ایمرجنسی کے 45 سال بعد ایک بار پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا بھارت میں آج بھی ہنگامی صورت حال نافذ ہے یا ایمرجنسی جیسی صورت حال ہے؟ بی جے پی کے قائدین کانگریس کے رہنمائوں پر شاہی خاندان ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں، جبکہ کانگریس کے رہنما بی جے پی کو بھائی بھائی پارٹی کہہ رہے ہیں۔ بھائی بھائی یعنی نریندر بھائی اور امیت بھائی۔ کانگریس ماں بیٹا پارٹی اور بی جے پی بھائی بھائی پارٹی۔ یہ نام میرے دیئے ہوئے ہیں‘ لیکن ان ناموں کا سہرا اندرا گاندھی کے سر بندھتا ہے‘ اس لئے کہ اندرا گاندھی کے زمانے سے ہی بھارت کی پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بننا شروع ہو گئی تھیں۔
اندرا گاندھی سے پہلے بھارت کی آل انڈیا پارٹیوں میں بڑے رہنما ہوتے تھے اور ان پارٹیوں میں کھلی بحث ہوتی تھی۔ ان پارٹیوں میں داخلی جمہوریت کا ماحول تھا۔ ہر پارٹی میں قائدین کے مابین اختلافات ہوتے تھے، جن پر وہ پارٹی پلیٹ فارم کے علاوہ عوامی سطح پر اظہار خیال کر دیتے تھے۔ اس حوالے سے اکثر بحث مباحثہ ہوتا رہتا تھا۔ نہرو اور پٹیل، ڈانگے اور نمبوتری پاد، بلراج مدھوک اور اٹل بہاری واجپائی، لوہیا اور جے پرکاش، آچاریہ کرپلانی اور اشوک مہتا اور اندرا گاندھی اور نج لنگپا کے درمیان ہونے والی بحثیں کیا ہم بھلا سکتے ہیں؟ یہ سارا عمل عرصے تک جاری رہا تھا‘ لیکن اندرا گاندھی جی نے 1969 میں جیسے ہی کانگریس توڑی، کانگریس کی شکل پرائیویٹ لمیٹڈ پارٹی جیسی ہو گئی۔ دیواکانت بروا کا مشہور جملہ ''اندرا از انڈیا‘‘ یاد ہے یا نہیں؟
بھارت کے وزرائے اعظم میں، اندرا گاندھی میری رائے میں بھارت کی سب سے با اثر وزیر اعظم تھیں، لیکن ان کے طرز حکمرانی نے بھارتی پارٹی نظام کو بالکل غیر جمہوری بنا دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے بعد ان کے بیٹے راجیو کو وزیر اعظم انہوں نے نہیں، صدر جمہوریہ گیانی زیل سنگھ نے بنایا تھا، لیکن انہوں نے اپنے دور میں کسی بھی رہنما کو ابھرنے نہیں دیا۔ پارٹی نے قائد کے عہدے کے لئے کبھی بھی آزاد داخلی انتخابات نہیں کروائے۔ یہی حال سبھی پارٹیوں کا ہو گیا ہے۔ ہمارے ملک کی ریاستی پارٹیاں تو راج گھرانے کے ڈھانچے پر ہی چل رہی ہیں۔ یہ سب پارٹیاں باپ بیٹا پارٹی، میاں بیوی پارٹی، سسر داماد پارٹی، چاچا بھتیجا پارٹی اور بھائی بہن پارٹی کے ڈھانچوں پر کھڑی ہیں۔ ان میں اصول، نظریہ، پالیسی اور پروگرام کی بنیاد اقتدار سے محبت اور موقع پرستی ہے۔ ان پارٹیوں میں نہ تو داخلی کنٹرول ہے اور نہ ہی بیرونی! یہی وجہ ہے کہ بھارتی سیاست تکبر اور بد عنوانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وہ کاجل کی کوٹھری بن گئی ہیں۔ پارٹیوں کے لیڈر تانا شاہ بن جاتے ہیں۔ کانگریس جیسی عظیم پارٹی کی آج جو صورت حال ہے، کیا اس پر کوئی پارٹی کارکن منہ کھول سکتا؟ یہی صورت حال آج تمام جماعتوں کی ہو گئی ہے۔ کوئی بھی استثنیٰ نہیں ہے لیکن کیا ہم اسے ایمرجنسی کہہ سکتے ہیں؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ان دنوں اپوزیشن روز ایک سے ایک سطحی الزام وزیر اعظم اور حکومت پر عائد کرتی ہیں، لیکن اس کا بال بھی کوئی بیکا نہیں کر رہا ہے۔ وہ ٹی وی چینل اور اخبارات جو اپنے آپ پسر گئے ہیں، ان کی بات اور ہے لیکن اگر مودی کے دورِ اقتدار میں ایمرجنسی نافذ ہوتی تو میرے جیسے آزاد خیال صحافی یا تو دوسری دنیا میں پہنچ جاتے یا جیل کی ہوا کھاتے۔ مطلب یہ کہ انہیں کچھ کہنے کی آزادی ہوتی اور نہ ہی کچھ لکھنے کی۔ اس کے باوجود حالات میں کچھ تو بہتری آنی چاہئے۔ اگر کچھ لوگ ایمرجنسی جیسی صورت حال محسوس کرتے ہیں تو اس تاثر کا خاتمہ ہونا چاہئے اور ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری نریندر مودی کی ہی ہے۔
نیپالی پارلیمنٹ سے ہندی زبان اور دھوتی کا اخراج
نیپال کے وزیر اعظم کھڑگ پرساد اولی خود کو ایک کمیونسٹ کہتے ہیں، لیکن اپنی کھال بچانے کے لئے اب انہوں نے ایک بنیاد پرستانہ قوم پرستی کا چولا پہن لیا ہے۔ اب وہ نیپالی پارلیمنٹ میں ہندی بولنے اور دھوتی کرتا پہننے پر پابندی لگائیں گے۔ ان کی نیپال کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنمائوں پشپ کمل دہل 'پرچنڈ‘ اور مادھو نیپال نے انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کے لئے ہاتھ ملا لیا ہے اور اس سلسلے میں کوششیں شروع کر دی ہیں۔ غالباً اسی کی بنیاد پر نیپالی وزیر اعظم نے الزام لگایا کہ جب سے انہوں نے نیپال کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا ہے، جس میں بھارت کے اترا کھنڈ ریاست کے کچھ علاقوں کو نیپال کا علاقہ دکھایا گیا ہے، اس کے بعد سے ہی ان کو برطرف کرنے کی سازشیں شروع ہو گئی ہیں۔ نیپال اور بھارت کے مابین تنازعہ کے بارے میں تو سب جانتے ہی ہیں۔ کالا پانی کا سرحدی علاقہ بھارت اور نیپال کے درمیان متنازعہ حیثیت کا حامل ہے۔ نیپالی حکومت نے اس سارے علاقے کو اپنا علاقہ قرار دیا ہے اور واضح کیا کہ سڑک کی تعمیر نیپالی اور بھارتی وزرائے اعظم کے درمیان پائی جانے والی مفاہمت کے بھی منافی ہے۔ بہرحال ان دونوں سابق وزرائے اعظم نے اولی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور ہندوستان دونوں کے ساتھ ملی بھگت کر رہے ہیں اور وہ ہند، نیپال سرحد کے بارے میں اپنی دم دبائے رکھتے ہیں۔ وہ محب وطن نیپالی وزیر اعظم کی طرح کیوں نہیں گرجتے ہیں؟ انہوں نے 500 ملین امریکی ڈالر کے مہا پتھ بلڈنگ پروجیکٹ کو کیوں قبول کیا ہے اور وہ لیپولیکھ سیکٹر کے بارے میں بھارت کے ساتھ نرم موقف اپنا رہے ہیں۔ اولی، جو ہندوستان کے ساتھ سرحدی تنازعہ پر بات چیت کے حق میں تھے، نے اب سخت رویہ اختیار کر لیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف ہندوستان پر طنز کیا ہے بلکہ اس نے اپنے آئین میں بھی ترمیم کی ہے اور کچھ ہندوستانی علاقوں کو نیپال کا ایک حصہ بنا دیا ہے۔ صرف یہی نہیں، اب وہ قوانین بنا رہے ہیں کہ اگر کوئی نیپالی کسی ہندوستانی سے شادی کرے گا تو اس ہندوستانی کو (چاہے وہ دلہا ہو یا دلہن) سات سال بعد نیپال کی شہریت ملے گی۔ ہندوستان کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ہند نیپال تعلقات کو روٹی اور بیٹی کا رشتہ قرار دیا تھا اور اولی اب اس کو کھٹائی میں ڈال رہے ہیں۔ 'پرچنڈ‘ کے لوگ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اولی حکومت خاموش رہ کر اور نیپالی کانگریس نے پارلیمنٹ میں قرارداد لا کر بہت سے نیپالی دیہات کو چین کے حوالے کر دیا ہے۔ نیپال اس طرح کے کمزور اور بز دل وزیر اعظم کو کیوں برداشت کر رہا ہے؟ اس کے علاوہ، حکمران کمیونسٹ پارٹی کے کچھ رہنمائوں کے اکسانے کی وجہ سے، اولی حکومت کو بد عنوانی کے شدید الزامات کا بھی سامنا ہے۔ ایسی صورت حال میں اولی اپنے آپ کو انتہائی بنیاد پرست قوم پرست ثابت کرنے میں مصروف ہیں تاکہ ان کے لئے بچت کی کوئی صورت بن سکے۔ مجھے نیپال کے کچھ ممبران پارلیمنٹ اور میرے دوست وزرا نے یہ بھی بتایا تھا کہ اب اولی کی تازہ چال یہ ہے کہ نیپالی پارلیمنٹ میں ہندی بولنے اور دھوتی کرتا پہننے پر پابندی لگائی جائے گی۔ ممبران پارلیمنٹ کے لئے نیپالی زبان بولنا اور نیپالی لباس (ٹوپی، ڈورا اور سرووال) پہننا لازمی ہو گا۔ تقریبا 28-30 سال پہلے میں نے نیپال کی پارلیمنٹ میں ہندی اور دھوتی کرتا کی چھوٹ کے لئے مدھیسی رہنما گجیندر نارائن سنگھ اور سپیکر پارلیمنٹ دمن ناتھ ڈونگنا سے پہل کروائی تھی۔ وہ دونوں میرے اچھے دوست تھے۔ اگر اولی نے اسے ختم کر دیا تو نہ صرف نیپال کے لاکھوں مدھیسی عوام ان کے خلاف ہو جائیں گے، بلکہ 'جنتا سماج وادی پارٹی‘، جس میں سابقہ کمیونسٹ وزیر اعظم بابو رام بھٹا رائی اور ہیسلا یامی جیسے رہنما بھی ہیں، ان کی سخت مخالفت کرے گی۔ اولی جی، یہ اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ ان کا یہ قدم 2015 کی ناکہ بندی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ چین انہیں بچا نہیں سکے گا۔