"DVP" (space) message & send to 7575

بھاجپا کے لیے زبردست للکار

مہاراشٹر میں آخرکار شیو سینا‘ این سی پی اور کانگریس پارٹی کی اتحادی سرکار بن گئی ہے۔ ادھو ٹھاکرے بھاجپا کی سرکار میں ڈھائی برس بعد وزارت اعلیٰ کا عہدہ مانگ رہے تھے لیکن وہ ابھی ہی وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں۔ وہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ این سی پی یا کانگریس ان سے وزیر اعلیٰ کا عہدہ بانٹنے کے لیے نہیں کہہ رہی ہیں۔ وہ صرف اپنے اپنے عہدوں یعنی نائب وزارت اعلیٰ کو ترجیح دے رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں‘ یہ دونوں اتحادی پارٹیاں اپنے لیے ملائی دار وزارتیں اور پورٹ فولیو بھی چاہتی ہیں۔ ابھی تو تینوں پارٹیوں کے دو وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کسی پارٹی کو کتنے اور کون سے پورٹ فولیو ملیں گے۔ اس مسئلے کو لے کر اس غیر فطری اتحاد میں پہلے دن سے ہی کھینچا تانی شروع ہو سکتی ہے لیکن شرد پوار کے رہتے اس اتحاد کے بکھرنے کا خطرہ کافی کم ہے‘ کیونکہ ان کے بزرگ ہونے کے علاوہ ان کا تال میل لائق داد ہے۔ وہ سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کی بنیاد پر کانگریس سے الگ ہوئے تھے‘ لیکن انہی کی پارٹی کے ساتھ پہلے بھی اور اب بھی سرکار بنانے کے لیے وہ خوشی سے تیار ہو گئے۔ نرسمہا رائو جی کے خلاف انہوں نے 1991ء میں اپنے لیے عہدہ وزارت عظمیٰ کا اعلان کر دیا تھا‘ لیکن میں نے جیسے ہی ان سے بات کی‘ وہ وزیر دفاع کا عہدہ لینے کے لیے تیار ہو گئے۔ یہ شرد جی ہی کی خوبی ہے کہ انہوں نے شیو سینا سے سیکولر ہونے کی جانب عقیدت ظاہر کروا دی۔ شیو سینا کے اس جھکنے کا کریڈٹ کانگریس کو کم‘ شرد جی کو زیادہ جاتا ہے۔ لیکن مہاراشٹر کے مراٹھی پر شرد پوار کا جادو کہیں شیو سینا پر بھاری نہ پڑ جائے۔ ان تینوں اقتداری پارٹیوں نے جو کم از کم مشترکہ پروگرام بنائے‘ وہ بھی اتنے پُر کشش ہیں کہ سبھی غیر پارٹیوں کے لیے نصیحت آمیز بن سکتے ہیں۔ کسانوں کی ساری قرض معافی‘ دس روپے میں کھانا‘ ایک روپے میں ڈاکٹری علاج‘ گندی بستیوں کے مقیم لوگوں کے لیے پانچ سو فٹ کا مفت پلاٹ‘ مقامی لوگوں کو نوکریوں میں خاص رعایت‘ خاص ریزرویشن وغیرہ ایسے کام ہیں‘ جن کے فائدے لوگوں کو جلدی ملیں گے۔ یہ حربہ اگلے صوبائی چنائووں میں حزب اختلاف بھی اپنا لے تو بھاجپا کے لیے یہ زبردست للکار بن سکتی ہے۔ جوں جوں سیاسی معاملات آگے بڑھ رہے ہیں یہ آہستہ آہستہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مہاراشٹر کی سیاست پارلیمنٹ کے اگلے چنائووں میں ملکی سیاست کو گہرائی تک متاثر کر سکتی ہے۔
کڑوی گولی
حیدر آباد (بھارت) میں ایک لڑکی کے غنڈوں کی ہوس کا شکار ہو جانے کے واقعہ نے ایک بار پھر پورے ملک کے عوام کا دل دہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے تین چار واقعات حال ہی میں بھارت کے کئی حصوں میں ہوئے ہیں۔ دلی میں نربھیا کے ساتھ سات سال پہلے ہونے والے اسی طرح کے واقعہ نے بھی سارے ملک کو ہلا دیا تھا‘ لیکن حیدر آباد میں ڈاکٹر پریانکا ریڈی کے ساتھ جو ہوا‘ وہ نربھیا سے زیادہ خطرناک واقعہ ہے۔ نربھیا بچ گئی تھی۔ اس کا علاج بھی ہوا۔ پھر اسے جانا ہی پڑا‘ لیکن پریانکا کو زیادتی کے بعد جلا دیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ بھارت میں اب ایسا بار بار اور ہر جگہ کیوں ہو رہا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ یہ برابر ہوتا ہی رہے گا۔ بھارت کی جیسی پولیس ہے‘ سرکاریں ہیں‘ عدالتیں ہیں‘ ہمارا سماج ہے‘ اس کو بھی اگرکڑوی گولی نہیں دیں گے‘ تو اس سے بھی خطرناک حادثے اور واقعات دیکھنے اور سننے میں آئیں گے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ نربھیا کے قاتلوں کو پھانسی دینے میں سات سال کیوں لگ رہے ہیں؟ انہیں سات دن میں ہی پھانسی کیوں نہیں دی گئی؟ انہیں جیل کے اندر ہی کیوں لٹکایا گیا؟ انہیں چاندنی چوک یا کناٹ پلیس میں کیوں نہیں لٹکا دیا گیا تاکہ انہیں اپنے گناہوں کی سزا تو ملے ہی‘ مستقبل میں جبری زیادتی کے بارے سوچنے والوں کی ہڈیاں بھی کانپ جائیں۔ گناہ آج ہو اور اس کی سزا برسوں بعد ملے تو کسے یاد رہے گا کہ کس نے کیا کیا تھا اور کس کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے؟ میرے خیال میں دیر سے ملنے والی سزا کا کوئی سماجی اثر نہیں ہوتا۔ ملک کے کروڑوں لوگوں کے لیے وہ سزا ہوئی یا نہیں ہوئی‘ ایک برابر ہو گی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سرکار فوراً نیا قانون بنائے اور ایسے معاملات میں زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے اندر عدالتیں اپنا فیصلہ سنائیں۔ میں تو حیدر آباد کے زیادتی کرنے والوں کے والدین کو (جن میں ہندو مسلم دونوں شامل ہیں) سلام پیش کرتا ہوں‘ جنہوں نے کہا ہے کہ زیادتی کرنے والے ان کے بیٹے ہیں تو کیا ہوا؟ انہیں سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔ کیا بھارت کے ان وکلا کو بھی کچھ شرم آئے گی‘ جو ان کے جھوٹے مقدمات لڑتے ہیں؟ پیسوں کے لیے وہ اپنا ایمان بیچتے ہیں؟ یہ تو ہوئی قانونی کارروائی لیکن اس سے بھی بہتر ہے‘ اخلاقی کارروائی۔ کیا اپنے سکولوں‘ کالجوں میں بچوں کو ہم یہ عزم بھی کروا سکتے ہیں کہ 'پرائی عورت والدہ کے برابر اور پرایا پیسہ مٹی کے برابر ہوتا ہے؟‘ مغربی کلچر میں پھنس کر ہم بچوں کو الٹی پٹی پڑھنے دیتے ہیں۔ اور پھر انٹرنیٹ‘ بے لگام فلموں اور سینما پر بھی عریانی بڑھ رہی ہے۔ کیا یہ عریانی نوجوانوں کو لاپروا نہیں بناتی؟ اس پر جلد ہی روک کیوں نہیں لگائی جاتی؟ اب ونوبا بھاوے کی ننگے پوسٹر مخالف تحریکوں کی بھارت کو پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ محض لچر پچر قوانین سے زیادتیاں بند نہیں ہوں گی۔ بھاجپا سرکار چاہے تو اس معاملے میں کچھ تاریخی قدم اٹھا سکتی ہے۔ 
