"DVP" (space) message & send to 7575

کورونا: تالابندی میں نرمی

اب 20اپریل سے تالابندی میں ہونے والی چھوٹ سے عام آدمی کو راحت ضرور ملے گی ۔کروڑوں مزدوروں اور کسانوں کو آزادی ملے گی کہ وہ کارخانوں اور کھیتوں میں جاکر اپنا کام سنبھال سکیں ۔ یہ لوگ آجا سکیں ‘اس کے لیے انہیں سفر کی سہولیات بھی ملیں گی ۔اگر کھیتوں میں فصلوں کی کٹائی کروانی ہے اور کارخانوں میں روزمرہ کی چیزوں کی پیداوار شروع کرنی ہے تو سرکار کو آمدورفت کی چھوٹ بھی دینی ہی پڑے گی ۔اس طرح سڑکوں پر کھڑے لاکھوں ٹرکوں میں جان پڑ جائے گی۔ٹرک تو تبھی چلیں گے جبکہ پٹرول پمپ کھلیں گے ‘اسی طرح کھیتوں سے منڈیوں میں آنے والا اناج اور بازاروں میں پہنچنے والی سبزیوں اور پھلوں کو بیچنے کے لیے کیا دکانیں نہیں کھولنی پڑیں گی ؟دوسرے الفاظ میں کروڑوں لوگ جو اپنے گھروں میں بیٹھے تھے ‘ اب باہر آکر اپنا کام سنبھال لیں گے ۔جو مزدور بیچ میں لٹکے ہوئے ہیں ‘ان کے اپنے گھروں یا کارخانوں کی جانب لوٹنے کے لیے راستے اتر پردیش اور راجستھان کے وزرائے اعلیٰ نے کھول دیے ہیں ۔کئی دیگر صوبوں میں وزرائے اعلیٰ اس پہل کے نقش قدم پر چلیں گے ۔وفاقی سرکار نے اس پہل کی مخالفت نہیں کی ‘یہ اچھی بات ہے‘ لیکن کئی وزرائے اعلیٰ نے تالابندی میں ڈھیل دینے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے ۔اس وقت دہلی‘ اندوراور ممبئی جیسے شہروں میں کوروناکی وبا خطرناک ہو چکی ہے اور زوروں پر ہے۔ دوسرے الفاظ میں ملک کے الگ الگ علاقوں میں تالابندی پر سرکاریں اپنی اپنی پالیسی چلائیں گے۔ ان پالیسیوں کا کامیاب ہونا اس پر مدار رکھتاہے کہ عام لوگ خود پر کتنا قابو رکھتے ہیں ۔میں نے دو ہفتہ پہلے کچھ وزرائے اعلیٰ سے پلازما تکنیک اور کچھ وفاقی وزرا سے کچھ گھریلو نسخوں کا سہارا لینے کی بات کہی تھی اور ہون سامگری کے دھنوئے کے سائنسی استعمال کا مشورہ دیا تھا ۔اس پر کام بھی شروع ہوگیا ہے ۔اب تک لگ بھگ چار لاکھ لوگوں کی جانچ ہو چکی ہے ۔لاکھوں ماسک اب بازار میں آ گئے ہیں ۔کچھ بھارتی حکیموں ‘ڈاکٹر وں اور سائنس دانوں نے کورونا کا توڑ کھوج نکالنے کا بھی دعویٰ کیا ہے ۔بھارت کے کئی اضلاع میں ایک بھی کورونا مریض نہیں ہے ‘یہ بہت اچھی بات ہے‘ لیکن بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ ٹی وی چینل کوروناوبا میں مذہبی تصادم کو بھی گھسیٹ لا رہے ہیں ۔اس دوران جو لوگ ڈاکٹر اور نرسوں کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آ رہے ہیں ‘وہ اپنا اور اپنے لوگوں کا نقصان کر رہے ہیں ۔انہیں چاہیے کہ وہ آگے آ کر ہسپتالوں میں جانچ کروائیں تاکہ ان کے خاندان والوںیا دوستوں‘ رشتہ داروں کی بھی کورونا سے حفاظت ہو سکے ۔
کورونا :شکست کی شروعات
کوروناکو بھارت نے جیسی لگام ڈالی ہے وہ ساری دنیا کے لیے حیرانی کی بات ہو سکتی ہے ۔ساری دنیا میں اس وبا سے پونے دو لاکھ لوگ مر چکے ہیں اور 25 لاکھ کے قریب کورونا میں مبتلا ہیں ۔جن ممالک میں اموات کی شرح بھارت سے کئی گنا زیادہ ہے ‘ان کی آبادی بھارت کے مقابلے بہت کم ہے ۔اگر وہ ملک بھارت کے برابر بڑے ہوتے تو ہلاک ہونے والوں کا یہ آنکڑا ان ممالک میں بھارت سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ۔آج تک بھارت میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباًچھ سو ہے اور مبتلا کی تعداد 18 ہزار سے کچھ زیادہ ہے ۔ان میں سے متعدد لوگ ٹھیک ہو چکے ہیں ۔اگر بعض پارٹیوں کی جانب سے بے وقوفی نہ کی جاتی تو ابھی تک تالابندی کبھی کی ختم ہو گئی ہوتی ۔اب بھی پتا نہیں کیوں ‘ہمارے بعض لوگ افواہوں اور غلط فہمیوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔کوروناتو ان کو مار ہی رہا ہے ‘وہ خود بھی اپنے آپ کو موت کے کنویں میں دھکیل رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر لوگ سیدھی بات چیت کیوں نہیں کرتے ؟لگ بھگ ساڑھے تین سو اضلاع میں تو ایک بھی کورونا مریض نہیں ملا ہے ۔کچھ درجن اضلاع جن میں ممبئی ‘دہلی‘ اندور اورجے پور جیسے اضلاع بھی شامل ہیں ‘ میں ٹھیک وقت پر کارروائی ہو جاتی تو بھارت ساری دنیا کے لیے مثال بن سکتا تھا ‘ حالانکہ بھارت خوشحال ملک نہیں ہے ‘اس کی صحت سے متعلق خدمات اٹلی ‘فرانس اور امریکہ کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ کمزور ہیں ‘ اس میں صفائی کی بھی کمی ہے‘ اس کے باوجود بھارت میں یہ کورونا وائرس کیوں مات کھا رہا ہے ؟اس کابنیادی کریڈٹ بھارت کے عوام اور گراس روٹ لیول کے لیڈروں کو جاتاہے ۔ وفاق اور صوبائی سرکاروں نے جو تالابندی کا اعلان کیا ہے ‘اس کا لوگ تہ دل سے احترام کر رہے ہیں۔ کچھ ذرائع سے پھیلائی جا رہی افواہوں کو چھوڑ دیں تو سبھی مذاہب ‘سبھی ذات والوں ‘سبھی طبقوں ‘سبھی صوبائی حکومتوں اور سبھی پارٹیوں کے لو گ ایک جُٹ ہو کر کوروناکا مقابلہ کر رہے ہوں ۔اب کوروناکی جانچ کے آلات لاکھوں کی تعداد میں بھارت میں آ چکے ہیں ۔ہمارے ڈاکٹرز اور نرسیں جس بہادری اور قربانی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ‘ وہ ساری دنیا کے لیے مثال ہے ۔مگر یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ بعض جگہوں پر لوگ ان پر حملہ کر رہے ہیں ۔کونین کی دوائی اب بھارت سے دنیا کے55ممالک میں پہنچائی جا رہی ہے ۔ اب جلد ہی بھارت سرکار کسانوں‘ مزدوروں اور تاجروں کے لیے سبھی سہولیات مہیا کرنے والی ہے ۔ریزرو بینک نے ملک کے کام اور تجارت میں جان پھونکنے کے لیے پچاس ہزار کروڑ روپے کااعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کورونا کی شکست کا آغاز ہو چکا ہے۔
کورونا: لیڈر لوگ کہاں چھپے ہیں ؟
سرکار نے ممبرز آف پارلیمنٹ اور ودھان سبھا کے ممبرز کے فنڈز میں جو 30 فیصد کی کٹوتی کی ہے اور 10 کروڑ روپے ایم پی فنڈ پربھی روک لگا دی ہے ‘یہ نہایت ہی لائقِ تعریف اور عمدہ قدم ہے ۔ ویسے وفاق اور صوبائی سرکاریں کورونا میں مبتلا لوگوں کی بڑی خدمت کر رہی ہیں اور سرکار کے ذریعے اٹھایاگیا یہ قدم ہمارے لیڈروں کی عزت بچالے گا۔ کوروناجیسے مشکل وقت نے اگر کسی طبقے کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے تووہ ہمارے لیڈروں کو !ملک کے سماجی خدمتگار‘ مذہبی لیڈر ‘ذات کے بنیاد پراتحاد اور تہذیبی جماعتیں بھی ضرورت مند لوگوں کی دل وجان سے خدمت میں لگی ہوئی ہیں‘ لیکن ہمارے بعض لیڈر لوگ کہیں بھی دکھائی نہیں پڑ رہے ہیں ۔ایسا لگ رہاہے کہ بھارت کے یہ سیاست دان چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ مانو وہ سبھی نامعلوم جگہ پر غائب ہو گئے ہیں ۔کوئی لیڈر سڑکوں پر ‘محلوں میں‘ گلیوں میں جھونپڑ پٹیوں میں دکھائی نہیں پڑتا ۔نہ تو وہ بھوکے لوگوں کو کھانا کھلا رہے ہیں ‘نہ بیمار لوگوں کو ہسپتال پہنچا رہے ہیں اور نہ ہی وہ گھر سے باہر نکل کر لوگوں کو تالا بندی کی نصیحت دے رہے ہیں۔ وہ تالی‘ تھالی بجانے ‘بجلی بجھانے ‘دیا جلانے اور ٹی وی چینلوں پر رٹے رٹائے بیان دینے اور نوٹنکیاں کرنے کو ہی اپنا فرض سمجھ رہے ہیں ۔میں پوچھتا ہوں کہ بھاجپا کے گیارہ کروڑ ممبرز‘ کانگریس کے دو سے تین کروڑ اور صوبائی پارٹیوں کے لاکھوں ممبر کہا ںغائب ہو گئے ہیں ؟وہ ووٹ مانگنے تو گھر گھر جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں لیکن اب خدمت کا کام انہوں نے دوسروں کے سر مڑھ دیا ہے ۔وہ کیا لیڈر کہلانے کے لائق ہیں ؟آپ نے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں لیڈروں کے ایک سے ایک بناوٹی فوٹو دیکھے ہوں گے ۔وہ کیسے تھالیاں بجا رہے ہیں ‘کیسے دیے جلا رہے ہیں‘ کیسے دیوالی منا رہے ہیں ؟کیا آپ نے کسی لیڈر کو سڑک پر بھوکے مرتے ہوئے لوگوں پر آنسو بہاتے دیکھا ہے ؟اس مشکل وقت میں وہ عوام سے بڑی بڑی امیدیں لگائے ہوئے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ سب لوگ ان کی بات مانیں ۔وہ آج کے لعل بہادر شاستری بننے کی کوشش میں ہیں‘ لیکن وہ اپنے کرنے اور کہنے میں لال بہادر شاستری نہیں ‘گال بہادر شاستری ثابت ہو رہے ہیں ۔وہ اپنی پارٹیوں کے کارکنان کو خدمت گاروں سے کیوں نہیں ملاتے ؟ان پارٹیوں کے ترجمان ٹی وی چینلوں پر عوام کو کوروناجنگ جیتنے کے لیے نصیحت کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔ آگے کی نہیں سوچ رہے ہیں ‘باسی کڑھی اُبال رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں