طالبان کے ساتھ امریکہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جیسے ہی معاہدہ کیا ‘میں نے لکھا تھا کہ'' کانی کے بیاہ میں سو سو جوکھم‘‘ ۔لیکن ہماری بھارت سرکار نے اس کا بھرپور خیرمقدم کیا تھا ۔ہمارے خارجہ سیکرٹری معاہدے کے ایک دن پہلے کابل پہنچ گئے تھے ۔ وہ صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے بھی ملے‘ لیکن وہاں جاکر انہوں نے کیا کیا ؟ہماری وزارتِ خارجہ گزشتہ سال بھر سے افغانستان کو لے کر خراٹے نہیں کھینچ رہا کیا ؟اس نے یہ پتا کیوں نہیں لگایا کہ ٹرمپ کے نمائندہ ڈاکٹر زلمے خلیل زاد اور طالبان لیڈر عبدالغنی براد رکے بیچ کیا بات چیت چل رہی ہے ؟ان کے مدعے کیا ہیں ؟ ہماری سرکار ہمارے سیاستدانوں اور جاسوسوں پر کروڑوں روپے روز خرچ کر رہی ہے‘ لیکن وہ اتنی سی بات کا پتا بھی نہیں لگا پائے ۔کیا وہ ٹرمپ کے جھانسے میں آگئے ؟ ٹرمپ کو اپنا چنائو جیتنا ہے ‘اسی لیے امریکی فوجوں کو افغانستان سے واپس بلانا ہے‘ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے ‘انہیں چنائو جتانے کے لیے احمد آباد اور ہیوسٹن میں بھیڑ جٹا کر کروڑوں روپے ان پر خرچ کرتے رہے اور افغانستان میں بھارت کے مفادات کی ان دیکھی ہونے دیتے رہے۔طالبان کے ساتھ ہوئے سمجھوتے میں امریکہ نے اپنے مفادات کی پوری طرح سے حفاظت کی ہے‘ لیکن بھارت کے مفادات کا ذکر تک نہیں ۔
افغانستان کی دوبارہ تعمیر میں بھارت نے جتنا پیسہ لگایا ہے ‘دنیا کے کسی ملک نے نہیں لگایا ۔ہمارے قونصلیٹ اور زرنج دلارام روڈ پر ہمارے درجنوں انجینئروں ‘سفیروں اور مزدوروں کو قربان ہونا پڑا ہے ۔ کیا طالبان کے کابل پر قابض ہوتے ہی بھارت کو وہاں سے بھاگنا نہیں پڑے گا ؟ایک نادانی بھرا مشورہ یہ ہے کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد اس خلا کی بھارت کی فوجیں بھریں ۔بھارت یہ کبھی نہیں کرے گا ۔ اسے یہ کبھی نہیں کرنا چاہیے ۔جنوری 1981 ء میں وزیر اعظم ببرک کارمل نے روسی فوجوں کے بدلے بھارتی فوج کی مانگ کی تھی ۔ یہ مانگ اچھے ڈھنگ سے آتی ‘اس کے پہلے ہی میں نے ببرک سے پہلی ملاقات میں ناممکن ثابت کر دیا تھا ۔امریکی حکام بھی یہی کوشش کرتے رہے ۔اب بھی کریں گے ۔ بھارت خبردار رہے ‘یہ ضروری ہے ۔ہو سکتا ہے کہ افغانستان دوبارہ جنگ میں پھنس جائے ۔طالبان کی اسلامی امارات اور کابل سرکار میں تلواریں کھنچ جائیں ۔ اس معاہدے کی اینٹ اکھڑنی شروع ہو گئی ہے۔ اس کا فائدہ پاکستان کو ضرور ملے گا ‘لیکن بھارت ابھی خالی کھٹ ہے ۔اس کے پاس فی الحال کوئی طے شدہ پالیسی ہے ‘ایسا نہیں لگتا ۔جنوب ایشیا کا سب سے بڑا ملک بغلیں جھانکتا رہے ‘یہ ٹھیک نہیں ۔
دلی میں دنگے:بے حال سیاست
دلی میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے بیچ اس طرح کا دنگا ہو سکتا ہے ‘اس کااندازہ ہی ہماری جمہوریت کو داغدار کرنے کے لیے کافی ہے۔1984 ء میں ضرور سکھوں کے خلاف خطرناک لہوکی ندی بہی تھی ‘لیکن وہ ایک طرفہ تھی اور اس کی پیچھے وزیر اعظم اندرا گاندھی کاقتل تھا ‘لیکن گزشتہ دنوں میں جودنگے بھڑکے ہیں ‘ان کے پیچھے وجوہ کیا ہیں؟دلی کا شمالی مشرقی علاقہ اپنے بھائی چارے اور میل جول کے لیے مانا جاتا ہے ۔گزشتہ 36 برس میں کہیں بھی دو طبقوں کے بیچ ایسا نہیں ہوا کہ لوگ پستول‘تلواریں اور لاٹھیاں لے کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے ہوں ۔ جہاں تک رجسٹریشن (این سی آر )اور سی اے اے کا سوال ہے ‘ان کی مخالفت دلی میں ہی نہیں ‘ملک کے کئی شہروں میں ہو رہی ہے‘ لیکن کہیں سے بھی تشدداور توڑ پھوڑ کی خبر یں نہیں آ رہی ہیں ۔جتنے پر امن طریقے سے دھرنے اور مظاہرے ہو رہے ہیں ‘ ان میں سے گاندھی جی کے ستیا گرہ کی خوشبو آ رہی ہے۔ملک کے ہر ایک فرد کو ‘چاہے وہ درست ہو یا غلط ‘ اس طرح مظاہرے کا پورا حق ہے ۔لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دونوں قوانین کی حمایت میں سبھائیں اور مظاہرے کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ ایوان نے اکثریت سے اس بل کو پاس کیا ہے۔سرکار اب تک اس پر ڈٹی ہوئی ہے۔ اس کی حمایت میں کچھ لیڈروں کو نہایت ہی تیز بھاشن دینے کی ضرورت کیا تھی؟اگر اس کا کوئی حامی ہونا چاہے تو ضرورہو‘لیکن اس کی مخالفت کرنے والوں کو غدار کہنا ‘ان کو گولی مارنے کا نعرہ لگوانا ‘ ان کو قاتل کہنا‘ آخر کیا ہے ؟ جو تحریک ہندو مسلم اتحاد کی مثال بن رہی تھی‘ اسے اب فرقہ واریت کی صورت دینے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟اس پر وہ لیڈر سنجیدگی سے غور کریں‘جن کے چیلوں نے اپنے جوش میں اپنا ہوش کھو دیا ۔ وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ان کے زہریلے خیالات آہستہ آہستہ اس انجام کو پہنچ رہے ہیں ۔تعجب تو اس بات کا ہے کہ وزیر داخلہ اور دلی پولیس کو اس انہونی کا ذرا سا بھی اندازہ نہیں ہوا ۔
جمنا پار کے علاقہ کی پولیس کھڑی کھڑی دیکھتی رہی اور ہتھیار بند غنڈے نہتے لوگوں کو قتل کرتے رہے ۔گھروں ‘دکانوں اور گاڑیوں کو پھونکا جاتا رہا ۔اور پولیس ہاتھ باندھے کھڑی رہی ۔یہ کسی جنگل یا گاؤں کی نہیں‘دلی کی پولیس ہے ۔سب سے اچھی تربیت ‘ہتھیار اور سہولیات سے لیس‘ دلی کی پولیس کا یہ سلوک حیرت انگیز ہے۔ یہ وہی پولیس ہے ‘جس نے جامعہ ملیہ کی لائبریری میں زبردستی گھس کر طالب علموں کی پٹائی کی تھی اور جس نے جے این یو کے شاگردوں پر حملہ کرنے والے غنڈوں کی ان دیکھی کی تھی‘ اس کے معنے کیا ہیں ؟کیا یہ نہیں کہ ہماری پولیس خود مختار نہیں ہے ؟ وہ اپنے اصولوں کے مطابق سیدھی کارروائی کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے ۔وہ لیڈروں کے حکم کی یا تو راہ دیکھتی رہتی ہے یا پھر ان کے بنا کہے ان کے رجحان کو سمجھ لیتی ہے ۔دلی کی ان دنگوں میں ناکام ہوئی پولیس خود مجرم ہے ۔اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ امریکی صدر کے دلی قیام کے سبب مصروف رہے ہوں گے اور دنگوں پر دھیان نہ دے پائے ہوں گے‘ لیکن وزارتِ داخلہ کے دوسرے وزیر اور افسر کیا کر رہے تھے ؟دلی کے گورنر کیا کر رہے تھے؟دلی میں قانون کی ذمہ داری ان کی ہے ۔اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ کہ کسی بھی پارٹی کا کوئی بھی لیڈر دنگے میں مبتلا علاقے میں پانچ منٹ کے لیے بھی نہیں گیا ۔دونوں طرفین سے امن کی اپیل خود جا کر کسی نے بھی نہیں کی‘ یہ وہی لیڈر ہیں جو ووٹوں کے لیے گلی گلی ‘گھر گھر جاکر لوگوں کے تلوے چاٹتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ اب دنگے ختم ہو گئے ہیں لیکن ہسپتالوں سے ہلاک ہونے والوں کی جو خبریں آ تی رہی ہیں وہ دہلا دینے والی ہیں ۔لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف جس کارروائی کا تعارف دیا ہے ‘وہ ہمیں انسان نہیں ‘حیوان بنا دیتی ہے ۔دلی شہر میں اگر یہ ہو سکتا ہے تو ہماری 73 برس کی آزادی ‘ جمہوریت اور تہذیب کے ماتھے پر لگا یہ کالا ٹیکا ہے ۔
ایسا نہیں کہ حادثے پر سبھی آئینی ادارے خاموش ہو گئے ہیں ۔سب سے سے زیادہ رائے دلی کے ہائی کورٹ کی رہی ‘ جس نے دلی پولیس اور حکام کوکھچائی کر دی ہے ۔جج ایس مرلی دھر کی ہمت کی داد دی جانی چاہیے ‘جنہوں نے دوٹوک الفاظ میں پولیس اور حکام کو ڈانٹ لگائی ہے ۔انہوں نے سرکاری وکیل کو پھٹکارتے ہوئے پوچھا ہے کہ کیا دلی میں 1984 ء کے واقعہ کو دہرانا چاہتے ہیں ؟پولیس نے ان وزرا ‘ایم پیز ‘ایم ایل ایز اورلیڈروں کے خلاف ابھی تک ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی‘جنہوں نے بھڑکائو بھاشن دیے تھے؟وہ لیڈر ‘جنہیں سکیورٹی ملی ہوئی ہے ‘وہ دنگے والے علاقوں میں کیوں نہیں گئے ؟جج مرلی دھر نے سرکار کی جانب بات رکھ رہے سولسٹرجنرل تشارمہتا کو بھاجپا کے ان چار لیڈروں کے بھاشن بھی عدالت میں سنوائے‘جو بھڑکائو تھے۔ان جج کا تبادلہ بھی ہوگیا ۔اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