ابھی میں دبئی میں ہوں۔ چند روز پہلے جیسے ہی صبح آنکھ کھلی‘ تو میں دھک سے رہ گیا۔ چار پانچ دن پہلے میں نے لکھا تھا کہ ممبئی میں بھاجپا اور این آر سی کی سرکار بھی بن سکتی ہے۔ سارے ملک نے سنا کہ دیوندر پھڑن ویس اور اجیت پوار نے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کا حلف صبح آٹھ بجے ہی لے لیا۔ اتنی صبح حلف لینے والے یہ بھارت کے شاید پہلے لیڈر ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ حلف پوار اور مودی کی ملاقات کا نتیجہ ہے لیکن کچھ ہی دیر میں پتا چلا کہ شرد پوار کو ان کے بھتیجے اجیت پوار نے بالکل ویسے ہی غچہ دے دیا‘ جیسے کرناٹک میں کمار سوامی نے کچھ برس پہلے اپنے والد صاحب کو دے دیا تھا۔ دیوی گوڑا چاہ رہے تھے کہ بھاجپا سے اتحاد ہو جائے۔ وہ اٹل جی اور ایڈوانی جی سے بات کر رہے تھے کہ ان کے بیٹے نے بازی مار لی۔ یہی کام اجیت نے کر دکھایا۔ لیکن شرد پوار نے اجیت کی کارروائی کو پارٹی اور فیملی سے بغاوت قرار دے دیا ہے۔ کانگریس بھی ناراض ہے لیکن سب سے زیادہ بوکھلاہٹ کسی کو ہے تو وہ شیو سینا ہے۔ اس کا نقلی تاج محل چکنا چور ہو گیا ہے۔ اس کی ساری اکڑ ٹھکانے لگ گئی ہے۔ راتوں رات ممبئی میں تختہ پلٹ ہو گیا ہے۔ اب بھی امید ہے کہ اجیت پوار کے ساتھ کافی کم ایم ایل ایز جائیں گے اور وہ ودھان سبھا میں بھاجپا کو گرا دے گی۔ یہ ناممکن نہیں ہے کیونکہ شرد پوار اور ان کی بیٹی کی پکڑ این آر ایس میں کافی مضبوط ہے لیکن اقتدار کے لالچ کے آگے سب لیڈر ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ عہدہ‘ وزارت اور کروڑوں روپے کا لالچ اب جم کر اپنا اثر دکھائے گا۔ بھاجپا اپنی سرکار بچانے کے لیے ہر حربے کا استعمال کیوں نہیں کرے گی؟ یوں بھی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناتے اقتداری ہونے کا اخلاقی حق ان کا ہی ہے۔ جہاں تک این آر سی‘ شیو سینا اور کانگریس کے اتحاد کا سوال ہے‘ وہ پچھلے ایک ماہ سے سودے بازی میں لٹکے ہوئے تھے۔ مہاراشٹر کے عوام کی نظر میں اس کی قیمت بہت کم ہو رہی تھی۔ اگر وہ بن بھی جاتے تو وہ چلتے کتنے دن؟ 'کانی کے بیاہ میں سو سو جوکھم ‘۔ اب امید ہے کہ مہاراشٹر کی سیاست میں تھوڑی مضبوطی آ جائے گی۔ اگر اب بھی سودے بازی‘ پارٹی بدل یا اتحاد بدل کا ناٹک چلتا ہو تو بہتر ہو گا کہ مہاراشٹر میں نئے چنائو کروائے جائیں‘ جیسے کہ اسرائیل میں ایک ہی سال میں اب تیسرے چنائو کی نوبت آ گئی ہے۔
اسرائیلی سرکار بیچ منجدھار میں
جو حال آج کل مہاراشٹر کا ہے‘ وہی اسرائیل کا بھی ہے۔ وہاںبھی لگ بھگ ایک مہینہ پورا ہو رہا ہے‘ چنائو کے بعد‘ لیکن سرکار بنانا مشکل ہو رہا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو گزشتہ دس برس سے وزیر اعظم ہیں اور اپنی لکخود پارٹی کے سٹوڈنٹ لیڈر ہیں لیکن وہ گزشتہ چنائووں میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے تھے۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ دوسری چھوٹی موٹی پارٹیوں سے اتحاد ہو جائے لیکن یہ بات بن نہیں پا رہی ہے۔ نیتن یاہو اتحاد کے ماسٹر ہیں لیکن اس بار ان کی گاڑی اس لیے بھی اٹک گئی ہے کہ ان پر بد عنوانی‘ رشوت خوری اور اقتدار کے غلط استعمال کے سنجیدہ الزام لگے ہیں۔ ایسے الزام ان کے گزشتہ پیریڈ میں بھی ان پر لگے تھے لیکن اس بار ان الزامات پر ان کے اٹارنی جنرل نے جانچ بھی شروع کر دی ہے۔ اب سوال یہی اٹھتا ہے کہ کیا نیتن یاہو کو جانچ کے دوران مستعفی ہونا پڑے گا؟ اسرائیلی قانون میں ایسا کوئی قاعدہ نہیں ہے لیکن یہ الزام ان کے لیے دو نظریوں کے مطابق بہت ہی خطرناک بن گئے ہیں۔ ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے لگ بھگ ڈھائی لاکھ ڈالر کے تحفے کسی کمپنی سے قبول کیے ہیں۔ اسی طرح ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کو انہوں نے پچاس کروڑ ڈالر کا فائدہ پہنچایا اور بدلے میں اپنے لیے من چاہی خبریں چھپوائیں۔ ان کی بیگم پر بھی طرح طرح کے الزامات ہیں۔ اگر یہ الزام ثابت ہو گئے تو سولہ سال کے لیے وہ جیل چلے جائیں گے۔ اگر یہ الزام ان پر لگے رہے اور وہ چنائو میں اتریں گے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا‘ اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسرائیل میں اگر کوئی اتحادی سرکار بنا بھی دی جائے تو اس کا چلنا مشکل ہے۔ کمزور پڑے یا ان کی سرکار اگر بن بھی جائے تو اس بار فلسطینی لوگ اس کا ناک میں دم کریں دیں گے۔ وہ ملکی اور دنیاوی سطح پر انصاف کی مانگ زوروں سے کر رہے ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر مسلم ممالک اور خاص طور پر ایران نے نیتن یاہو کے خلاف تگڑا مورچہ کھول رکھا ہے۔ اسرائیل کی یہ بات اس کے مغربی ممالک سے بنے تعلقات کو بھی متاثر کیے بنا نہیں رہے گی۔
ڈاکٹری کی پڑھائی‘ لوٹ پاٹ بند کی جائے!
کسی بھی ملک کو اگر آپ خوشحال‘ سکھی اور طاقتور بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے دو باتوں پر دھیان دینا ضروری ہے۔ پہلی‘ تعلیم اور دوسری صحت ۔صحت جسم تندرست رکھتی ہے اور تعلیم دل کو ۔گزشتہ 72 برسوں میں ہماری سرکاروں نے ان دونوں معاملات میں کوئی مستعدی نہیں دکھائی لیکن مجھے خوشی ہے کہ ہماری سرکار میں پہلے وزیر صحت جگت پرکاش نڈا نے ادویات کی لوٹ پاٹ کو روکا۔ اب ڈاکٹر ہرش وردھن ڈاکٹری کی پڑھائی میں اس لوٹ پاٹ کے خلاف کمر کس رہے ہیں۔ بھارت میں ڈاکٹری کی پڑھائی کی فیس پچیس لاکھ روپے سال تک جاتی ہے۔ جو آدمی ڈاکٹر بننے کے لیے ایک ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کرے گا‘ وہ ڈاکٹر بننے کے بعد کیا کرے گا؟ اس کا دھیان مریضوں کے علاج پر پہلے ہو گا یا پہلے وہ پیسہ بنانے پر دھیان دے گا؟ ظاہر ہے کہ وہ ٹھگی کرے گا اور مریضوں کے علاج پر اس کی توجہ کم ہی ہو گی۔ پہلے تو وہ پڑھائی پر لگائے گئے ڈیڑھ کروڑ روپے پورے کرے گا اور اس کے بعد ایک لگژری زندگی کے لوازمات پورے کرنے کے لیے کمر کس لے گا۔ اس ٹھگی کو روکنے کے لیے اب میڈیکل کالجوں کی فیس 70 سے 90 فیصد کم کی جائے گی۔ اگر میڈیکل کی پڑھائی سستی ہو جائے اور یہ پڑھائی بھارتی زبانوں میں بھی ہونے لگے تو ہم صحت کے اعتبار سے دنیا کے 191 ممالک میں 112ویں پائیدان پر پسرے ہوئے نہیں ملیں گے‘ بلکہ یہ درجہ بلند ہو گا اور دیہات سے تعلق رکھنے والے غریبوں اور محروموں کے بچے بھی ڈاکٹر بن سکیں گے۔ اور یہ بات تو خاصے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ غریبوں کے بچے امیروں کے بچوں کے مقابلے میں عوام کی کافی زیادہ خدمت کریں گے۔ ابھی بھارت میں دس ہزار لوگوں پر صرف پانچ ڈاکٹر ہیں‘ حالانکہ انہیں کم سے کم دوگنا ہونا چاہئے۔ گائوں کی تو ساری کی ساری حالت ہی خراب حالت ہے۔ اگر ہمارے ملک میں حکیم اور ہومیو پیتھ نہ ہوں تو گائوں کے لوگ اور غریب مریض کو موت کے منہ میں جانے سے روکنا مشکل ہو جائے۔ میں نے اپنے وزارت صحت کے لوگوں سے کئی بار کہا کہ میڈیکل کی پڑھائی بھارتی زبانوں میں شروع کریں تاکہ یہ آسان فہم ہو جائے اور عام آدمی کا بچہ بھی یہ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا لیکن اسے ابھی تک نبھایا نہیں۔ صورتحال ویسی ہی ہے‘ جیسی پہلے تھی۔ دوسری بات میں نے یہ کہی کہ سبھی ہسپتالوں میں علاج کا اچھا انتظام کریں۔ یہ ایک ایسا انقلابی کام ہو گا‘ جس کا فائدہ دوسرے ملک بھی اٹھا سکیں گے۔ تیسری بات یہ کہ ڈاکٹری کی پڑھائی میں امراض کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کی روک تھام پر بھی پورا دھیان دیا جائے تاکہ لوگ امراض میں مبتلا ہی نہ ہوں۔ میڈیکل کی کتابوں میں یہ درست کہا گیا ہے کہ خاصیت کا پہلا سبب تو جسم ہی ہے۔
سبھی ہسپتالوں میں علاج کا اچھا انتظام کریں۔ یہ ایک ایسا انقلابی کام ہو گا‘ جس کا فائدہ دوسرے ملک بھی اٹھا سکیں گے۔ تیسری بات یہ کہ ڈاکٹری کی پڑھائی میں علاج کے ساتھ ساتھ ان کی روک تھام پر بھی پورا دھیان دیا جائے تاکہ لوگ امراض میں مبتلا ہی نہ ہوں۔ میڈیکل کی کتابوں میں درست کہا گیا ہے کہ خاصیت کا پہلا سبب تو جسم ہی ہے۔