"DVP" (space) message & send to 7575

اب بھی بھول سدھار کا موقع

وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں گزشتہ دنوں جو بھاشن دیا تھا ‘ اس سے بھارت کے مسلم مطمئن ہوں گے یا نہیں ‘یہ کہنا مشکل ہے‘ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ یہ بھاشن دلچسپ تھا ۔اپوزیشن لیڈروں نے بھی کچھ دلائل اچھے دیے‘ لیکن مودی کے سامنے کوئی بھی ٹک نہیں سکا ۔بھارت کی اپوزیشن کتنی کمزور ہے ‘ یہ ایوان کی اس کارروائی کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے ۔ ساری بحث کا مرکزی مدعہ تھا نیا شہریت قانون( سی اے اے) اور شہریت رجسٹریشن‘ لیکن اپوزیشن صرف اکانومی کا ڈھول پیٹتی رہی ۔ اس کی ساری طاقت یہ بتانے میں لگی رہی کہ سرکار نے شہریت بل کا پٹاخہ اسی لیے پھوڑا ہے کہ عوام کا دھیان اس کی اکانومی مشکلات سے موڑ دیا جائے ۔یہ اندازہ ٹھیک ہو سکتا ہے‘ لیکن اس میں شہریت قانون کے مخالفین نے کیا ایسے دلائل دیے ہیں جنہیں ہم ٹھوس کہہ سکیں یا جنہیں سن کر سرکار اس قانون میں مناسب ترمیم کرنے کے لیے تیار ہو جائے ؟ وزیر اعظم نے یہ کہہ تو دیا ہے کہ اس نئے قانون سے کسی بھی بھارتی مسلمان کو کوئی نقصان نہیں ہونے والا ‘لیکن میں پوچھتا ہوں کہ یہی بات مودی اور امیت شاہ مسلمان لیڈروں کو بلا کر ان سے کیوں نہیں کہتے اور اس حوالے سے ان کے تحفظات دور کیوں نہیں کرتے ؟حکمران ملک میں پیدا ہوئے درجنوں شاہین باغوں میں جاکر مظاہرین سے سیدھی بات چیت کیوں نہیں کرتے؟ جن ارکانِ پارلیمنٹ نے اس قانون کے حق میں ووٹ دیا ہے ‘کیا انہوں نے ذرا بھی سوچا ہوگا کہ یہ اتنا مسئلہ کھڑا کر دے گا اور یہ ادھ مری اپوزیشن میں جان ڈال دے گا ؟ایسا اس لیے ہوا ہے کہ آسام میں انیس لاکھ لوگوں کی شہریت بیچ میں لٹک گئی ہے ۔مسلمانوں کولگ رہا ہے کہ کہیں سارا بھارت آسام نہ بن جائے ۔مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی ڈر گئے ہیں ‘کیونکہ آسام میں شہریت فہرست کے باہر والوں میں لاکھوں ہندو بھی شامل ہیں اور وہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہیں ۔پڑوسی ملکوں کے پناہ گزینو ںکو پناہ دینے کی مخالفت کوئی بھی نہیں کر رہا ‘ لیکن اس میں مسلمانوں کا نام ہٹا دینے سے غلط فہمی کا بازار اپنے آپ گرم ہو گیا ہے ۔یہ غلط فہمی ہر لحاظ سے تشویشناک ہے ۔دلی کے چنائو نے اسے مزید واضح کر دیاہے جہاں ابتدائی انتخابی جائزوں کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کی دائیں بازو کی انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بھاری شکست کا سامنا ہے۔انتخابی نتائج کے بارے میں نو مختلف اداروں کے جائزوں کے مطابق عام آدمی پارٹی کو ان انتخابات میں 52 سے 70 نشستیں ملنے کی توقع ہے۔ان نتائج کو دیکھتے ہوئے سرکار کے پاس اب بھی بھول سدھار کا موقع ہے۔ 
یورپی یونین کا لڑکھڑانا
یورپی یونین اور گریٹ برطانیہ 31 جنوری کو الگ ہو گئے ہیں ۔اس کے الگ ہونے کے عمل میں دو وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور تھیریسا مے کومستعفی بھی ہونا پڑاہے ‘لیکن وزیر اعظم بورس جانسن کو اس تاریخی قدم کا کریڈٹ ملے گا کہ انہوں نے برطانیہ کو یورپ کی غلامی سے 'آزاد‘کروا دیا۔ اسے لاکھوں انگریزوں نے لندن میں مظاہرہ کر کے 'آزادی ‘کیوں کہا؟کیونکہ وہ ماننے لگے تھے کہ برطانیہ گزشتہ 47 سال سے یورپ کا یتیم خانہ بنتا جا رہا تھا ۔یورپی یونین کے 28 ملکوں میں سے کسی بھی ملک کے باشندے برطانیہ میں بے روک ٹوک آجاسکتے تھے ‘وہاں رہ سکتے تھے ‘نوکری اور تجارت کر سکتے تھے ۔ان ملکوں اور برطانیہ کے بیچ بنا کسی دبائو کے کھلی تجارت ہو سکتی تھی ۔برطانیہ کیونکہ یورپ کے سبھی ملکوں میں سب سے مالدار اور طاقتور ملک ہے ‘اس لیے اس کی نوکریوں پر دیگر یورپی یونین کے لوگ آکر قبضہ کرنے لگے تھے ۔سستی پگھار پر کام کرنے والے یہ لوگ انگریزوں کو عہدوں سے ہٹاتے جا رہے تھے ۔اسی طرح دیگر ملکوں کی سستی مزدوری پر بنی ہوئی چیزیںبرٹش بازاروں کوبھرتی جا رہی تھیں۔اسی لیے بریگز ٹ پر برطانیہ کے عوام خوشیاں منا رہے ہیں ‘لیکن بریگزٹ کو لے کر جو رائے شماری ہوئی تھی ‘اس میں اگر 52 فیصد ووٹروں نے یورپی یونین چھوڑنے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا تو 48 فیصدنے اس میں شامل رہنے پر بھی اتفاق کیا تھا‘کیونکہ ہزاروں برطانوی شہری ان یورپی ممالک میں بنا پاسپورٹ اور ویزا آتے جاتے رہتے تھے ‘نوکریاں اور تجارت کرتے تھے ۔اسی لیے ناردرن آئرلینڈکے لوگوں نے بریگزٹ کے خلاف ووٹ بھی دیے تھے‘لیکن اب جبکہ بریگزٹ نافذ ہوگیا ہے تو کیا آنے والے وقت میں یورپی یونین اور برطانیہ کے تعلقات پہلے جیسا رہے گا یا نہیں؟ اس کی وضاحت اگلے چند ماہ کے دوران ہو جائے گی کیو نکہ اس بیچ دونوں یہ طے کریں گے کہ برطانیہ اورباقی ستائیس یورپی ملک کے بیچ دوطرفہ باہمی تعلقات کیسے رہیں گے ‘کیسے انہیں چلایا جائے گا ۔حقیقت میں یورپی یونین کا امتحان اب شروع ہے ۔ ہمارے لیے یہ فکر کی بات ہے ‘کیونکہ ہم تو سارے جنوب ایشیا کے ملکوں کایورپی یونین سے بھی بہتر اتحاد بنانا چاہتے ہیں۔اس واقعہ سے بھارت کو سبق لینا چاہیے ۔بھارت کے پڑوسی ملکوں کے حالات یورپی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ توجہ طلب ہیں ۔سوچنا چاہیے کہ کیا سارک کو بھی کبھی اسی طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرناپڑسکتا ہے ‘حالانکہ سار ک نے 35 برس کے ہو جانے کے باوجود ابھی تک گھٹنوں کے بل چلنا بھی نہیں سیکھا ہے ۔ 
بجٹ اچھا لیکن کنفیوژن بھرا
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جو بجٹ پیش کیا ہے ‘اس پر اقتصادیاتی ماہر لوگ الگ الگ رائے ظاہرکر رہے ہیں ۔وزیرخزانہ کے ڈھائی گھنٹہ لمبے بھاشن میں لگ بھگ ہر علاقے کے لوگوں کو طرح طرح کی رعایات دی گئی ہیں ۔مڈل کلاس کے لوگ اس بات سے بہت خوش ہیں کہ ٹیکس چارج کافی کم کر دیا گیا ہے‘ لیکن وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ گزشتہ بجٹ میں جو رعایات ملی ہوئی تھیں ‘ان کے بارے میں وزیر خزانہ نے کچھ نہیں بتایا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ جنہیں نیا بجٹ پسند نہیں ہے وہ پرانا آپشن بھی چن سکتے ہیں۔ ایسا کہنے میں تو کوئی لفظی چالاکی تونہیں چھپی ہوئی ہے ؟اسی طرح وزیر خزانہ نے یوں تو کسانوں‘چھوٹے تاجروں ‘ صنعتکاروں اوربیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بہت سی رعایات کا اعلان کیا ہے‘ لیکن ڈر یہی ہے کہ کہیں انہیں لیتے وقت عام شہری کو کوئی پریشانی نہ ہو ۔کسانوں کو بڑے پیمانے پر قرض دینے کی بات کہی گئی ہے ‘تمام اضلاع کی پیداوار بڑھانے کاعزم کیا گیا ہے اور وہاں ہسپتال اور میڈیکل کالج کھولنے کا بھی عزم ظاہر کیا گیا ہے ‘سو نئے ہوائی اڈے بنانے ‘کئی تہذیبی عجائب گھر کھولنے ‘ سیاحت کو فروغ دینے ‘سکل ڈیویلپمنٹ بڑھانے جیسے عزائم بھی ظاہر کیے گئے ہیں‘ لیکن پورا بجٹ بھاشن سننے کے بعد بھی یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ان سب کاموں کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ َسرکار کی آمدنی بڑھانے کے طریقوں کا سراغ کہیں دکھائی نہیں پڑ رہا ہے ۔یہ بھی نہیں معلوم پڑرہاکہ کروڑوں نئے روزگار کیسے پیدا ہوں گے ؟پانچ ٹریلین کی اکانومی کیسے بنے گی؟وزیرخزانہ نے یوں تو کافی اچھا دکھائی پڑنے والا بجٹ پیش کیا ہے‘ لیکن اقتصادی مورچے پر سرکار کی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے ملک کے عام آدمی ابھی بھی کنفیوژن میں پڑے ہوئے ہیں ۔
یہ بھی نہیں معلوم پڑرہاکہ کروڑوں نئے روزگار کیسے پیدا ہوں گے ؟پانچ ٹریلین کی اکانومی کیسے بنے گی؟وزیرخزانہ نے یوں تو کافی اچھا دکھائی پڑنے والا بجٹ پیش کیا ہے‘ لیکن اقتصادی مورچے پر سرکار کی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے ملک کے عام آدمی ابھی بھی کنفیوژن میں پڑے ہوئے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں