بھارت میں چنائو جیتنے کے لیے سیاسی پارٹیاں کیا کیا ہتھکنڈے اختیار نہیں کرتیں۔ ہریانہ کے چنائو میں کانگریس اور بھاجپا نے جو مینی فیسٹو جاری کیے ہیں‘ اگر انہیں ایک ہی نام دینا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہریانہ کی پارٹیوں نے اپنے اپنے رشوت فیسٹو جاری کر دیے ہیں۔ یوں تو ہر چنائو میں قریب قریب سبھی پارٹیاں اپنے ووٹ پٹانے کے لیے ووٹروں کو کچھ نہ کچھ سبز باغ دکھاتی ہی ہیں لیکن ہریانہ کے لوگ زیادہ لاگ لپیٹ نہیں کرتے ہیں‘ سیدھی بات کرتے ہیں۔ انہیں جو بھی کرنا ہو‘ یا کہنا ہو دوٹوک کر دیتے ہیں۔ تو آئیے ذرا دیکھیں کہ کانگریس پارٹی نے ہریانہ کے عوام کے سامنے کون کون سے رس گلے پروسے ہیں۔ اس نے برسرِ اقتدار ہونے کے چوبیس گھنٹے کے اندر ہی کسانوں کا قرض معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پارٹی ہر کسان کو اس کے فصل کے نقصان پر ہرجانے کے طور پر بارہ ہزار روپے دے گی۔ سرکاری نوکریوں میں خواتین کو 33 فیصد ریزرویشن ملے گا‘ اور ہریانہ کی بسوں میں ان کے سفر کا کرایہ نہیں لیا جائے گا۔ بے روزگار شاگردوں (طالب علموں) کو بطور وظیفہ کانگریس سرکار ہر ماہ سات ہزار روپے دے گی‘ اور ایم اے پاس کو دس ہزار روپے ہر ماہ دے گی۔ دلت طالب علم کو بارہ ہزار اور پندرہ ہزار ہر برس کا وظیفہ ملے گا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ غیر سرکاری اداروں کے لیے یہ لازمی ہو گا کہ وہ اپنے یہاں ہریانہ کے نوجوانوں کو 75 فیصد نوکریاں دیں۔ ظاہر ہے کہ ان سب خیراتوں کو بانٹنے سے پہلے لیڈروں نے یہ حساب نہیں لگایا ہو گا کہ اتنا پیسہ آئے گا کہاں سے؟ بھاجپا بھی پیچھے کیوں رہتی؟ اس نے بھی دلتوں اور کسانوں کے لیے تین لاکھ روپے کا قرض بنا کسی گروی یا ضمانت کے دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ کسانوں کی بہتری کے لیے اس نے ایک ہزار کروڑ روپے رکھے ہیں۔ پچیس لاکھ نوجوانوں کے روزگار‘ تربیت پر پانچ سو کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ کانگریس نے نجی علاقوں (اداروں) میں ہریانہ کے 75 فیصد جوانوں کو روزگار دینے کی بات کہی تو بھاجپا نے اسے 95 فیصد کر دیا۔ بوڑھوں کو تین ہزار پینشن کے ساتھ ساتھ پینشنرز کو ہر ماہ مہنگائی بھتہ دینے کا اعلان ہوا ہے۔ 2000 ہسپتال کھولنے‘ گرلز کی مفت تعلیم‘ خواتین کے مفت بس سفر کا اعلان بھی ہوا ہے۔ ان مینی فیسٹوز کو دیکھ اور پڑھ کر کیا یہ محسوس نہیں ہوتا کہ دونوں پارٹیوں نے ووٹروں کے لیے پھسل پٹیاں بچھا دی ہیں۔ ان پارٹیوں نے باقی سب ترغیبات دیں‘ لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ ہریانہ سے غریبی‘ گندگی‘ جہالت‘ بے روزگاری‘ بیماری وغیرہ کیسے دور کریں گی؟
ساورکر کو بھارت رتن؟
مہاراشٹر کے چنائووں میں بھی وہی ہو رہا ہے‘ جو ہریانہ کے چنائووں کے حوالے سے جاری ہے۔ ووٹروں کو پٹانے کے لیے کانگریس‘ بھاجپا اور شیو سینا طرح طرح کے رس گلے اچھال رہی ہیں۔ یہاں ان کی گنتی گننا بے فائدہ ثابت ہو گا۔ اس مینی فیسٹو میں جس مدعے پر بحث چھڑ گئی ہے‘ وہ ہے‘ ساورکر کو بھارت رتن دلوانے کا مدعا۔ بھاجپا اور کانگریس میں اس مدعا پر تکرار شروع ہو گئی ہے۔ میری رائے ہے کہ کانگریس اور بھاجپا‘ دونوں کے ہی لیڈر ہوا میں لٹھ اچھال رہے ہیں۔ بے مقصد‘ بے فائدہ‘ بے نتیجہ۔ زیرو میں بات کر رہے ہیں۔ انہیں ساورکر کی زندگی اور نظریے کے بارے میں کوئی خاص جانکاری نہیں ہے۔ اس ایشو پر میں نے اپنی کتاب بھاجپا‘ ہندتوا اور مسلمان میں کافی تحقیقی ذکر کیا ہے‘ لیکن اس وقت میں یہاں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ساورکر کے لیے بھارت رتن ایک کاغذ کے ٹکڑے کے سوا کیا ہے؟ بھارت سرکار کا یہ اعلیٰ اعزاز ایسے ایسے زندہ اور آنجہانی لوگوں کو دیا جا چکا ہے‘ جو کسی بھی طرح ساورکر کے ماشہ برابر بھی نہیں ہیں۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے تو خود کو ہی یہ اعزاز دے دیا تھا۔ یہ اعزاز کون دیتا ہے؟ اس کا مستند ہونا کیا اہمیت رکھتا ہے؟ اس اعزاز کی قیمت کیا ہے؟ اس کے علاوہ بھارت میں اس طرح کے سرکاری اعزازات پانے کے لیے جو ناک رگڑائی‘ تلوے چاٹنا اور دلالی کرنی پڑتی ہے‘ کیا یہ کوئی غیرت مند آدمی کر سکتا ہے؟ جتنے لوگوں کو آج تک یہ اعزاز یا انعام یا ڈگریاں ملی ہیں‘ ان میں سے کتنوں کے نام لوگوں کو یاد ہیں؟ کیا ان ہستیوں کو لوگ بھول گئے ہیں‘ جنہیں کوئی سرکار ی اعزاز نہیں ملا‘ لیکن جنہوں نے ملک کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ ساورکر اور ساوتری بائی پھلے کو بھارت رتن دینے کا عزم بھاجپا کو مہاراشٹر میں ووٹ دلانے میں مدد دے گا‘ لیکن یہ عزم چنائو کے وقت ہی کیوں کیا جا رہا ہے؟ گزشتہ پانچ برس آپ نے کیا کیا؟ انعامات اور اعزازات کے مایا جال میں پھنسنے کی بجائے بہتر یہ ہو گا کہ ساورکر کے جو بھی نظریات آج بہتر اور لائق استعمال ہوں‘ انہیں پیش کرنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
بھارت میں بسنے والی اقلیتیں
لندن میں بیٹھے بیٹھے میں نے جیسے ہی بھارتی ٹی وی چینل کھولے‘ دیکھا کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے بیانات کو کافی سرخیاں مل رہی ہیں۔ مودی نے کہا کہ اپوزیشن میں دم ہے تو وہ آرٹیکل 370 اور 35A کی واپسی کا وعدہ کرے۔ ظاہر ہے کہ پانچ اگست کو ہوئے کشمیر کے بھارت میں مکمل طور ملنے کی مخالفت کر کے کانگریس نے اس حوالے سے اپنی سوچ واضح کر دی ہے۔ لیکن موہن بھاگوت کا بیان اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے۔ اس کی کچھ مسلم لیڈر ڈٹ کر مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ بھاگوت نے کہا کہ مسلمان یعنی اقلیت والے بھارت میں جتنے خوش ہیں‘ اتنے دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ یہ بات درست نہیں۔ اس کی کچھ حدود بھی ہیں۔ میں دنیا کے تقریباً ستر سے اسی ملکوں میں گیا ہوں‘ ان میں رہا ہوں‘ ان میں پڑھا ہوں اور پڑھاتا رہا ہوں۔ ان ملکوں کے اقلیت والوں سے میرا نزدیکی تعلقات بھی قائم ہوتا رہا ہے۔ عالمی سیاست کا تحقیقی طالب علم ہونے کے ناتے ان کے بارے میں پڑھتا اور لکھتا بھی رہا ہوں۔ وہ چاہے عیسائی ملک ہوں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے ممالک ہوں‘ وہ چاہے مال دار ملک ہوں یا غریب ملک ہوں‘ ان میں رہنے والے اقلیتی لوگ اکثر ڈرے ہوئے‘ کمزور‘ غریب اور مظلوم ہی دکھائی پڑتے رہے ہیں‘ جیسے کمیونسٹ روس میں وسطی ایشیا کے پانچوں مسلم ملک‘ امریکہ میں نیگرو لوگ‘ یورپی ملکوں میں ایشیائی باشندے‘ نیپال‘ سری لنکا اور برما کے مسلمان‘ عیسائی اور ہندو وغیرہ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت کے مسلمانوں میں تعلیم کی کمی اور غربت ہے‘ لیکن اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارت کی چھوٹی ذات والے اور غریب طبقوں کے لوگ ہی زیادہ تر مسلمان بنے ہیں۔ ہندوئوں کے دلتوں اور محروموں میں مسلمانوں سے بھی زیادہ محرومیت‘ غریبی اور جہالت ہے۔ اصلی سوال یہ ہے کہ بھارت کی اقلیتوں کو ہر شعبے میں چوٹی تک پہنچنے کے مواقع ہیں یا نہیں؟ مواقع ہیں لیکن وہ آج کل اپنے آپ کو غیر محفوظ بھی سمجھ رہے ہیں‘ یہ بھی سچائی ہے۔ غیر محفوظ ہونے کا سبب نہ تو سرکار ہے اور نہ ہی سماج ہے بلکہ وہ سر پھرے لوگ ہیں‘ جو اپنے آپ کو گائے کا نگہبان کہتے ہیں لیکن وہ خود آدم خور ہیں۔ گائے کی حفاظت کے نام پر وہ مسلمانوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ان کی مذمت مودی‘ بھاجپا‘ کانگریس‘ سماج وادی‘ کمیونسٹ‘ آر ایس ایس سب نے ایک ہی آواز میں کی ہے‘ بھارت کے مسلمانوں کو میں نے دبئی کے اپنے ایک بھاشن میں 'دنیا کے سب سے اعلیٰ مسلمان‘ کہہ دیا تھا‘ کیونکہ ہزاروں سالوں کی تہذیب ان کی نس نس میں دوڑ رہی ہے۔ کئی عرب شیخ میری بات سن کر حیران ہو جاتے ہیں۔ جنہیں میں بھارتی تہذیب کہتا ہوں‘ انہیں ہی موہن بھاگوت ہندو تہذیب کہتے ہیں۔