کئی لوگ پوچھ رہے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے حساب سے بھارت کا گزشتہ برس کیسا رہا؟ میں کہوں گا کہ کھٹا میٹھا اور نرم گرم۔ رہا مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 370 کا معاملہ تو چین‘ ترکی اور ملائیشیا جیسے ملکوں نے بھی اس پر تنقید کی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا سوال ہے‘ تو اس نے اس کی سخت مخالفت کرنی ہی تھی اور وہ کر بھی رہا ہے۔ بالا کوٹ پر ہوئے حملے کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات میں اتنا تنائو پیدا ہو گیا کہ مودی نے نئے برس کی مبارکباد سبھی پڑوسی لیڈروں کو دی‘ لیکن عمران خان صاحب کو نہیں دی۔ ادھر عمران خان نے کرتار پور صاحب میں سکھوں کے علاوہ کسی کے بھی جانے پر پابندی لگا دی۔ بھارت کے نئے سٹیزن شپ ترمیمی قانون پر بھی ملک کے اندر اور باہر سے شدید تنقید کی جا رہی ہے‘ جس میں پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کے علاوہ سب کو پناہ دینے کی بات کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کی ساری دنیا میں مخالفت ہو رہی ہے۔ اس نے بھارت میں ساری اپوزیشن پارٹیوں کو ایک کر دیا ہے اور سبھی نوجوانوں میں جوش بھر دیا ہے۔ دنیا میں کئی ادارے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق اور شہریت کے معاملے کو اٹھا رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ کے ساتھ ہماری تجارتی گتھی اب تک الجھی ہوئی ہے اور چین کے ساتھ تجارتی توازن بگڑتا ہی جا رہا ہے۔ سرحدی سوال جوں کے توں ہیں۔ ہمارے شہریت والے حربے سے بنگلہ دیش بھی ناراض ہے۔ مختصر یہ کہ ہماری یعنی بھارت کی خارجہ پالیسی میں کوئی دور اندیشی نہیں دکھائی پڑ رہی۔
نئی پہل کی ضرورت
جونہی ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کا قتل ہوا‘ میں نے لکھا اور ٹی وی چینلوں پر کہا تھا کہ بھارت کو امریکہ اور ایران کے لیڈروں سے فی الفور بات کرنی چاہیے۔ مجھے خوشی ہے کہ دوسرے دن وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر نے دونوں وزرائے خارجہ اور اب نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کی ہے۔ بھارتی سرکار کے بیان میں یہ بات چھپائی گئی ہے کہ ان دونوں کے بیچ ایران پر کوئی بات ہوئی ہے‘ لیکن امریکی ترجمان نے اسے واضح کر دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مودی کو چاہیے کہ وہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای سے بھی بات کریں‘ کیونکہ امریکہ کو جو کرنا تھا‘ اس نے کر دیا‘ ایران نے اس پر ردعمل بھی ظاہر کر دیا‘ اب کسی بھی جانب سے کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے‘ جس سے جنوبی ایشیا میں تباہی پھیل جائے۔ ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکہ اور ایران کے بیچ جنگ چھڑ جانے کا جو اندیشہ تھا‘ وہ ابھی تک اندیشہ ہی ہے‘ یہ تسلی بخش بات ہے۔ ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر جو ہوائی حملہ کیا‘ اس کارروائی کو اس نے سلیمانی کے قتل کا پورا بدلا یا جواب کہا تھا۔ یہ اشارہ بھی ایرانی لیڈروں نے دیا تھا کہ انہوں نے کام پورا کر دیا ہے۔ اب اگر امریکہ حملہ کرے گا تو وہ اور بھی اسے سبق سکھائیں گے‘ لیکن یہاں سب سے مزے دار بات یہ ہوئی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی حملے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ اس کا مطلب ساری دنیا نے یہ نکالا کہ امریکہ اب ایران پر زبردست حملہ کرے گا‘ لیکن ٹرمپ نے ساری باتوں کی ہوا نکال دی۔ انہوں نے کہا تھا کہ عراق میں امریکی اڈوں پر ہوئے میزائل حملوں میں ایک بھی امریکی فوجی نہیں مارا گیا‘ تھوڑی بہت توڑ پھوڑ ضرور ہوئی۔ اب پتا نہیں کون جھوٹ بول رہا تھا؟ لیکن ٹرمپ نے جو کہا‘ وہ سچ ہے تو یہ مانا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے لیڈروں کی عزت بچ گئی اور ایسی کیفیت میں بھارت سمیت خطے کے ملکوں کا کردار زیادہ اہمیت والا ہو گیا ہے۔ وہ اب ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کشیدگی کے شروعاتی دور میں سونے اور تیل کی قیمتوں میں جو اچھال آیا تھا‘ وہ بھارت کے لیے فکر کی بات تھی۔ اگر حالت بدتر ہوئی تو خلیجی ملکوں میں پھنسے بھارتیوں کو نکالنے اور بچانے کے لیے بھی بھارت سرکار کے پسینے چھوٹ جاتے۔ یہ اچھی بات ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ متعلقہ ممالک کے وزرائے خارجہ سے لگاتار رابطے میں ہیں۔ بھارت کو اسرائیل سے بھی رابطے میں رہنا چاہیے۔ جیسا کہ میں نے پہلے ہی اندیشہ ظاہر کیا تھا‘ امریکہ اور ایران میں سیدھی مڈھ بھیڑ ہونے سے زیادہ اندیشہ اسی بات کا ہے کہ مغربی اور جنوبی ایشیا کے ملکوں میں قائم امریکی اور اسرائیلی ٹھکانوں کو ایران نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایسی کیفیت میں بھارت کو کافی خبردار اور متحرک رہنا ہو گا۔
اس وقت بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر کے حالات دکھانے کے لیے یورپی اور مغربی ایشیا کے سفیروں کو کشمیر لے جا رہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے‘ لیکن وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ انہیں لوگوں سے ملنے جلنے کی کافی چھوٹ ملنی چاہیے۔ کچھ ہفتے پہلے جیسے یورپی یونین کے ایم پی ایز کشمیر کا پھیرا لگا آئے تھے‘ اسی طرح کا دورہ کرنے کے لیے کچھ سفیر تیار نہیں ہیں۔ میں تو کہتا ہوں بنگلہ دیش‘ پاکستان‘ افغانستان‘ مالدیپ اور ایران کے سفیروں کو بھی وہاں لے جایا جانا چاہیے۔ اب کشمیر میں برفباری اتنی زیادہ ہو رہی ہے کہ وہاں مظاہرے‘ توڑ پھوڑ یا گھیرائو کا امکان نہیں ہے۔ اگر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے لیڈروں کی نظربندی کو ختم کر دیا جائے تو کوئی بھی مشکل پیدا ہونے والی نہیں ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ کچھ غیر سرکاری اور غیر بھاجپائی لیڈروں اور دانشور لوگوں کو ان نظر بند کشمیری لیڈروں سے پہلے بات کرنے دی جائے۔ اب چھ مہینے بیت چکے ہیں‘ کشمیریوں کے منہ پر اب بھی تالے لگائے گئے ہیں۔ اب انہیں کھلنا چاہیے۔ سرکار نے تھوڑی بہت ڈھیل ضرور دی ہے‘ لیکن وہ کافی نہیں۔ سرکار کو یہ خوف ہو سکتا ہے کہ اس کے شہریت قانون کے خلاف ملک کے نوجوان پہلے ہی ہر یونیورسٹی میں مظاہرے کر رہے ہیں تو کہیں کشمیر کی آگ اس آگ کو اور نہ بھڑکا دے۔ اس قانون پر لوگوں کو اُلٹی پٹی پڑھانے پر سرکار اپنی طاقت برباد کرنے کی بجائے اس میں ترمیم کرے اور مقبوضہ کشمیر کا گھیراؤ ختم کرے تو اسے پرامن طریقے سے کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ گرتی ہوئی اقتصادیات کو سنبھالنے پر وہ اپنا دھیان مرکوز کر سکتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر: عدالت کی صفائی
مقبوضہ کشمیر کے سوال پر بھارتی سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا‘ اس پر اپوزیشن پارٹیاں کیوں خوش ہو رہی ہیں‘ یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ عدالت نے سب گرفتار لیڈروں کی رہائی کا حکم دے دیا ہے؟ کیا اس نے مقبوضہ کشمیر کے ہر ضلع میں ہر شہری کو انٹرنیٹ کی سہولت واپس کروا دی ہے؟ کیا اس نے ہزاروں لوگوں کے مظاہروں ‘جلوسوں اور میٹنگز پر جو روک لگی ہوئی ہے‘ اسے ہٹا لیا ہے؟ کیا عدالت نے مرکزی سرکار کو کوئی حکم نافذکرنے کو کہا ہے‘ جسے سُن کر مقبوضہ کشمیر کے عوام واہ واہ کرنے لگے؟ میرے خیال میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سپریم کورٹ میں جو درخواستیں مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی سہولیات کے لیے لگائی گئی تھیں‘ ان پر کوئی بھی ٹھوس نتیجہ نہیں ہے۔ ہاں‘ یہ ضرور ہوا کہ عدالت نے گھما پھرا کر سرکار پر تنقید کی ہے اور اسے خبردار کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ سرکار آرٹیکل 144 تھوپنے اور انٹرنیٹ پر اڑنگا لگانے کا جو کام کرتی ہے‘ یہ انسانیت کے بنیادی حق کو محروم کرتی ہے۔ سرکار کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرے۔ دوسرے الفاظ میں اس نے سرکار کو کٹہرے میں کھڑے کیے بنا اسے سبق دے دیا ہے۔ اب یہ سرکار پر مدار ہے کہ وہ کیا کرتی ہے؟ سنا ہے کہ وہ ساری پابندیاں ختم کرنے سے پہلے فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ سے کوئی معاہدے کی بات کرنا چاہتی ہے۔ عدالت نے اپنے اس فیصلے سے مقبوضہ کشمیر کے عوام اور سرکار‘ دونوں کو چپ کرا دیا ہے۔ نہ تو اس نے کسی کی جانب فیصلہ دیا ہے‘ نہ ہی کسی کے خلاف۔ کیا عدالت کو یہ گمان تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں زبان چلانے کی آزادی دے دی جاتی تو لاکھوں لوگوں کی جان جانے کی آزادی پیدا ہو جاتی؟ اب برف گر رہی ہے‘ اس لیے عدالت کے فیصلے کے سبب اس کے بنا بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام پر پابندیاں تو اٹھیں گی ہی۔