سوئٹزر لینڈ نے وہ ساری جانکاری بھارت سرکار کے حوالے کر دی ہے‘ جو بھارتیوں کے سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں کھولے گئے کھاتوں کے بارے میں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ سبھی کھاتے کالے دھن سے کھولے گئے ہوں گے یا دہشت گردوں کے یا ٹھگی کے مال کے ہوں گے‘ لیکن دوسرے ممالک میں کھلنے والے بھارتی شہریوں کے کھاتوں کے ذریعے اکثر بھاری ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔ اس طرح کے کھاتے سوئٹزر لینڈ کے علاوہ سنگا پور‘ ماریشیئس اور کیریبین علاقے کے چھوٹے موٹے بینکوں میں کھول دیے جاتے ہیں۔ بھارت کے لوگ اپنے کالے دھن کی حفاظت کے لیے بھارت کی شہریت تک چھوڑ دیتے ہیں اور ایسے ملکوں کی شہریت پیسہ دے کر خرید لیتے ہیں‘ جن کی حیثیت بھارت کی کسی جیل کے برابر بھی نہیں ہے۔ دوسرے ملکوں میں چھپایا گیا دھن صرف وہی نہیں ہوتا‘ جو باقاعدہ کمایا ہوا ہوتا ہے بلکہ وہ بھی ہوتا ہے‘ جو رشوت‘ بلیک میلنگ‘ دہشت گردی‘ ڈکیتی‘ چوری وغیرہ جیسے خراب کاموں سے جمع کیا جاتا ہے۔ ایسا مال جمع کرنے والوں میں کون شامل نہیں؟ صنعت کار اور تاجر تو ہیں ہی‘ بھارتی لیڈر ہیں‘ نوکر شاہ ہیں‘ دہشت گرد ہیں‘ ڈاکٹر ہیں‘ وکیل ہیں۔ بھارت سرکار نے جب سے سوئس سرکار سے ان لوگوں کے کھاتوں کی جانکاری کے لین دین کا معاہدہ کیا ہے‘ ان لوگوں نے جنیوا میں اپنے کھاتے بند کر دیے ہیں یا وہاں سے اپنا مال نکال کر کہیں اور چھپانا شروع کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ معاہدہ 2016ء میں ہوا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب سوئس بینک میں بھارتیوں کے کھاتوں میں صرف 6757 کروڑ روپے ہونے کا اندازہ ہے۔ یہ مال تو اصل مال کی نسبت سے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔ بھارت سرکار نے اگر یہ سارا مال ضبط کر لیا تو وہ کون سا قلعہ فتح کر لے گی؟ جو سرکار ریزرو بینک سے پونے دو لاکھ کروڑ روپے ادھار لے رہی ہے‘ اسے کالے دھن کی یہ دولت کتنا ٹیکا لگا سکے گی؟ کتنا سہارا دے سکے گی؟ نوٹ بندی کے وقت کتنا کالا دھن پکڑا گیا تھا؟ لوگوں نے سرکار کو پٹخنی مار دی یعنی تو ڈال ڈال تو میں پات پات۔ نوٹ بندی کے بعد کالا دھن بننے کی رفتار مزید تیز ہو گئی ہے۔ دو ہزار کے نوٹ اور نقلی نوٹوں نے نوٹ بندی کی کمر جھکا کر رکھ دی ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ بھارت سرکار انکم ٹیکس کو ہی ختم کر دے اور صرف خرچ پر ٹیکس لگائے۔ اگر خرچے پر ٹیکس لگے گا تو بچت بڑھے گی اور انکم پر ٹیکس نہیں لگے گی تو ٹیکس چوری نہیں ہو گی۔ کیا بھارت سرکار اتنا انقلابی قدم اٹھا سکتی ہے؟ لیکن ایسا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے سرکار کو جی حضوری کرنے والوں اور مخالفین‘ دونوں سے جم کر بات کرنی چاہیے۔ اگر بھارت سرکار ایسی ہمت کرے گی اور اسے کامیابی ملے گی تو مجھے امید ہے کہ ہمارے بعض پڑوسی ملک بھی خوشی خوشی ویسا ہی کرنا چاہیں گے۔
کشمیر کی صورتحال اور پاکستانی عوام
مجھے خوشی ہے کہ جموں و کشمیر میں جوں جوں ٹھنڈ بڑھ رہی ہے‘ برف پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ مجھے امید تھی کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاک بھارت دنگل کے بعد کشمیر کے حالات سدھریں گے‘ اب وہی ہو رہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ سے ان کی پارٹی کے کئی لیڈروں کی ملاقات ہوئی۔ فاروق عبداللہ کافی خوش نظر آئے۔ اب دیگر کشمیری لیڈروں سے بھی ان کی پارٹی کے کارکنوں کی ملاقاتوں کے راستے کھلتے جا رہے ہیں۔ ملاقات کرنے والے پارٹی لیڈروں نے یہ نہیں بتایا کہ کشمیر کو مکمل طور پر بھارت میں ملائے جانے پر ان کا کیا رد عمل تھا۔ وہ آرٹیکل 370 اور 35A کے بارے میں خاموشی اختیار کیے رہے لیکن انہوں نے یہ واضح طور پر کہہ دیا کہ اگر ان کے لیڈروں کو رہا نہیں کیا جائے گا‘ تو وہ اکتوبر میں چھوٹے چنائووں میں حصہ نہیں لیں گے؟ اگر مخصوص کشمیری پارٹیاں مقامی چنائووں کا بائیکاٹ کریں گی تو کشمیر میں نئی لیڈرشپ ابھرے گی۔ بھارت کی وفاقی سرکار شاید اس بات کو پسند کرے گی لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیر کے یہ خاص لیڈر صاحبان علیحدگی پسندوں سے اپنی نزدیکیاں بڑھا لیں۔ ایسے میں گورنر ستیہ پال ملک اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو اپنے فیصلے کافی دور اندیشی کی بنیاد پر کرنے ہوں گے۔ اس وقت کشمیر سے جو تازہ خبریں آ رہی ہیں‘ ان سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حالات آہستہ آہستہ معمول کی جانب جا رہے ہیں؛ تاہم ادھر پاکستان میں کشمیر کو لے کر لوگوں کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ وہ کشمیری عوام کی پریشانیوں اور مسائل سے پوری طرح آگاہ ہیں اور ان کا خیال ہے کہ حالات اس حد تک نارمل ہوئے کہ کشمیری عوام آزادی کے ساتھ زندگی کی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ کرفیو مکمل طور پر ختم ہو گا تو ہی مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات کسی قدر اطمینان بخش ہو سکیں گے۔
بھارتی لیڈروں کی بدعنوانی کیسے روکی جائے؟
بھارت کے نامی گرامی لیڈر آج کل جیل کی ہوا کھا رہے ہیں یا ضمانت پر ہیں یا ای ڈی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ کس کس کے نام گنوائوں؟ یہ لوگ کون ہیں؟ یہ سب اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر ہیں۔ ان پر بد عنوانی کے الزامات ہیں۔ کسی پر پچیس ہزار کروڑ روپے کے گھپلے کا۔ کسی پر اربوں روپیہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں چھپا کر رکھنے کا۔ کسی پر ٹرسٹوں کا کروڑوں کا دھن ہضم کر جانے کا اور کسی پر اربوں روپے کی زمینیں ٹھکانے لگانے کا الزام ہے۔ یہ الزام جب ثابت ہوں گے‘ تب ہوں گی لیکن ان لیڈروں کی بدنامی تو فوراً شروع ہو جاتی ہے‘ جن پر الزام عاید کیا جاتا ہے۔ اس سے بڑا ایک سچ آج کل سامنے آ گیا ہے۔ بھارتی جیلوں میں بیٹھے ہوئے لیڈروں کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ وہ وہاں ٹھاٹھ باٹ سے رہ رہے ہیں‘ سرکاری خرچے پر۔ وہ جیل میں بیٹھے بیٹھے بیان جاری کر رہے ہیں اور ان سے ملنے سابق وزیر اعظم اور پارٹی صدر بھی جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ نہیں کہ اگر کوئی لیڈر بد عنوانی کرے تو وہ بد عنوانی نہیںکہلائے گی۔ وہ بد عنوانی نہیں‘ اخلاق بن گیا ہے۔ آج کی جمہوریت والی بھارتی سیاست بد عنوانی کے بنا ہو ہی نہیں سکتی۔ ووٹوں کی سیاست نوٹوں کے بنا کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا بھارت میں ایک بھی لیڈر ایسا ہے‘ جس نے ووٹوں کی سیاست ووٹوں کے بغیر کی ہو؟ جس نے کبھی کوئی چنائو لڑا ہے‘ وہ یہ کہنے کی ہمت کیسے کرے گا کہ وہ ہمیشہ درست کام ہی کرتا رہا ہے؟ بھارت میں غیر اخلاقی اور غیر آئینی کارنامے کیے بنا پارٹی کی سیاست کرنا نا ممکن ہے۔ آج اقتدار میں بیٹھی ہوئی پارٹی اپنی اپوزیشن کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پھنسا رہی ہے اور کل انہیں‘ جب وہ اپوزیشن میں تھے‘ تو اسی طرح پھنسایا جا رہا تھا۔ آج چدم برم جیل میں ہیں تو کل امیت شاہ تھے۔ دودھ کا دھلا کوئی نہیں ہے۔ آچاریہ کوٹلیہ نے ڈھائی ہزار برس جو پہلے کہا تھا‘ وہ آج بھی حقیقت ہے یعنی مچھلی پانی میں رہے اور پانی نہ پیئے‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مودی سرکار اگر بد عنوان لیڈروں کو سزا دینے پر تلی ہوئی ہے تو میں اس کا دل سے خیر مقدم کرتا ہوں لیکن کیا بھاجپا میں سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟ یہ اچھا کام اپنے ہی گھر سے شروع کیوں نہیں کیا گیا؟ الٹے‘ دیگر پارٹیوں کے بد عنوان لیڈر اپنی کھال بچانے کیے بھاجپا میں گھستے چلے جا رہے ہیں۔ مودی چاہیں تو ملک کی سبھی پارٹیوں کے لیڈروں کو جیل میں ڈالنے کی بجائے انہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنی ساری دولت‘ جو آپ نے غیر قانونی طریقوں سے اکٹھی کر رکھی ہے‘ سرکار کو لوٹا دیں تو آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔ آپ کو معاف کر دیا جائے گا۔ اسے وہ بھاجپا سے ہی شروع کریں تو زیادہ کامیابی ملے گی۔ شاید دوسرے بھی اپنے آپ متاثر ہو جائیں۔ بھارتی سیاست میں چلی ہوئی بد عنوانی پر کارروائی کے کئی اور بھی طریقے ہیں لیکن ان پر پھر کبھی بات کریں گے۔