"DVP" (space) message & send to 7575

بھاجپا کو بریک لگ گئی!

پہلے میرا خیال تھا کہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے چنائووں میں اگر بھاجپا نے اکثریت حاصل کر لی اور اسے بالترتیب 75 اور 240 نشستیں مل گئیں تو وہاں بھاجپا سرکاریں ایسی ہو جائیں گی جیسے بنا بریک کے گاڑی ہو جاتی ہے‘ بلکہ جب الیکشن کے ابتدائی نتائج سامنے آئے تو میں نے اپنے ایک تجزیے میں یہ لکھا بھی تھا کہ دونوں صوبوں میں کانگریس کا صفایا ہوتا نظر آتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں بری طرح سے پٹخنی کھا رہی ہیں اور یہ کہ ہریانہ کی 90 سیٹوں میں سے بھاجپا کو 70 کے لگ بھگ اور مہاراشٹر کی 288 سیٹوں میں سے شیو سینا اور بھاجپا اتحاد کو 200 سے 244 تک نشستیں ملنے کے امکانات بتائے جا رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر یہ پیش گوئی درست ثابت ہو گئی تو ماننا پڑے گا کہ بھاجپا کودونوں صوبوں میں غیر معمولی کامیابی مل رہی ہے۔ پھر میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کے باوجود کیوں ہے کہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں‘ تجارت‘ بزنس وغیرہ چوپٹ ہوتے جا رہے ہیں‘ بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں‘ بیرونی تجارت کا نقصان بڑھ رہا ہے‘ سرکار چارواک پالیسی پر چل رہی ہے‘ یعنی قرض لے رہی ہے اور گھی پی رہی ہے اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے معیشت کو لنگڑا کر دیا ہے؟ میں نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ بھارت کے حزبِ اختلاف کو لقوہ مار گیا ہے۔ عوام کے دکھ درد کو زوردار ڈھنگ سے بلند کرنے کی بجائے وہ سرکار اور بھاجپا کی شکایت ایسے مدعوں پر کرتی ہے‘ جو اسے ٹاٹ پٹی پر بٹھا دیتے ہیں۔ یہ سارے مدعا جذبات سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ چاہے بالا کوٹ کے ہوں‘ کشمیر کا ہو‘ ساورکر کا ہو یا فرضی سرجیکل سٹرائیک کا ہو۔ کانگریس پارٹی کا حال تو میں نے یہ بیان کیا تھا کہ لگ بھگ ہر صوبے میں اس کے لیڈر اس کو چھوڑ کر بھاجپا میں شامل ہو رہے ہیں۔ ملک کی تقریباً سبھی پارٹیاں صوبائی پارٹیاں لگتی ہیں۔ ان میں ایک بھی لیڈر ایسا نہیںجو سارے ملک کے عوام کی آواز بن سکے۔ ہر اپوزیشن لیڈر ڈرا ہوا ہے کہ اس کا حال کہیں چدم برم جیسا نہ ہو جائے۔ عوام کے دل کا حال کیا ہے؟ وہ مجبور ہیں۔ ان کے سامنے کوئی آپشن نہیں ہے۔ ان کا جوش ٹھنڈا پڑتا جا رہا ہے۔ اس کا ثبوت ہے دونوں صوبوں میں گرتا ہو ا پرسنٹیج! لیکن دونوں صوبوں کے عوام نے میرا یہ تجزیہ غلط ثابت کر دیا۔ انہوں نے بھاجپا کی گاڑی کو بریک لگا دی ہے۔ دونوں صوبوں میں بھاجپا نے سیٹیں کھوئی ہیں۔ ہریانہ میں تو اس کو عام اکثریت بھی نہیں ملی اور اس بار شیو سینا کے ساتھ اتحاد کرنے کے باوجود اس کی نشستیں کافی کم ہو گئی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مہاراشٹر میں سرکار بننے لائق سیٹیں بھاجپا اور اتحادیوں کو مل گئی ہیں۔ ہریانہ میں بھی جوڑ توڑ کر کے اس کے لیے سرکار بنانا مشکل نہیں ہو گا۔ گووا‘ کرناٹک اور ہماچل کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں‘ لیکن ایسی سرکاریں عوام کی کتنی کی خدمت کر پائیں گی‘ عوامی بھلائی کے کتنے کام اس کے لیے ممکن ہوں گے؟ اس کا اندازہ ہم سب لگا سکتے ہیں۔ ایسی سرکاروں کے سر پر تلوار سدا لٹکتی رہتی ہے۔ مہاراشٹر میں بھاجپا کے مقابلے میں شیو سینا کو کافی کامیابی ملی ہے۔ اس کی قیمت وہ ضرور وصولے گی۔ وہ تو اپنا وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی تھی‘ لیکن شاید وہ نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ لے کر چپ ہو جائے‘تاہم یہ طے ہے کہ ان میں تنازع ہمیشہ بنا رہے گا۔ اسی آپسی کہا سنی کا خراب انجام ان دونوں پارٹیوں کو مہاراشٹر کے عوام نے بھگتا دیا ہے۔ دونوں صوبوں کے عوام سے ایگزٹ پول والوں نے جو امیدیں رکھی تھیں‘ وہ بالکل غلط ثابت ہوئی ہیں اور یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی ہے کہ ہمارے عوام بھاجپا کو سر پر بٹھانے کے لیے مجبور ہیں۔ دونوں صوبوں کے عوام نے دکھا دیا ہے کہ وہ مجبور نہیں ہیں۔ انہوں نے بھاجپا کے کان مسل دیے ہیں۔ ان پر بھاجپا اور کانگریس کے مرکز کا اثر بالکل بھی نہیں دکھا۔ اگر وہ دِکھتا تو کانگریس کا مکمل طور پر صفایا ہو جاتا اور دونوں صوبوں میں بھاجپا کو غیر معمولی فتح ملتی۔ مودی نے چنائو کے ایک دن پہلے پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کا دائو مارا تھا‘ لیکن وہ بیکار ہو گیا کیونکہ سچ سامنے آ گیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس طرح راہول گاندھی کا جو حال پہلے تھا‘ وہ بعد میں بھی جاری رہا۔ دوسرے الفاظ میں مہاراشٹر اور ہریانہ کے چنائو صوبائی قیادت اور صوبائی مدعوں پر ہی ہوا ہے۔ ہریانہ میں نسل پرستی کی دستک بھی زوردار رہی۔ اب دلی کے چنائو سر پر ہیں۔ پتا نہیں‘ بھاجپا اور کانگریس کا حشر یہاں کیا ہو گا۔ وفاقی سرکار کے لیے اب مشکلات سے بھرپور دور شروع ہو گیا ہے۔ امید ہے‘ اب وہ کچھ سبق لے گی۔ 
کینیڈا میں سکھوں کا بول بالا 
اس وقت بھارتی نژاد لوگ پوری دنیا میں مقیم ہیں‘لیکن کسی گورے یا مغربی ملک میں بھارتیوں کا ایسا بول بالا کبھی قائم نہیں ہوا ہے ‘ جیسا آجکل کینیڈا میں ہو رہا ہے ۔کینیڈا میں بھارتیوں کی ایک پارٹی نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے تعاون کے بنا وزیر اعظم جسٹن ترودو اپنی نئی سرکار چلا ہی نہیں سکتے ۔اس کینیڈا کے ایوان میں 18 ایم پی سکھ چنے گئے ہیں‘ جبکہ بھارت کی پارلیمنٹ میں 13 سکھ ہی ہیں ۔ کینیڈا میں سکھوں کا بول بالا ہو گیا ہے ۔این ڈی پی پارٹی کے لیڈر جگمیت سنگھ ہیں ۔اس کی پارٹی کا صرف ایک ہی ایم پی سکھ ہے ۔ لیکن ٹروڈو کی لبرل پارٹی کے تیرہ ایم پی سکھ ہیں اور کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی چار سکھ ہیں ‘ جبکہ کینیڈا میں سکھوں کی تعداد صرف دو فیصد ہے۔اس کا مطلب کیا ہوا ؟کیا یہ نہیں کہ ہمارے سکھ دوستوں نے کینیڈا میں جاکر اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی ہے۔ان میں سے کچھ فیملیز کے لوگ پاکستان سے بھی وہاں گئے ہیں ۔بھارت اور پاکستان ‘دونوں کو اپنے ان لوگوں پر فخر ہونا چاہیے ۔اب بھارتیوں کی اہمیت کینیڈا کی سرکار میں اس لیے بڑھ جائے گی کہ ٹروڈوکی پارٹی کی اکثریت کے لیے 13 ایم پی کی ضرورت ہوگی ۔اس ضرورت کو جگمیت کی پارٹی این ڈی پی پورا کرے گی ۔یہ پتا نہیں کہ یہ پارٹی سرکار میں شامل ہو گی یا نہیں‘ لیکن یہ طے ہے کہ اس کے تعاون کے بنا ٹروڈو سرکار اپنے ایوان سے کوئی بھی قانون پاس نہیں کرا سکے گی ۔ٹروڈو کی لبرل پارٹی کو 338 سیٹوں میں صرف 157نشستیں ہی ملی ہیں‘ جبکہ اسے 170 سیٹیں چاہئیں ۔اس کی بیس سیٹیں کم ہوئی ہیں ۔اسی طرح این ڈی پی کی بھی 44 کی جگہ 24 رہ گئی ہیں ۔اب دونوں یہ ہلکی ہوئی پارٹیاں آپس میں ملنے پر کنزرویٹو پارٹی پر بھاری پڑ جائیں گی ۔اسے ایک سو اکیس سیٹیں ملی ہیں۔خود جگمیت سنگھ نے اپنے آپ کو عہدہ وزیر اعظم اعلان کیا ہوا تھا‘ لیکن ٹروڈو اور جگمیت دونوں کو اب سوچنا ہوگا کہ اس نئے پیریڈ میں ان کی سرکار ہر دلعزیز کیسے بنے ؟کینیڈا کے عوام نے بڑی تعداد میں سکھوں کو چن کر ایوان میں بھیجا ‘ لیکن انہیں ٹروڈو فیملی کا دورۂ بھارت پسند نہیں آیا تھا۔ ٹروڈو کی بیوی کی بھارتی پوشاک اور مندروں کے دئوروں نے گورے کینیڈینز کو بھڑکا دیا تھا ۔اس طرح ٹروڈو نے کالے مکھوٹے لگائے تھے ‘ اپنی فراخ دلی جتانے کے لیے ۔اس کا اچھا اثر نہیں پڑا ۔اس کے علاوہ ایس این سے لولین معاملے کی بدعنوانی بھی ٹروڈو کو پریشانی میں ڈال دیا تھا ۔امید ہے کہ 47 برس کے ٹروڈو اپنے پہلے ٹائم کے کڑوے تجربات سے سبق سیکھیں گے اور اس بار بہتر سرکار چلائیںگے ۔
پہلے میرا خیال تھا کہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے چنائووں میں اگر بھاجپا نے اکثریت حاصل کر لی اور اسے بالترتیب 75 اور 240 نشستیں مل گئیں تو وہاں بھاجپا سرکاریں ایسی ہو جائیں گی‘ جیسے بنا بریک کے گاڑی ہو جاتی ہے‘ بلکہ جب الیکشن کے ابتدائی نتائج سامنے آئے تو میں نے اپنے ایک تجزیے میں یہ لکھا بھی تھا کہ دونوں صوبوں میں کانگریس کا صفایا ہوتا نظر آتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں