"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت میں ہسپتالوں کی لوٹ مار

بھارت میں ایک طرف کورونا کا قہر نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور دوسری طرف ہمارے ہسپتال لاپروائی اور لوٹ مار میں ساری دنیا کو مات دے رہے ہیں۔ دہلی اور ممبئی سے کئی ایسی خبریں آ رہی ہیں جن پر یقین ہی نہیں آتا۔ کورونا کے مریضوں کو اور ان کے رشتہ داروں کو یہ کہہ کر ٹرخا دیا جاتا ہے کہ ہسپتال میں کوئی بستر خالی نہیں۔ دہلی کے ایک مریض کو‘ جو خود ڈاکٹر تھے، پانچ سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں نے ٹرخا دیا اور وہ اسی کوشش میں ہی دم توڑ گئے۔ ممبئی کے ایک مشہور و معروف ہسپتال کی سب سے اہم طبی اکائی (آئی سی یو) سے ایک بزرگ دوست مجھے کئی بار فون کر چکے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہیں لیکن اس ہسپتال نے انہیں کورونا کا مریض قرار دے کر زبردستی بھرتی کر لیا ہے۔ وہ ہلکے بخار کو دکھانے گئے تھے لیکن انہیں ہسپتال میں اس وجہ سے پھنسا لیا گیا ہے کہ اب ان سے لاکھوں روپے وصول کئے جائیں گے۔ دہلی میں بھی یہی حال ہے۔ ایک دو دوستوں نے بتایا کہ فلاں غیر سرکاری ہسپتال ان سے 5 سے 10 لاکھ روپے بطور ایڈوانس لے رہا ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں وہی علاج اور کمرے صرف چند ہزار روپے روزانہ پر مل جاتے ہیں۔ اسی معاملے پر آج کل سپریم کورٹ میں بھی بحث چل رہی ہے۔ عرضی گزار مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان نجی ہسپتالوں کو حکومت نے زمینیں مفت دی تھیں تو یہ اصول کے مطابق 25 فیصد مریضوں کا علاج مفت کیوں نہیں کرتے؟ یہ ٹھیک ہے کہ یہ بحران کا وقت ہے، ہسپتالوں کا خرچ زیادہ ہے اور ان کی آمدنی کافی گھٹ گئی ہے، اور وہ کسی طرح بھی اپنا خسارہ پورا کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن میری درخواست یہ ہے کہ اس بحران کے وقت وہ لوٹ مار کا بہانہ نہ بنائیں۔ یوں بھی بھارت کے نجی ہسپتال اور نجی تعلیم انسٹی ٹیوٹ، کچھ کو چھوڑ کر، خالص لوٹ مار کے اڈے بن چکے ہیں۔ اسی لیے چار پانچ سال پہلے میں نے لکھا تھا کہ تمام ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی، کونسلرز‘ سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں اور بچوں کی تعلیم سرکاری سکولوں اور کالجوں میں ہی ہونا چاہئے‘ تبھی ان اداروں کی سطح اور حالت میں سدھار پیدا ہو گا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے انہی الفاظ میں حکم بھی جاری کیا تھا۔ کورونا کی بیماری نے اس معاملے پر دوبارہ مہر لگا دی ہے۔ اگر نجی ہسپتال اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتے تو انہیں یقینا حکومت کو اپنے قبضہ و اختیار میں لے لینا چاہئے۔
سیاہ فام کے قتل پر بھارت کی خاموشی 
امریکہ کے ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے خلاف کتنے زبردست احتجاج ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں ایسی اتھل پتھل تو اس کی خانہ جنگی کے وقت ہی مچی تھی لیکن اس بار تو کینیڈا سے لے کر جاپان تک درجنوں ملکوں میں رنگ و نسل کے فرق کے خلاف آوازیں گونج رہی ہیں۔ برطانیہ اور یورپی ممالک‘ جو بنیادی طور پر گوروں کے ملک ہیں‘ میں بھی اتنے بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں‘ جتنے کہ امریکہ میں بھی نہیں ہو رہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کے صدور کے جلسوں میں جہاں دو چار ہزار آدمی اکٹھے کرنا مشکل ہوتا ہے‘ وہاں بیس‘ تیس ہزار لوگ نسل پرستی کے خلاف ان مظاہروں میں خود شامل ہو رہے ہیں۔ ان ممالک میں بھی بھارت کی طرح تالا بندی ہے اور کورونا مصیبت کہیں زیادہ ہے۔ پھر بھی پولیس اور فوج‘ دونوں ادارے ان مظاہروں کو روک نہیں پا رہے‘ لیکن بھارت‘ جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دی جاتی ہے‘ میں تو اسے سیاہ فام کے بے دردی سے قتل پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہم بھارتی لوگ کیا اتنے مطلبی اور پتھر دل لوگ ہیں؟ موجودہ سرکار ہمارے عوام کے ان کنبھ کرن خراٹوں سے خوش ہو گی‘ ورنہ کورونا کے ان بگڑتے دنوں میں ایک نیا پتھر اس کے گلے میں اٹک جاتا۔ بھارت کے عوام کے دل میں بھی درد ضرور ہے لیکن کورونا نے ان کے دل میں موت کا خوف اتنا گہرا جما دیا ہے کہ وہ غیر متوازن ہو گئے ہیں۔ امریکہ کے گورے لوگ مانگ کر رہے ہیں کہ وہاں کے پولیس والوں پر صوبائی سرکاریں پیسہ خرچ کرنا بند کر یں‘ کیونکہ گورے پولیس والے سیاہ فام لوگوں پر جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اگر پولیس کے مظالم کے خلاف کوئی بھی آواز اٹھاتا ہے تو پولیس والے اس کے خلاف طاقت کا بہیمانہ استعمال کرتے ہیں۔ ٹرمپ بھی بار بار پولیس اور فوج کے استعمال کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ان کی وزارت دفاع بھی ان کے ساتھ نہیں ہے۔ ان کی اپنی ری پبلکن پارٹی کے لیڈر اور کارکن ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن امسال نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کوشش ہے کہ اس مدعہ پر امریکہ کے اکثریتی گوروں کے ووٹ وہ اپنی جانب پٹا لیں۔ کورونا کے معاملہ میں ان کا بڑبولا پن تو انہیں بھاری پڑ ہی رہا ہے‘ دیکھیں یہ رنگ کا فرق کیا رنگ دکھاتا ہے؟ امریکہ کی اندرونی سیاست میں بھارت نہ الجھے لیکن رنگ کے فرق پر اس کی خاموشی حیران کن ہے۔ 
کہیں یہ لوٹ پاٹ پھیل نہ جائے! 
ملک کے کئی شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک بڑھ رہا ہے اور بھارت کی گنتی اب دنیا کے ان پہلے دس ممالک میں ہو گئی ہے‘ جن میں کورونا سب سے زیادہ پھیلا ہے۔ سرکار نے ریلیں‘ بسیں اور جہاز تب تو نہیں چلائے‘ جبکہ کورونا ملک میں صرف معمولی پھیلا تھا۔ اسے اب دو ماہ بعد عقل آئی ہے لیکن اب حال کیا ہے؟ سرکار نے جہاز اور ٹکٹ بیچ دیے لیکن ہوائی اڈوں اور ریلوے سٹیشنوں پر ہزاروں مسافروں کا مجمع لگ گیا ہے۔ انہیں پتا ہی نہیں کہ ان کے جہاز اور ریلیں چلیں گی یا نہیں یا کب چلیں گی؟ قریب قریب تین ہزار مزدور ٹرینیں چلی ہیں‘ جو کہ بہت اچھی بات ہے لیکن ان کا یہی پتا نہیں کہ وہ اپنی منزل پر کتنے گھنٹے یا کتنے دنوں دیر سے پہنچیں گی۔ مہاراشٹر سے چلنے والی ٹرینیں‘ جنہیں تیس گھنٹے میں بہار پہنچنا تھا‘ وہ 48 گھنٹوں میں پہنچ رہی ہیں۔ وزارت ریلوے کو شاباش ہی دی جا سکتی ہے کہ اس نے اب چالیس سے پینتالیس ٹرینیں چلا کر لاکھ لوگوں کی گھر واپسی کروا دی‘ لیکن ریلوے مسافروں کو کھانے پینے کے لیے پریشان ہونا پڑا اور یہ صورت حال دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے رہے۔ پرسوں مہاراشٹر کے پال گھاٹی سے بہار جا رہی ٹرین پریاگ راج سٹیشن پر رکی تو کیا ہوا؟ بھوک کے مارے دم توڑ رہے تھے۔ مسافروں نے پلیٹ فارم پر بک رہا سارا سامان لوٹ لیا۔ جو لوگ اپنے رشتے داروں کے لیے کھانے کے پیکٹ لائے تھے‘ وہ بھی لوٹ لیے گئے۔ ایسی ہی لوٹ پاٹ دیگر کئی سٹیشنوں پر بھی ہوئی۔ گزشتہ ہفتے سڑک چلتے کئی مزدوروں نے پھلوں اور سبزیوں کے ٹھیلے لوٹ لیے تھے۔ اگر حالات یہی رہے تو مان لیجئے کہ ملک میں لا قانونیت کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ ہمارے ہوائی اڈوں پر اسی طرح کی لوٹ پاٹ کے منظر دکھنے لگیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ مودی سرکار اس مشکل سے نمٹنے کے لیے جی لگا کر کوشش کر رہی ہے لیکن اس کا گناہ یہی ہے کہ وہ کوئی بھی نیا قدم اٹھانے سے پہلے آگا پیچھا نہیں سوچتی۔ جو غلطیاں‘ اس نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے وقت کی تھیں‘ وہی لاک ڈائون شروع کرتے اور اب اسے اٹھاتے وقت کر رہی ہے۔ ہمارے اقتداری لیڈر نوکر شاہوں سے کام ضرور لیں لیکن عوام سے اب تک وہ سیدھا رابطہ نہیں کریں گے تو ایسی غلطیاں برابر ہوتی ہی رہیں گی۔ اگر یہ مشکل غیر معمولی اور خوفناک ہے تو ہماری سیاسی پارٹیاں کیا کر رہی ہیں؟ ان کے کروڑوں کارکنان کو مقامی ذمہ داریاں کیوں نہیں سپرد کی جاتیں؟ یہ ایسا موقع ہے جبکہ ہمارے لاکھوں فوجی جوانوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں