پاکستان کے نامور سیاست دان ڈاکٹر مبشر حسن گزشتہ دنوں لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ 98 برس کے تھے۔ ان کی پیدائش پانی پت (ہریانہ) میں ہوئی تھی۔ وہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سرکار میں وزیر خزانہ تھے لیکن ان کی قابلیت‘ سادگی اور محنت ایسی تھی کہ سارا پاکستان ان کو نائب وزیر اعظم کی طرح دیکھتا تھا۔ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ان کے گھر (گلبرگ‘ لاہور) میں رکھی گئی تھی۔ وہ اپنی چھوٹی سی ووکس ویگن کار میں ہی بٹھا کر بھٹو صاحب کو ہوائی اڈے سے اپنے گھر لائے تھے۔ اسی کار میں اسی سیٹ پر بیٹھ کر میں بھی مبشر صاحب کے ساتھ لاہور کے ہوائی اڈے سے کئی بار ان کے گھر پہنچا تھا۔ ان کے بارے میں لوگوں کا خیال یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات سے کمیونسٹ تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی کے آخری تیس سال بھارت اور پاکستان کے رشتوں کو بہتر بنانے میں لگا دیے تھے۔ وہ مجھ سے بیس سال بڑے تھے لیکن ان کے میرے بیچ دوستی ایسی ہو گئی تھی‘ جیسی ہم عمر لوگوں کے بیچ ہوتی ہے۔ میں جب ان کے گھر ٹھہرتا تو وہ اور ان کی بیگم ڈاکٹر زینت حسن مکمل سبزی خور ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر زینت کو میں تائی جی بولتا اور ان دونوں کے پائوں چھوتا تو وہ ہنس کر بولتے: آپ یہ ہندوانہ حرکت کیوں کر رہے ہیں؟ پاک بھارت دوستی کے وہ اتنے بڑے وکیل تھے کہ ہر برس بھارت آتے تھے اور میرے ساتھ سبھی بھارتی وزرائے اعظم سے ملنے جاتے رہے تھے۔ میرے ساتھ وہ اپنے شاگرد اور پاکستان کے صدر فاروق لغاری سے ملنے تو جاتے لیکن بے نظیر بھٹو‘ نواز شریف اور دیگر وزرائے اعظم سے ملنا انہیں پسند نہیں تھا۔ وہ اختلافات کے سبب ذوالفقار علی بھٹو کی سرکار سے مستعفی بھی ہو گئے تھے۔ بعد میں فوجی سرکار نے انہیں سات برس تک جیل میں بھی ڈالے رکھا۔ وہ بعد میں بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی پارٹی میں متحرک ضرور ہوئے تھے‘ لیکن وہ ایسے کام کرتے رہے جیسے پاکستان کے جے پرکاش نارائن ہوں۔ سبھی جمہوری تحریکوں کی وہ ڈٹ کر حمایت کرتے تھے۔ وہ جانے مانے انجینئر تھے۔ انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی تھے۔ انہوں نے کئی اہم کتابیں بھی لکھیں۔ وہ پاکستان ہی نہیں‘ پورے جنوبی ایشیا کے رتن تھے۔ پورے جنوبی ایشیا کو اپنی فیملی سمجھنے والے یہ عظیم عوامی لیڈر اب ہمارے بیچ نہیں رہے۔ انہیں میرا خراج تحسین!
بھارت میں کورونا کی مہربانی
کورونا وائرس نے دنیا بھر میں جیسی تھرتھلی مچائی ہوئی ہے ویسا انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ وائرس 155 ملکوں میں پھیل چکا ہے۔ ہزاروں لوگ مر رہے ہیں اور لاکھوں کروڑ پتی ہو گئے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیونکہ دنیا بہت چھوٹی ہو گئی ہے۔ کچھ ہی گھنٹوں میں آپ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتے ہیں۔ چین میں پیدا ہوا یہ وائرس اب ساری دنیا کو پریشان کر رہا ہے۔ بھارت میں بھی تین افراد کی موت ہو چکی ہے۔ موت کے ان واقعات نے سارے بھارت میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بھارت سرکار نے تو بہت پہلے سے ہی تگڑا انتظام کیا ہوا ہے‘ لیکن اب عوام کے کان بھی اب کھڑے ہو رہے ہیں۔ سکول‘ کالج‘ میلے‘ اجتماع‘ جلوس وغیرہ اپنے آپ ملتوی ہو رہے ہیں۔ غیر ملکیوں کو بھارت نہیں آنے دیا جا رہا ہے۔ بھارتی لوگوں نے بھی بیرونی دورے وغیرہ کم کر دیے ہیں۔ آیوروید‘ یونانی اور ہومیوپیتھک کے ڈاکٹروں نے طرح طرح کے نسخے پیش کر دیے ہیں۔ ایلوپیتھک ڈاکٹرز بھی کورونا کے مریضوں کی مناسب دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ لوگوں نے گوشت کھانا فی الحال کافی حد تک کم یا بند کر دیا ہے۔ گوشت سستے ہو گئے ہیں اور سبزی مہنگی ہو گئی ہے۔ بازاروں میں عجیب سی ٹھنڈک سما گئی ہے۔ شیئر بازاروں کے دام گر گئے ہیں۔ بھارت میں اس وائرس کا قہر زیادہ نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بھارت بنیادی طور پر ایک سبزی خور ملک ہے۔ جو ملک نہایت صاف‘ خوش حال‘ صحت مند اور ترقی یافتہ مانے جاتے ہیں‘ جیسے اٹلی‘ جرمنی‘ امریکہ وغیرہ‘ وہاں اس وائرس کے پھیلنے کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟ اس پر میڈیکل والوں کو تحقیق کرنی چاہیے۔ بھارت میں تو موسم بھی اب گرم ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیے شاید ہم بچے ہوئے ہیں۔ بھارت کی ''نمستے‘‘ ساری دنیا میں مشہور ہو رہی ہے۔ اگر نریندر مودی کچھ دنیاوی لیڈروں کو اقدامات کی نصیحت کریں اور سبھی بھارتیوں کو بھی اس کے لیے تیار کر سکیں تو سارے ملک کی آب و ہوا آلودگی سے صاف ہو جائے۔ کورونا کا رویہ ابھی تک تو بھارت کے لیے کافی مہربان رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایلوپیتھک لیبارٹریاں جلد ہی اس وائرس کا توڑ نکال لیں‘ بہرحال بھارتی سرکار اور عوام اپنے نسخے اپنے بیرونی دوستوں کو کیوں نہیں شیئر کرتے؟ اگر ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوا تو نقصان بھی نہیں ہو گا۔
مرار جی ڈیسائی کی یاد میں
گزشتہ دنوں بھارت میں مرار جی ڈیسائی کا یوم ولادت منایا گیا۔ انہیں 99 برس کی عمر ملی۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو سوا سو برس کی دہلیز پر کھڑے ہوتے۔ گاندھی جی اور مرار جی سو برس تک زندہ رہنا چاہتے تھے۔ مرار جی بھائی سے میرا گہرا تعلق رہا۔ وہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ‘ بھارت کے وزیر خزانہ‘ وزیر داخلہ‘ نائب وزیر اعظم اور وزیر اعظم بھی رہے۔ آج ممکن ہے بھارت میں انہیں کوئی یاد نہ کرتا ہو‘ ان کی یاد میں دہلی میں کوئی یادگار بھی نہیں ہے‘ بہرحال وہ بھارت کے چوتھے اور پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم تھے۔ وہ نہایت خوبصورت بھاشن دینے والے‘ ایماندار اور سادگی پسند تھے۔ وزیر اعظم تو کئی ہو چکے ہیں اور کئی ہوتے رہیں گے لیکن کوئی لیڈر مرار جی بھائی جیسا ہو‘ یہ آسان نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے انہیں یاد کرنا ٹھیک سمجھا۔ بھائی جی سے میرا تعارف 1964ء میں اندور میں ہوا تھا۔ انہیں‘ کرشن مینن‘ کیشو دیو مالوییہ اور کشمیر کے ایم پی عبدالغنی کو میں نے اندور کرسچین کالج کے سالانہ پروگرام میں بلایا تھا۔ 1965ء میں سٹوڈنٹ تحریک میں جیل کاٹ کر میں جب دلی آیا تو مرار جی بھائی سے اکثر ملاقات ہونے لگی۔ انہیں دنوں اپنے موجودہ صدر رام ناتھ کووند سے میرا تعارف ہوا۔ وہ ان دنوں بھائی جی کے نوجوان کی طرح کام کرتے تھے۔ جنوری 1966ء میں شاستری کی وفات کے بعد مرار جی نے وزیر اعظم کے لیے اپنا دعویٰ بول دیا۔ تارکیشوری سنہا اور میں نے کانگریسی اراکین پارلیمنٹ کے گھروں میں جا کر بھائی جی کے لیے اپیل کی لیکن اندرا جی نے ان کو ہرا دیا۔ ان دنوں میں انڈین سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں عالمی سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ مجھے ہاسٹل کا پہلا صدر چنا گیا۔ میں اس کے افتتاح کے لیے مرار جی کو بلا لایا۔ میرے کہنے پر مرار جی نے اپنا بھاشن ہندی میں دیا۔ اس پر سکول کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم ایس راجن نے پہلے میری سکالرشپ روک لی اور پھر مجھے سکول سے ہی نکلوا دیا۔ اس معاملے نے اتنا طول پکڑا کہ کئی بار ایوان بند ہوا اور وزیر تعلیم چھاگلا صاحب کا استعفیٰ بھی ہوا۔ اندرا جی‘ کرپلانی جی‘ لوہیا جی اور اٹل جی سمیت سبھی بڑے لیڈروں نے میری حمایت کی‘ لیکن مجھے تعجب ہوا کہ مرار جی بھائی ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ لیکن 1970ء میں میری شادی کے موقع پر بھائی جی نے ممبئی سے ایک لمبی چٹھی لکھ کر مجھے نیک خواہشات کا پیغام بھیجا۔ ایک بار سونی پت میں ہم دونوں کا بھاشن ساتھ ساتھ ہوا۔ اس میں اتنی بدمزگی ہو گئی کہ میں نے ان کی کار میں بیٹھ کر دلی آنے سے منع کر دیا‘ لیکن بعد میں جب بھی ہماری ملاقات ہوتی‘ وہ بڑے احترام اور پیار کے ساتھ ملتے۔ وہ پکے گاندھی پرست تھے۔ ایک دن مشہور فلم سٹار نرگس جی میرے گھر کھانے پر آئیں۔ انہیں وزیر اعظم ڈیسائی کا فون آیا۔ وہ گئیں۔ لوٹ کر انہوں نے ہنس ہنس کر بتایا کہ مرار جی بھائی نے انہیں راجیہ سبھا میں نامزد کرنے سے اس لیے منع کر دیا کہ ان کی ساڑھی تو کھدر کی تھی لیکن بلائوز مل کے کپڑے کا بنا ہوا تھا۔ مرارجی بھائی کی دیگر کئی ذاتی یادیں میرے ذہن میں ہیں لیکن انہیں پھر کبھی لکھوں گا۔ آج تو ان کے جنم دن پر ان کو بس یاد کرنا تھا۔