مسلم اور سنسکرت 
بنارس ہندو یونیورسٹی میں غضب کا ڈھونگ چل رہا ہے۔ وہاں کے شعبہ سنسکرت کے شاگرد اس لیے دھرنے پر بیٹھے ہیں کہ ڈاکٹر فیروز خان نام کے ایک مسلم کو استاد کیوں مقرر کر دیا گیا ہے؟ ان شاگردوں کو اور ان کی پشت ٹھونکنے والے پونگا پنڈتوں کو پتا نہیں ہے کہ سنسکرت کسی کے باپ کی امانت نہیں ہے۔ بھارت میں سنسکرت کس کس نے نہیں پڑھی ہے؟ کیا انہوں نے گاڑیوان ریکو کا نام سنا ہے؟ ''جمنا جایتے شودرہ: سنسکارات دوجرا چیتے‘‘ کیا اس کا مطلب انہیں پتا ہے؟ سنسکرت اور وید پڑھنے کا حق انسان ذات کا ہی ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں نے سنسکرت کے ادب میں غیر معمولی خدمات پیش کی ہیں۔ کیا دارا شکوہ ہندو برہمن تھے؟ انہوں نے اپنشدوں پر زبردست کام کیا۔ عبدالرحیم خانِ خاناں نے ''کھٹکو تکم‘‘ نام کے سنسکرت زبان میں کتاب لکھی تھی۔ ان کے طریقے سے لکھے گئے شعروں کو پڑھ کر دل نہایت ہی خوش ہو جاتا ہے۔ عیسائی عالموں نے سنسکرت میں 'کھریست گیتا‘ اور 'کھریست بھاگوت‘ لکھی ہے۔ میکس مولر‘ پال ڈائسن‘ کرنل جیکب وغیرہ درجنوں عالموں کے نام کیا گنوائوں‘ جنہوں نے سنسکرت ادب کو خوش حال بنایا۔ شاہ جہاں کے دربار کے ترشولی پنڈت اپنی سنسکرت تحریروں کے لیے مشہور تھے۔ سنسکرت کے ایک شیعہ عالم 1972ء میں ایران یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھاتے تھے‘ اور اسلام آباد میں ایک سنی عالم پونے کا رہنے والا تھا۔ وہ لگ بھگ چالیس برس پہلے جب مجھ سے پہلی بار ملا تو سنسکرت میں ہی بھاشن دیا کرتا تھا۔ پنڈت غلام دستگیر 85ء اور دلی کے ڈاکٹر حنیف خان 70ء سے میری آنجہانی بیوی مسمات وید وتی جی اور میرا سیدھا تعلق رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ دستگیر جی نے اپنے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ سنسکرت میں چھپوایا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ڈاکٹر خالد بن یوسف اور ڈاکٹر محمد شریف شعبہ سنسکرت کے ڈین رہے ہیں۔ کشمیر یونیورسٹی میں ڈاکٹر معراج احمد خان سنسکرت پڑھاتے رہے ہیں۔ مشہور سنسکرت عالم پروفیسر ستیہ ورت جیت نے اس مضمون پر گہرائی سے تحقیق کر کے مضامین بھی لکھے ہیں؛ چنانچہ کاشی یونیورسٹی کے سنسکرت طلبا سے میں گزارش کرتا ہوں کہ وہ سنسکرت کا گلا گھوٹنے کا گناہ نہ کریں۔ سنسکرت دنیا کی سب سے آسان اور خوشحا ل زبان ہے۔ وہ اسے کسی ذات‘ مذہب یا ملک کی حد میں قید کرنے کی کوشش نہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں