"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت کو گھیرنے کی چینی حکمت عملی

چین نے وادی گلوان کے خونیں تصادم کے بعد بظاہر خاموشی اختیار کر رکھی ہے لیکن در حقیقت وہ اب بھارت کا محاصرہ کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔ محاصرے کامطلب ہے‘ ہندوستان کے پڑوسیوں کو اپنے اثر و رسوخ میں لے لو۔27 جولائی کو چینی وزیر خارجہ نے پاکستان ‘ افغانستان اور نیپال کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ایک مشترکہ ویڈیو کانفرنس منعقد کی۔یہ آن لائن کانفرنس جن دنوں ہوئی تب پاکستان کے وزیر خارجہ کورو نا سے متاثرتھے اس لیے ان کی جگہ وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور خسرو بختیارنے اس ویڈیو کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ مشترکہ اجلاس منعقد کیا گیا تھا کوروناسے لڑ نے کیلئے لیکن اس کی جو تفصیلات ہمارے سامنے آئی ہیں ان سے پتہ چلتاہے کہ اس کاصرف ایک ہی مقصدتھا اور وہ یہ کہ بھارت کو جنوبی ایشیا میں الگ تھلگ کردیا جائے۔اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ دریاؤں ‘ پہاڑوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ان چاروں ممالک کا مستقبل اور مفادات بھی باہم مربوط ہیں۔ چینی وزیر خارجہ نے زور دے کر یہ بات کہی کہ چین ان تینوں ممالک یعنی پاکستان ‘ نیپال اور افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔چینی وزیر خارجہ نے ان ممالک کے ساتھ تعاون کو تقویت فراہم کرنے کے لیے تین نکاتی پیش کش بھی کی۔ اگر چہ یہ کانفرنس اور اس میں چین کی جانب سے کی جانے والی پیش کش کورونا وبا کے حوالے سے ہے‘ مگر اس تعاون کو چین اور اس کے مذکورہ تینوں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کے تناظر میں دیکھنا بے حد اہم ہے۔ بھارت ان دنوں نیپال اور پاکستان کی جانب سے دباؤ میں ہے ‘ چین نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اس ویڈیو کانفرنس میں افغانستان کو بھی شامل کیا گیا تھا‘ مگرایران کوشامل نہیں کیا گیا‘ اس سے مجھے حیرت ہوئی ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے تینوں ممالک (پاکستان‘ نیپال ‘ افغانستان) کو بتایا اور ان کے توسط سے جنوبی ایشیاکے سارے ممالک کو پیغام دیا کہ آپ سب کیلئے بہترین مثال چین پاکستان دوستی ہے۔ اس عمدہ رشتے کی وجہ سے ان دونوں ''سٹیل فرینڈز ‘‘ نے کورونا پرفتح حاصل کرلی ہے۔ وانگ ژی نے کورونا سے لڑنے کے بہانے چین کے سٹریٹجک اہداف کوبھی شدت سے کافی آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے شاہراہ ریشم منصوبے میں افغانستان کو بھی شامل کر لیا ہے جبکہ چین اب ہندوکش کا سینہ کاٹ کر ایران تک اپنی سڑک لے جائے گا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا جنوبی ایشیامیں ہندوستان کی کوئی گہری اور طویل پالیسی ہے یانہیں؟ وہ سارے جنوبی ایشیاکو زمینی اور آبی گزرگاہوں سے جوڑنے کیلئے کیوں کوئی بڑی پالیسی نہیں بنا پا رہا ؟
بھارتی ہندو کیسے رام بھگت ہیں ؟
ایودھیا میں رام مندر کی بنیاد رکھی جا چکی ہے ۔ہمارے قائدین نے رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں عوامی مہم چلائی ‘ کیا انہوں نے رام کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے پربھی زور دیا ؟ یہاں ‘ مجھے کبیر کا وہ دوہایاد آتاہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''جوپتھرپوجے ہری ملے تو میں پوجوں پہاڑ ‘‘۔ رام کی اصل پیروی اپنے طرزِ عمل سے رام کے کردار کو پیش کرنا ہے۔ جب ایک دھوبی نے سیتا پر انگلی اٹھائی تو کیا رام نے سیتا کو آزمائش پر مجبور نہیں کیا ؟ ایسا کیوں کیا ؟ کیونکہ بادشاہ یا ملکہ یا شہزادوں کا کردار شک و شبہ سے بالاتر ہونا چاہیے۔ انہیں پورے ملک اور تمام لوگوں کے لیے مثالی ہونا چاہیے‘ یہی سچی جمہوریت ہے‘ لیکن ہمارے قائدین کیسے ہیں ؟ دھوبی کی انگلی نہیں ‘ مخالف پہلوانوں کی لاٹھی کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ ملک کے قائدین طرح طرح کے سودوں میں دلالی کھاتے ہیں ‘ ان پر الزام لگتے ہیں ‘ قانونی کارروائی ہوتی ہے اور وہ بری ہوجاتے ہیں۔رام نے دشرتھ سے کئے عہد کی تکمیل کیلئے تخت ترک کردیا اور جنگل میں چلے گئے ‘ لیکن آج کے رام بھگت رام دشرتھ کوتاک پررکھ کرتخت پر قبضہ کرنے کیلئے کسی سے بھی ہاتھ ملانے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ونواسی رام نے کس کس کو گلے نہیں لگایا ؟ انہوں نے ذات پات ‘ نسل ‘ انسان اور جانور کے امتیاز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ‘ لیکن رام نام کے نعرے لگانے والے ہمارے تمام قائدین کیا کرتے ہیں ؟ رام نے لنکا کو فتح کیا لیکن خود تخت پر نہیں بیٹھے اور نہ ہی انہوں نے لکشمن‘ بھرت یا شتروگھن کو تخت پربٹھایا۔ انہوں نے لنکاکو وبھیشن کے حوالے کیا‘ لیکن بھارت میں خاندان کا بول بالا ہے۔ماں بیٹا پارٹی‘ بھائی بھائی پارٹی ‘ باپ بیٹا پارٹی اور شوہر بیوی پارٹی بن چکی ہے۔ رام نے بادشاہت کو جمہوریت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ‘ لیکن ہم رام بھگت ہندوستانی جمہوریت کو خاندانی نظام میں تبدیل کرناچاہتے ہیں! ہم کیسے رام بھگت ہیں‘ جن کے ہاتھوں ملک کی اقلیتیں اور ان کی عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں ہیں؟؟
راجستھان کی سیاست 
اب ایسا لگتا ہے کہ راجستھان کی سیاست جلد ہی پٹری پر آجائے گی۔ گورنر کلراج مشراکے بیان کا خیرمقدم ہے کہ وہ اسمبلی اجلاس بلانے کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ان کی تینوں شرائط قابلِ غورہیں‘اور ان تینوں کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت منطقی اور تسلی بخش جواب دینے کے پابند ہیں۔ اسی کے مطابق عدالتوں کے سابقہ احکامات اور آئین کے آرٹیکل 174 کے مطابق گورنر عام طور پر اسمبلی اجلاس بلانے سے نہیں روک سکتے۔ ان کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ کابینہ کے مشورے پر عمل کریں۔تاہم ‘ وزیر اعلیٰ گہلوت نے صدر اور وزیر اعظم سے درخواست کرڈالی ہے اور راج بھون کے گھیراؤ کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ وہ چاہتے تو وہ خود ہی تمام ایم ایل ایز کو اسمبلی بلڈنگ یا کسی اور عمارت میں جمع کرتے اور اپنی اکثریت پورے ملک کو دکھاتے۔ راج بھون اور عدالتیں دونوں ہی دیکھتے رہ جاتے۔ہندوستانی جمہوریت کیلئے یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ کورونا کے بحران کے دوران راجستھان جیسی ریاست کی حکومت معلق ر ہے۔ گورنر کلراج مشرا اپنے تدبر اور نرمی کیلئے مشہور ہیں لیکن گورنر کایہ پوچھنا کہ آپ اسمبلی کا اجلاس کیوں طلب کرنا چاہتے ہیں ‘ بہت حیرت کی بات ہے۔ یہ بھی ناقابل ِ فہم ہے کہ21 دن کا نوٹس اسمبلی اجلاس کیلئے طلب کریں۔ 15 دن پہلے ہی برباد ہوگئے ‘ اب جے پور 21 دن گھوڑے کی منڈی بنی رہے ‘ یہ کیابات ہوئی ؟ کلراج مشرا کے سامنے مدھیہ پردیش کے آنجہانی گورنر لال جی ٹنڈن کی مثال ہے‘ انہوں نے 21 دن نہیں ‘ 21 گھنٹے بھی نہیں لیے۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 21 دن تک اس کوطول دیاجائے تا کہ سچن پائلٹ کے گروپ کو بچایا جاسکے۔ اگر سچن دھڑا کانگریس کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو وہ جیت جائے گا ‘ اور اگر اپوزیشن میں ووٹ دیتا ہے تو وہ اسمبلی سے باہر ہوجائے گا۔ لیکن جو کچھ بھی ہونا ہے ‘ وہ اسمبلی کے ایوان میں ہونا چاہئے۔ راج بھون اور عدالتوں میں نہیں۔ اگر گہلوت کی حکومت گرنی ہے تو اسے اسمبلی میں گرنا چاہئے۔ گورنر کایہ پوچھنا بالکل جائز ہے کہ ودھان سبھا کی عمارت میں ایم ایل اے کے مابین جسمانی فاصلہ کیسے ہوگا۔ اس کو حل کرنا مشکل نہیں ہے‘ لیکن اگر اس مسئلے کا کوئی بہانہ بنا دیا جائے گا ‘ تو لوگ یہ بھی پوچھیں گے کہ کیا آپ نے صرف کمل ناتھ حکومت کو گرانے کیلئے لاک ڈاؤن کے اعلان میں تاخیر کی تھی؟ بہرحال اب جبکہ راجستھان اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو امید کی جاتی ہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت کے وقار کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں