"DVP" (space) message & send to 7575

سیاست کو کریں جرم سے آزاد

ہماری سپریم کورٹ اور اشونی اپادھیائے کی تعریف کن الفاظ میں کی جائے‘ سپریم کورٹ نے سیاست سے مجرموں کو باہر کرنے کے لیے اب پکاراستہ بنانے کی تیاری کر لی ہے ۔ اشونی کی درخواست پر غورکرتے ہوئے اپنے چنائو کمیشن کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ایک ہفتے میں اشونی کے ساتھ صلاح کر کے یہ بتائے کہ مجرم لیڈروں کو چنائو لڑنے سے کیسے روکا جائے؟عدالتوں کا ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ خاص مقدموں کو سننے میں بھی وہ برسوں لگا دیتی ہے‘ لیکن اس نے اس معاملے کو صرف سات دن دیے ہیں ۔اسی سے سمجھ لیجئے کہ سیاستدانوں کا جرم کرنا کتنا سنگین جرم ہے ۔اس وقت بھارتی پارلیمنٹ کے 539 ممبروں میں سے 233 مجرم ہیں ۔ ان میں قریب قریب سبھی پارٹیوں کے ممبر شامل ہیں ۔ذرایہ سوچیے کہ جس ملک کی پارلیمنٹ میں لگ بھگ نصف ممبر ایسے ہوں جن پر جرم کے الزامات ہوں اور ان پر مقدمے چل رہے ہوں وہ پارلیمنٹ کس منہ سے اس ملک کی حکومت ٹھیک سے چلا سکتی ہے ؟2018 ء میں الیکشن کمیشن نے یہ قاعدہ بنایا تھا کہ جن امیدواروں پر ایسے جرم کے مقدمے چل رہے ہوں جن کی سزاپانچ برس سے زیادہ ہووہ اپنی امیدواری کے وقت اخبارات میں تین بار چھاپ کر بتائیں کہ ان پر کیا الزامات ہیں ۔اس اصول کی پرورش تو ہوئی لیکن ایسی اطلاعات ایسے اخبارات میں شائع کی گئیں ‘جنہیں کوئی پڑھتا ہی نہیں ۔ ٹی وی چینلوں پر یہ خبر تب دکھائی گئی جب تک لوگ سو کر بھی نہیں اُٹھتے ۔تم ڈال ڈال تو ہم پات پات ۔اس بار الیکشن کمیشن کو کافی سخت اور ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے ۔ جو پارٹیاں ایسے امیدواروں کو چنتی ہیں‘انہیں چنائو سے باہر کیا جانا چاہیے ۔ چناوی خرچ پر قابو ہونا چاہیے ۔ چنائو کی بدعنوانی گنگوتری ہے ‘اسی میں سبھی لیڈر نہاتے ہیں ۔ 
مسلمانوں کی وطن پرستی؟
سابق بھارتی صدر پرناب مکھرجی نے ان مظاہروں کی تعریف کی ہے جو نئے سی اے اے(بھارتی شہریت ترمیمی قانون) کے خلاف چل رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے بھارت کی جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے ۔میں تو اس سے بھی تھوڑا آگے جا تا ہوں‘میرا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے بالکل ٹھیک اور جائز ہیں‘چاہے اس غلط فہمی کی بنیاد پر چل رہا ہے کہ اس نئے قانون سے ملک کے مسلمانوں کی شہریت چھن جائے گی‘ جبکہ اس قانون کا تعلق صرف ان مسلم پناہ گیروں سے ہے جو بنگلہ دیش ‘پاکستان اورافغانستان سے آ سکتے ہیں۔بھارتی مسلمان اور ان کے ساتھ ہندواور سکھ نوجوان مل کر جس جوش سے مظاہرے کر رہے ہیں ‘وہ اپنے آپ میں عجیب اور خوش کن ہے ۔اس کے کئی اسباب ہیں ۔پہلا یہ کہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے ‘مخالفت کی پوری آزادی ہے ۔دوسرا‘یہ مظاہرے عدم تشدد پر مبنی ہیں(صرف مظاہرین کی حد تک ورنہ سرکار اور سرکار کے نظریاتی حامی تشدد اور طاقت کا آزادانہ استعمال کر رہے ہیں ) ۔مظاہرین کی جانب سے خون خرابہ بالکل نہیں ہوا۔تیسرا ‘مسلم خواتین پہلی بار گھر سے باہر نکل کر مظاہرہ کر رہی ہیں ‘ان میں  بیداری  پیدا رہی ہے۔چوتھا‘ہندو مسلم اتحادکا مظاہرہ بھی غیر معمولی ہے ۔پانچواں ‘مسلمان چھاتی ٹھوک ٹھوک کہہ رہے ہیں کہ ہم اتنے ہی پکے بھارتی اورمحب وطن ہیں جتنا کہ کوئی اور ہو سکتا ہے ‘ بھارتی شہریت کوئی نہیں چھین سکتا۔ چھٹا‘بھاجپا اور آر ایس ایس کی امیدوں کے بر خلاف ہندو مسلم فرقہ واریت کا دائو ناکام دکھائی پڑ رہا ہے ۔ساتواں‘ بھاجپا کے عام کارکن بھی محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے لیڈروں نے گھر بیٹھے یہ کیسی مصیبت مول لے لی ہے ۔نئی سرکار نے اپنے گلے میں یہ سانپ کیوں لٹکالیا ہے ؟کون سے مسلم پناہ گیر بھارت میں پناہ مانگنے آ رہے ہیں ؟ایک عفریت نے بھارت میں کہرام مچارکھا ہے ۔
میانمار کے گرد چینی گھیرا 
سری لنکا کے بعد 17 جنوری کو چینی صدر شی جن پنگ نے میانمار کا دورہ کیا۔ میانمار میں اپنے دوروزہ قیام کے دوران انہوں نے33 باہمی معاہدوں پر دستخط کیے ۔ میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی کا بیان دھیان دینے لائق ہے ۔اس میں کہا گیا ہے کہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ پڑوسی ملک (میانمار )کے پاس اس کے سواکوئی آپشن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک (چین)کے ساتھ اس وجود کے ساتھ آخر تک کھڑا رہے۔کیا خوب ‘یہ وہی میانمار یا برماہے ‘جس نے اپنی مشرقی سرحدوں پر بسے چینی نژاد لوگوں کی بغاوت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی اور کچھ برس پہلے تک چین کے ساتھ اس کا تنائو بنا ہوا تھا ‘لیکن چینی سرکار نے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں میانمار کی مدد کی اور بنگلہ دیش اور اس کے بیچ ثالثی کا کردار ادا کیا ‘جس نے ان دونوں ملکوں کے بیچ جذبات اورگہرائی میں اضافہ کر دیا ۔اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی ملک میانمار کے روہنگیا پناہ گیروں کے سوال پر اس کی سخت الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں‘ لیکن چین اس کی ڈٹ کر حمایت کر رہا ہے ۔میانمار سے بھاگے ہوئے سات لاکھ چالیس ہزار پناہ گیروں کے سوال پرچین کا صاف صاف کہنا ہے کہ وہ میانمار کی خودمختاری کا پورا پورا احترام کرتا ہے اور اس علاقے میں امن اور انتظام بنائے رکھنے کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے بدلے میں میانمار چین کو سیدھے ہندی سمندر تک پہنچنے کا راستہ دے رہا ہے ۔لگ بھگ سواارب ڈالر خرچ کر کے چین اب میانمار کے علاقہ کیوکھفیو میں ایک اکانومی راستہ بنا رہا ہے ‘جس کے ذریعے وہ خلیج فارس سے تیل اور گیس لا سکے گا ‘اسے انڈمان نکوبار کا چکر نہیں لگانا پڑے گا۔ پاکستان کے گوادر‘ سری لنکا کے ہمبن ٹوٹا اور میانمار کے کیوکھفیوسے چین بحرہندمیں اپنے لیے سمندری راہداری کھڑی کر لے گا۔وہ میانمار‘ بنگلہ دیش میں گیس اور تیل کی پائپ لائنیں بھی ڈال رہا ہے ۔ان سہولیات کی اپنی جنگی اہمیت بھی کم نہیں ہے ۔بھارت کے پڑوسی ملکوں میں چین کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے‘ لیکن انہیں یہ بھی پتا ہے کہ وہ چین کے قرضدار بنتے جا رہے ہیں ۔
یورپ میں بھارت کی مخالفت
یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں آئندہ دنوں میں بھارت کی ڈٹ کر مذمت ہونے والی ہے ۔اس کے 751 ممبروں میں سے 600 سے بھی زیادہ نے جوقراردادیورپی پارلیمنٹ میں رکھی ‘اس میں ہمارے نئے شہریت بل اور مقبوضہ کشمیر سے آئین کا آرٹیکل 370 ہٹنے کی مذمت کی گئی ہے ۔جن پارلیمنٹ ممبر وں نے اس قانون کو بھارت کااندرونی معاملہ مانااور بھارت کی مذمت نہیں کی ہے انہوں نے اپنی قرارداد میں کہا ہے کہ پاکستان ‘بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں میں مذہبی فرق نہیں کیا جانا چاہیے ۔میری خود کی رائے بھی یہی ہے‘ لیکن میں یہ بھی مانتا ہوں کہ یورپی ارکان پارلیمنٹ کو کسی ملک کے معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ہے ۔وہاں یہ قرارداد ایک پاکستانی نژاد ممبر کے مشن کے سبب لائی جا رہی ہے۔اسی لیے ان قراردادوں میںبھارت کے خلاف سخت ترین الفاظ کااستعمال کیا گیا ہے ۔ہمارے لوک سبھا کے صدر اوم برلا نے اس سے متعلق یورپی یونین کے صدر کو خط بھی لکھا ہے ۔مان لیں کہ مارچ میں یورپی یونین ان قراردادوں کو پاس کر دیتی ہے تو بھی کیا ہوگا ؟بھارت کی پارلیمنٹ بھی چاہے تو یورپی یونین کے خلاف قراردادپاس کر سکتی ہے‘ لیکن ہم بھارتیوں کویورپی لوگوں کی ایک مجبوری کو سمجھنا چاہیے کہ ہٹلر کے زمانے میں یہودیوں پرجوظلم ہوئے تھے ان سے آج بھی کانپے ہوئے یورپی لوگ دوسرے ملکوں کے واقعات کو اسی چشمے سے دیکھتے ہیں۔اس وقت یورپی ملکوں کے ساتھ بھارت کی تجارت سب سے زیادہ ہے ۔مارچ میں بھارت اور یورپی یونین کی بیٹھک ہونے والی ہے ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں کے درمیان یہ قرارداداڑنگا بن جائے۔اس سے دونوں کابہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے ۔اسی لیے فرانس کی ایمبیسی نے کہا کہ یورپی پارلیمنٹ کی رائے کو یورپی یونین کی فائنل رائے نہیں مانا جا سکتا ۔اگر ایسا ہے ‘تو یہ اچھا ہے ‘لیکن بھارت سرکار چاہے تو اگلے ہفتہ شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے سیشن میں نئے شہریت بل میں ترامیم کر سکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں