ان دنوں مشکلات کے بہت سے چھوٹے بڑے بادل ایک ساتھ مل کر بھارت پر منڈلا رہے ہیں۔ کورونا، چین کے ساتھ سرحدی مسائل اور لاک ڈائون کی پریشانیوں کے ساتھ اب لاکھوں تارکینِ وطن مزدوروں کی واپسی کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت آٹھ لاکھ بھارتی خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ کورونا میں پھیلی بیروزگاری کا شکار سینکڑوں ہندوستانی ان ممالک سے واپس ہندوستان لوٹ رہے ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہے لیکن بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ ان ممالک کے حکمرانوں پر دبائو ہے کہ وہ غیر ملکی کارکنوں کو بھگا دیں تاکہ وہاں کے مقامی لوگوں کی ملازمت میں اضافہ ہو سکے۔ آج کل جب میں ان ممالک کے بہت سارے اعلیٰ درجے کے شیخوں سے بات کرتا ہوں تو وہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ان کے بچے ابھی بیرونِ ملک سے واپس آئے ہیں کیونکہ غیر ملکیوں نے اپنے ہی ملک میں تمام اچھی ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس اثاثے پر پہلا ٹھوس حملہ کویت نے کیا۔ کویت میں مقامی باشندوں کی تعداد صرف 13 لاکھ ہے جبکہ آج وہاں 43 لاکھ افراد مقیم ہیں‘ یعنی وہاں غیر ملکیوں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے۔ کویت میں کویتیوں سے زیادہ ہندوستانی ہیں‘ یعنی 1.5ملین۔ کویت کے وزیر اعظم شیخ الصباح کا کہنا ہے کہ کویت میں 30 فیصد غیر ملکی اور 70 فیصد کویتی رہیں! یہ ایک مثالی صورت حال ہو گی۔ اگر کویت کی پارلیمنٹ نے اس سوچ کی بنیاد پر کوئی قانون نافذ کیا تو 7-8 لاکھ ہندوستانیوں کو نوکری چھوڑ کر ہندوستان آنا پڑے گا۔ یہ ہندوستانی فی الحال کویت سے ہر سال اربوں ڈالر ہندوستان بھیجتے ہیں۔ اگر کویت نے کوئی سخت فیصلہ لیا تو اسے دیکھ کر بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، عمان اور قطر جیسے ممالک بھی ایسے ہی اعلانات کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو 40-50 لاکھ افراد کو ہندوستان میں نوکریاں کس طرح ملیں گی اور اگر کچھ کو مل گئیں تو پھر انہیں اتنا پیسہ کون دے سکے گا جتنا وہ دوسرے ممالک سے حاصل کرتے ہیں؟ اکیلے کیرالہ سے 21لاکھ افراد خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ باقی ریاستوں سے ان کی تعداد کیا ہو گی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کے بحران کی وجہ سے، ان بہت ہی دولت مند قوموں کی معیشتوں کو بھی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن انہیں اتنا سمجھنا چاہئے کہ تارکین وطن مزدوروں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خون اور پسینے سے ان ممالک کی معیشت کو سیراب کیا ہے۔ اس کے علاوہ، کیا اتنی بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کو ہٹانے کی وجہ سے ان ممالک کی معیشت بری طرح مزید متاثر نہیں ہو گی؟ ذرا خلیج کے شیوخ کے بارے میں ہی سوچئے، کیا عرب وہاں کے وہ چھوٹے چھوٹے کام کرنا پسند کریں گے جو ہندوستانی خوشی خوشی وہاں کرتے ہیں؟ ایسے عجلت میں کئے گئے فیصلوں سے یہ ممالک نہ صرف اپنے لئے بحران پیدا کر لیں گے بلکہ ہندوستان کے لئے بھی ایک نیا سر درد بنا دیں گے۔
راجستھان میں کانگریسی دنگل
لگتا ہے کہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت اور نائب وزیر اعلیٰ سچن پائلٹ کے مابین دنگل اب ختم ہو گیا ہے۔ سچن کو نائب وزارت اعلیٰ اور کانگریس کے صدر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اب بھی اگر سچن کانگریس میں رہتے ہیں اور ایم ایل اے بھی بنے رہتے ہیں تو یہ ان کے لئے شرم کا مقام ہے۔ اگر وہ اب کانگریس چھوڑ دیتے ہیں تو کیا کریں گے؟ اگر وہ کانگریس سے باہر رہ کر گہلوت حکومت کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں راجستھان کی بی جے پی میں جانا پڑے گا۔ جس طرح بی جے پی نے مدھیہ پردیش میں کانگریسی حکومت کو جیوترادتیہ سندھیا کی مدد سے گرایا، راجستھان میں بھی وہی کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اگر راجستھان میں ایسا ہوتا ہے تو سچن پائلٹ اور بی جے پی کو بہت ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بی جے پی کے کچھ رہنمائوں نے سچن کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے جبکہ کچھ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی میں پاور ٹیسٹ ہونا چاہئے۔ ان قواعد سے یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ ہندوستانی سیاست میں نظریہ اور اقدار کے دن ختم ہو چکے ہیں۔ وہ لوگ جو کانگریس اور بی جے پی کے قائدین پر تنقید کرنے کے لئے اپنا گلا پھاڑتے رہتے ہیں، وہ کرسی کی خاطر فوری طور پر ایک دوسرے کو گلے لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راجستھان میں کانگریس کی جیت میں سچن پائلٹ کا بہت بڑا کردار ہے لیکن اس ساکھ کے پیچھے اس وقت کی بی جے پی حکومت کی غیر مقبولیت کارفرما تھی۔ کانگریس کے صدر جواب دے سکتے ہیں کہ سچن کو وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنایا گیا، لیکن اگر سچن نے نائب وزیر اعلیٰ بننا قبول کر لیا تو پھر انہیں صبر کرنا چاہئے تھا۔کانگریس کی مرکزی قیادت کے نااہل ہونے کا زندہ ثبوت سندھیا اور پائلٹ ہیں۔ یہاں تک کہ اگر گہلوت حکومت، جو ایک اچھا کام کر رہی ہے، اپنی میعاد پوری کرتی ہے، تو بھی یہ بات واضح ہے کہ مرکزی سطح پر کانگریس کی قیادت بہت کمزور ہو گئی ہے۔
ایران کو چین کا لالچ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 'مہربانی‘ ایک ایسی چیز ہے جو ایران کو چین کی گود میں ڈال دے گی۔ نیویارک ٹائمز نے ایک دستاویز کا انکشاف کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چین آئندہ 25 برسوں میں ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ آپ یہ جان کر دنگ رہ جائیں گے کہ یہ رقم کس کس شعبہ میں خرچ ہونے کیلئے استعمال ہو گی۔ چینی رقم کا ایران میں ریلوے، سڑکیں، پل، بندرگاہوں وغیرہ کی تعمیر کیلئے استعمال ہو گا۔ اگر چین کا بس چلے تو وہ ایران کے بینکوں، ٹیلی مواصلات اور فوجی ضروریات پر بھی حاوی ہونا چاہے گا۔ ایران کے توسط سے وہ جنوبی اور وسطی ایشیا کی اقوام میں اپنی سٹریٹیجک موجودگی بڑھانے کی پوری کوشش کرے گا۔ 2000 تک، جنوبی ایشیاء کے ساتھ چین کی تجارت صرف 5.57 بلین ڈالر تھی۔ یہ گزشتہ اٹھارہ انیس برسوں میں 23 گنا بڑھ کر 127.36 بلین ڈالر ہو گئی ہے۔ چین افغانستان میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر چین پاکستان، افغانستان اور ایران پر اپنی توجہ بڑھاتا ہے تو پھر یہ معاملہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے لئے بہت ہی تشویش کا باعث بن جائے گا اور امریکہ اس کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہو گا کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتہا پسندی اور متعصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے ایران کو چین پر اپنا انحصار بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے صدر بننے سے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ ملٹی نیشنل جوہری معاہدے کو غلط سمجھتے ہیں اور اگر وہ صدر بن جاتے ہیں تو وہ اسے منسوخ کر دیں گے۔ 2015 میں، اس معاہدے پر امریکی صدر بارک اوباما اور چھ دوسرے ممالک نے دستخط کیے تھے۔ دو سال کی سخت محنت اور پابندیوں کے خاتمے کے بعد یہ بین الاقوامی معاہدہ طے پایا تھا، لیکن ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو دستبردار کر دیا اور اس کے بعد 2018 میں ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔ انہوں نے ایران سے تیل خریدنے یا اس کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک پر بھی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں ایران کی معیشت بے حد کمزور ہو چکی ہے؛ چنانچہ ایران نے اب سٹریٹیجک تعاون کی اس تجویز کو قبول کر لیا ہے جو چینی صدر شی چن پنگ نے 2016 میں اپنے دورہ ایران کے دوران ایرانی قیادت کے سامنے رکھی تھی۔ اس وقت چین اپنا 70 فیصد تیل درآمد کرتا ہے۔ اسے اب یہ ایندھن سستا اور آسان تر ملے گا۔ اس وقت ایران چین تجارت کی مالیت صرف 23 ارب ڈالر ہے، لیکن چینی صدر کے مطابق یہ 600 ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔ اگر امسال نومبر میں امریکہ میں قیادت تبدیل ہو گئی تو وہ یقینی طور پر ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لائے گی اور اس طرح ایشیا کے اس خطے میں تنائو کم ہو جائے گا۔