر کرنے والے افسر کی اجازت کے بنا اس کے خلاف پولیس رپورٹ نہ لکھے۔ اس فیصلے کے آتے ہی شیڈیول کاسٹ کے لیڈروں نے ملک میں دھرنے دینے اور مظاہرے وغیرہ کرنے شروع کر دیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکار پریشان ہو گئی۔ اس نے گھٹنے ٹیک دیے اور پارلیمنٹ سے قانون کو پھر سے پہلے جیسا سخت بنوا دیا۔ اس کے باوجود اب بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے نئے فیصلے میں اسی قانون پر مہر لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون میں پھیر بدل کا کام ایوان کا ہے‘ عدالتوں کا نہیں۔ یہاں سوال یہی اٹھتا ہے کہ جب پارلیمنٹ نے اس قانون کو دوبارہ تھوپ دیا تھا تو اب بھارت کی اعلیٰ عدالت کو یہ صفائی پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ عدالت نے دلتوں کو ٹارچر سے بچانے کے لیے جو دلائل دیے‘ وہ بالکل لچر ہیں۔ ان میں کوئی دم نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس سخت اور اندھے قانون کے باوجود دلتوں پر ظلم برابر جاری ہے لیکن اونچی ذات والوں پر فرضی مقدمے چلانے اور زیادہ ظلم کرنے سے کیا سچ مچ دلت خدمت ہو سکے گی؟ ضروری یہ ہے کہ جتنے بھی دلت کام ہیں‘ ان کی قیمت اتنی ہی اونچی کر دی جائے‘ جتنی کہ دیگر کاموں کی ہوتی ہے تو ان کی عزت اپنے آپ بڑھ جائے گی۔ ان پر ظلم بند ہو جائے گا۔ اگر جسمانی محنت اور عقل کی محنت کا فاصلہ کم ہو جائے تو اونچی ذات کے لوگ بھی دلتوں کے کام خوشی خوشی کریں گے۔ اس سے ذات پات کا فرق بھی ختم ہو گا۔ ابھی جتنے بھی قانون ہیں‘ وہ سب ذات پات کو مضبوط بناتے ہیں۔ ذات پات کا رواج توڑے بنا بہتر سماج کیسے بنے گا؟