"DVP" (space) message & send to 7575

شیو سینا کی بچگانہ ضد

مہاراشٹر میں بھاجپا اور شیو سینا کے بیچ جو کھیل چل رہا ہے‘ اس کے معنی کیا ہیں؟ کیا یہ نہیں کہ بھارت کی سیاسی پارٹیوں کو کسی اصول‘ پالیسی یا نظریے سے بھی کہیں زیادہ کشش اقتدار میں محسوس ہوتی ہے۔ وہ کرسی پانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ شیو سینا کی سودے بازی سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ وہ اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے شرد پوار کی پارٹی یا سونیا گاندھی کی پارٹی‘ کانگریس سے بھی ہاتھ ملا سکتی ہے۔ یہ وہ پارٹیاں ہیں‘ جنہیں کوستے کوستے شیو سینا کا گلا سوکھتا رہا ہے۔ اس کے ترجمان نے کہا ہے کہ شیو سینا کی سرکار کو 175 ایم ایل ایز کی حمایت ملے گی۔ بھاجپا کو روکنے کے لیے این سی پی‘ کانگریس اور شیو سینا کو اپنے کندھے پر ضرور بٹھا سکتی ہے لیکن انہیں وہ کب اور کتنی گہرائی میں پٹخ مارے گی‘ اس کا اندازہ شیو سینا کے مدہوش لیڈر اب تک نہیں کر پا رہے ہیں۔ شیو سینا نے اپنے برابر کی سوچ والی پارٹی کے ساتھ گزشتہ پانچ برس کیسے کاٹے‘ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں‘ سب پر واضح ہے۔ اب اگر کانگریس اور این سی پی کے ساتھ اس نے سرکار بنا لی تو یہ بغیر تال میل والا اتحاد جلد ہی پٹخنی کھا جائے گا‘ اور وہ ان تینوں پارٹیوں کا بھٹہ بھی بٹھا دے گا۔ شیو سینا کی تو جڑیں بھی اکھڑ سکتی ہیں۔ اس وقت اگر بھاجپا اقتدار کا عشق چھوڑ دے اور ان کو آپس میں ضم ہونے دے تو وہ بہت جلد ہی اکثریت کی صورت میں واپس اقتدار میں لوٹ سکتی ہے۔ جو امکان میں ظاہر کر رہا ہوں‘ اسے شیو سینا نہیں سمجھتی‘ ایسا بھی نہیں ہے۔ اگر بھاجپا اپنی ٹیک (موقف) پر ڈٹی رہے تو شیو سینا شاید حقیقت کو سمجھ لے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھاجپا کے صدر امیت شاہ نے چنائو سے پہلے جلد بازی میں شیو سینا کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے بٹوارے کی بات کہہ دی ہو گی لیکن شیو سینا کو اگر بھاجپا کے برابر یا اس سے زیادہ سیٹیں مل جاتیں تو بھی کوئی بات تھی؛ تاہم اس وقت وہ جو کچھ کر رہی ہے‘ وہ بچگانہ ضد کے علاوہ کچھ نہیں۔ 
اپوزیشن کو نوٹنکی بھی نہیں آتی! 
بھارت کے کئی سیاسی تجزیہ نگاروں نے یہاں بھارت میں کانگریس پارٹی کے مستقبل پر روشنی ڈالی ہے۔ اسے روشنی کہوں یا اندھیرا! ان کا کہنا ہے: اگر سونیا گاندھی اور راہول لیڈر بنے رہے تو کانگریس کا خاتمہ طے ہے۔ ان دونوں کو اور کانگریس کو ایک دوسرے سے اپنا پنڈ چھڑانا چاہیے۔ کھلے چنائو کروا کر کسی بھی دوسرے دم دار لیڈر کو کمان سونپ دینی چاہیے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کے چنائووں سے یہی پیغام ابھرا ہے۔ اگر اوپری (سطحی) طور پر دیکھیں تو تجزیہ نگاروں کی یہ بات بہتر معلوم پڑتی ہے لیکن کیا سچ مچ یہ ممکن ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ کانگریس میں برابری کے درجنوں صوبائی لیڈر ہیں۔ لگ بھگ آدھا درجن تو وزرائے اعلیٰ ہی ہیں۔ اگر سونیا اور راہول ہٹنے کا عزم کر لیں تو وہ سب آپس میں لڑ مریں گے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ان کی حیثیت گھریلو نوکروں جیسی ہے۔ اس حیثیت کو سب پیار سے قبول کرتے ہیں۔ اب انہی میں سے کسی ایک کو مالک کا رتبہ دینے کو کون تیار ہو گا؟ بد قسمتی یہ ہے کہ دیگر پارٹیاں بھی کانگریس کی کاربن کاپیاں بنتی جا رہی ہیں۔ اگر کانگریس ماں بیٹا کمپنی ہے تو ہمارے پاس اس سے بھی بڑی بھائی بھائی پارٹی ہے۔ صوبوں میں باپ بیٹا‘ چچا بھتیجا‘ میاں بیوی وغیرہ پارٹیاں بھی کام کر رہی ہیں۔ اگر ان کی لیڈر شپ بدل بھی جائے تو وہ کیا کر لیں گی؟ ان کے پاس کیا بطور آپشن کوئی نظریہ ہے؟ ملک کے لیے کوئی خواب ہے؟ عوام کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے کیا ان کے پاس کوئی نظریہ‘ کوئی نعرہ ہے؟ یہ سب تو بڑی باتیں ہیں‘ ان کے پاس تو نوٹنکی کرنے کا فن بھی نہیں ہے‘ جیسے کہ ہمارے پیارے بھائی نریندر مودی کے پاس ہے۔ ان کے پاس گاندھی‘ لوہیا اور جے پرکاش کی طرح کوئی جادوئی لیڈر بھی نہیں ہے‘ جو نوٹنکی پر بھاری پڑ جائے۔ وہ سب اقتدار والوں کی ٹانگیں کھینچنا جانتے ہیں‘ لیکن انہیں وہ کام بھی ٹھیک سے نہیں آتا۔ امید کی بس ایک ہی کرن ہے جو حزب اختلاف کے پاس ہے۔ ملک کی اکانومی کی کنڈیشن بگڑتی جائے‘ عوام کے دکھ درد بڑھتے چلے جائیں اور پریشان ہو کر عوام کسی کے بھی سر پر تاج رکھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ 
جاسوسی کون کروا رہا ہے؟
اسرائیل کی این ایس او نام کی ایک سافٹ وئیر کمپنی کی ایک زبردست تگڑم ابھی ابھی پکڑی گئی ہے۔ اس کمپنی نے دنیا کے لگ بھگ آدھا درجن ممالک کے چودہ سو لوگوں کے فون ٹیپ کر کے ان کے واٹس ایپ پیغامات اکٹھے کر لیے ہیں۔ ساری دنیا میں یہ مانا جاتا ہے کہ واٹس ایپ پر ہونے والی بات چیت یا بھیجے جانے والے پیغامات کو کوئی ٹیپ نہیں کر سکتا‘ لیکن اب یہ وہم ختم ہو چکا ہے۔ اس بحث میں بھارت بھی گھر گیا ہے۔ بھارت کے ایسے کئی صحافیوں‘ پروفیسروں‘ سماجی کارکنوں اور وکیلوں کے نام اجاگر ہوئے ہیں‘ جن کے موبائل فونوں کو امسال اپریل‘ مئی کے مہینوں میں ٹیپ کیا گیا ہے۔ اس خفیہ سازش کا کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی کی 'سٹیزن لیب‘ نے بھانڈا پھوڑ دیا ہے‘ جس کے بعد بھارت میں نئی بحث اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ کانگریس کا الزام ہے کہ یہ نفرت آمیز کام مودی سرکار نے کروایا ہے۔ اور یہ کہ شہریوں کی ذاتی اور پوشیدہ رازوں اور ان کی پرائیویسی توڑنے کے لیے بھاجپا سرکار غیر ملکی ایجنسیوں کا استعمال کر رہی ہے۔ جن سولہ بھارتی لوگوں کی کالیں ٹیپ کی گئی ہیں‘ وہ سبھی یا تو دلت ہیں یا کمیونسٹ ہیں یا پھر سرکار کے خلاف لوگ ہیں۔ ان لوگوں پر جاسوسی کرنے کے لیے سرکار نے 'پیگاسس‘ (Pegasus) نام کا اسرائیلی سافٹ ویئر خریدا ہے۔سرکار نے ان الزامات کوبالکل جھوٹ بتایا ہے اور واٹس ایپ کے سارے معاملے پر صفائی مانگی ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کا کہنا ہے کہ اس اسرائیلی کمپنی کا بیان پڑھیے۔ وہ کہتی ہے کہ ہم لوگوں کی ذاتی باتوں کو ٹیپ نہیں کرتے ہیں‘ بلکہ سرکاروں کو صرف اپنا سافٹ وئیر بیچتے ہیں تاکہ مجرموں اور گنہگاروں کو وہ پکڑ سکیں۔ اگر یہ سچ ہے تو مودی سرکار کے کسی بڑی مصیبت میں پھنسنے کے امکانات کم ہی ہیں‘ کیوں کہ اس طرح کی جاسوسی یا نگرانی تو بھارتی سرکار خود بھی کر سکتی ہے‘ کچھ قانون قاعدوں کے تحت‘ لیکن ہو سکتا ہے کہ واٹس ایپ پیغامات اس کی پکڑ سے باہر رہے ہوں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس طرح کی جاسوسی دس لوگوں پر کرنے کے لیے این ایس او کمپنی صرف پانچ سے دس کروڑ روپے تک لیتی ہے۔ جن لوگوں پر جاسوسی کی گئی ہے‘ وہ سرکار کے مخالف ضرور ہیں لیکن وہ اتنے خطرناک نہیں ہیں کہ ان پر جاسوسی کے لیے غیر ملکی کمپنی کو لگایا جائے۔ اگر بھارت سرکار کو یہی کرنا تھا تو اس کے لیے اصلی خطرہ پیدا کرنے والے کئی دوسرے لوگ ہیں۔ وہ ان کی جاسوسی کراتی اور ان کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی۔ تاہم پھر بھی یہ معاملہ کافی الجھا ہوا ہے‘ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ طول پکڑے گا۔ اب بھارتی اور امریکی عدالتیں اس معاملے میں کیا موقف اختیار کرتی ہیں‘ یہ اہمیت کا حامل معاملہ رہے گا اور لوگوں کی نظریں بھی اسی جانب لگی رہیں گی۔ یہ جاننے کی خواہش بنی رہے گی کہ دونوں ملکوں کی عدالتیں اس معاملے کو کس نظر سے دیکھتی اور پرکھتی ہیں۔ ابھی تک ٹھیک سے پتا نہیں چلا ہے کہ یہ جاسوسی کون کروا رہا ہے اور یہ بھی پتا نہیں کہ صرف ان درجن بھر معمولی لوگوں کی ہی جاسوسی ہو رہی ہے یا کچھ اور اہم لوگ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ کہیں یہ فہرست لمبی نہ ہو جائے؟ 
بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں کے پاس عوام کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے کیا کوئی نظریہ‘ کوئی نعرہ ہے؟ یہ سب تو بڑی باتیں ہیں‘ ان کے پاس تو نوٹنکی کرنے کا فن بھی نہیں ہے‘ جیسے کہ ہمارے پیارے بھائی نریندر مودی کے پاس ہے... وہ سب اقتدار والوں کی ٹانگیں کھینچنا جانتے ہیں‘ لیکن انہیں وہ کام بھی ٹھیک سے نہیں آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں