بھارتی حکومت نے گزشتہ روز دو اہم اعلانات کیے۔ ایک کا تعلق ملک کے تحفظ اور دوسرے کا کسانوں سے ہے۔ کسان کسی بھی ملک میں پسماندہ رہے ہیں، لیکن اگر اس ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو روزی روٹی میسر ہو اور انہیں تحفظ حاصل ہو تو اسے بھی ایک بڑی کامیابی قرار دیا جائے گا۔ حکومت تعلیم اور صحت کی بہتری کے لئے کچھ اقدامات کر رہی ہے، لیکن وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا یہ اعلان بہت سے معاملات میں بہت اہم ہے کہ اب بھارت میں 101 اسلحہ اور فوجی ساز و سامان تیار کیا جائے گا‘ بیرون ملک سے نہیں خریدا جائے گا۔ ان آلات کی مالیت 4 لاکھ کروڑ روپے ہے؛ اگرچہ ان تکنیکی آلات کی خریداری پر فوری پابندی عائد نہیں ہو گی۔ راج ناتھ سنگھ کی وزارت جان بوجھ کر آہستہ آہستہ ان پابندیوں کو نافذ کرے گی۔ اگلے پانچ سالوں میں ان پر مکمل عمل درآمد ہو گا۔ معیشت کے لئے یہ ایک تاریخی اقدام ہو گا۔ اس کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک، ہندوستان کا بیرونی ممالک پر انحصار کم ہو گا۔ پچھلے پانچ سالوں میں، ہندوستان نے 3.50 لاکھ کروڑ خرچ کر کے اسلحہ خریدا تھا۔ دوسرا، غیر ملکی اسلحہ خریدنے میں جو ٹھگی ہوتی ہے، اس سے بھارت محفوظ رہے گا۔ تیسرا، جب ہم غیر ملکی ہتھیاروں کے خلاف خود ہتھیار بنائیں گے، تو وہ ہماری ضروریات کے مطابق بنائے جائیں گے۔ چوتھا، ان ہتھیاروں کی فائر پاور اور رازداری کے بارے میں صرف ہمیں معلوم ہو گا، کسی غیر ملکی طاقت کو نہیں۔ پانچواں، ہندوستان اس وقت تقریباً ڈیڑھ درجن ممالک میں چھوٹے ہتھیار برآمد کرتا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اگلے پانچ سات سالوں میں، ہندوستان تیسری دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا سوداگر بن جائے۔ چھٹا، اب حکومت نے اسلحہ سازی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حد کو 49 فیصد سے بڑھا کر 74 فیصد کر دیا ہے۔ ہندوستان میں ہتھیاروں کی تیاری کے لئے غیر ملکی سرمائے کی بھی آمدنی بہت زیادہ ہو گی۔ جہاں تک زراعت کا تعلق ہے، حکومت پہلے بھی کسانوں کو مختلف سہولیات کی فراہمی کے اعلانات کرتی رہی ہے، لیکن وزیر اعظم نے اس بار صرف ایک لاکھ کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ کاشت کاروں کی پیداوار کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ہندوستان میں ہر سال کروڑوں روپے کے پھل، سبزیاں اور اناج سڑ جاتے ہیں۔ ملک میں ان کو رکھنے‘ ذخیرہ کرنے اور ان کی دیکھ بھال کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے۔ اب کسان اپنے دیہات میں کولڈ سٹوریج کا انتظام کر سکیں گے۔ انہیں 2 کروڑ تک قرض ملے گا۔ کسان اب اپنا سامان کسی بھی منڈی یا بازار میں بیچ سکتے ہیں۔ سٹوریج کی یہ سہولت ان کے لئے سونے پر سہاگہ ثابت ہو گی۔
راجستھان: کانگریس کی کھوکھلی قیادت
راجستھان کانگریس کے دونوں دھڑوں... گہلوت اور سچن... میں مفاہمت ہوئی ہے، لیکن یہ کہاوت ہے کہ 'کانی کی شادی میں سو خطرے ہیں‘ اگر دونوں کے مابین صلح ہوئی ہے تو کانگریس ہائی کمان نے تین رکنی کمیٹی کیوں تشکیل دی ہے؟ کیا یہ کمیٹی سچن پائلٹ کو انہیں دوبارہ ریاستی صدر اور نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا مشورہ دے گی؟ اگر نہیں تو کیا سچن کو گہلوت کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑے گا، جسے میں نے پہلے ہی زندہ مر جانا کہا تھا۔ مجھے یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ سچن دھڑے کے 18 میں سے 10 ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم ہونے سے خوفزدہ تھے۔ اگر یہ گروہ کانگریس کے خلاف 14 اگست کو ہونے والے پاور ٹیسٹ میں ووٹ دیتا یا وہ فرمان کے باوجود موجود نہ ہوتا تو اس کی رکنیت ختم ہو جاتی اور پھر ضمنی انتخاب میں کون جیتتا اور کون ہارتا؟ یوں بھی سچن دھڑے کے بغیر، گہلوت کو اکثریت کی حمایت حاصل ہو ہی جاتی۔ اب سچن کو دیکھنا ہے کہ اس کے گروہ کے کتنے لوگ اس کے پاس رک سکیں گے۔ اگر غالب کے شعرکو سچن الٹا پڑھیں تو یہ ان پر بالکل فٹ بیٹھے گا ''بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے میں ہم پھر داخل ہو گئے‘‘ سچن دھڑے نے اپنی لا علمی کی وجہ سے اپنی عزت کم کر لی ہے۔ اس ڈرامے نے مقننہ کی قدر بھی کم کر دی ہے اور عدلیہ کی مداخلت میں اضافہ بھی کیا ہے۔ کانگریس پارٹی کی مرکزی قیادت پر بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ وہ اس حقیقت پر پردہ ڈال سکتی ہے کہ انہوں نے راجستھان کانگریس کے دونوں دھڑوں میں صلح کرا دی ہے‘ لیکن اس مجبوری کا نام راہل گاندھی ہے۔ اس لیڈرشپ میں اتنی طاقت کہاں ہے کہ وہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہہ سکے؟ پنجاب کانگریس کو بھی بحران کے بادل کا سامنا ہے۔ اگر کانگریس کی مرکزی قیادت اسی طرح مفلوج رہتی ہے، تو معلوم نہیں کہ کانگریس کے زیر اقتدار ریاستوں میں کتنا عدم استحکام پیدا ہو گا۔ کانگریس کی کھوکھلی قیادت پتہ نہیں کیا کیا گل کھلائے گی۔
ٹرمپ کی ٹوپی میں مور پنکھ اور بچھو
امریکہ پچھلے دو دنوں میں ایک بار گرا اور ایک بار اٹھا ہے۔ پہلی بار وہ بیدار ہوا جب اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) ایک معاہدے پر پہنچے اور جب وہ سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف بری طرح شکست کھا گئے تو وہ گر گیا۔ اسرائیل کی بنیاد 1948 میں رکھی گئی تھی، لیکن مغربی ایشیاء کی صرف دو اقوام نے ہی اسے سفارتی طور پر تسلیم کیا تھا۔ یہ ملک تھے: پہلا‘ مصر اور دوسرا‘ اردن۔ یہ دونوں اسرائیل کی ہمسایہ ممالک ہیں۔ ان دونوں کی اسرائیل کے ساتھ زبردست جنگ ہوئی ہے۔ ان جنگوں میں، اسرائیل نے دونوں کی سرزمین پر قبضہ کیا، لیکن 1978 میں مصر اور 1994 میں اسرائیل کے ساتھ صلح نامہ طے پایا اور سفارتی تعلقات قائم ہو گئے۔ اسرائیل نے مصر کو سینا کا علاقہ لوٹا دیا اور اردن نے مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی حکومت قائم کرا دی، لیکن اسرائیل کو متحدہ عرب امارات، ابو ظہبی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں کچھ بھی قربان نہیں کرنا پڑا۔ ابو ظہبی نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے انہیں یقین دلایا ہے کہ مغربی کنارے کے وہ علاقے جو وہ اسرائیل میں ضم کرنا چاہتی ہے‘ وہ ایسا نہیں کرے گی۔ یہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی حکومت سے منسوب کیا جا رہا ہے، جو اس کے لحاظ سے معقول ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال پولینڈ میں ایران کے خلاف متعدد ممالک کی ایک کانفرنس طلب کی تھی‘ جس میں اسرائیل کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کے کچھ ممالک نے بھی شرکت کی تھی۔ اسی دوران اسرائیل اور ابو ظہبی کی قربت کا آغاز ہوا۔ ایران اور ترکی اس معاہدے سے سخت ناراض ہیں، لیکن ٹرمپ اس معاہدے کو امریکہ کے اگلے صدارتی الیکشن میں اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معاہدہ یقینی طور پر ٹرمپ کی ٹوپی میں مور کا پنکھ بن گیا ہے؛ تاہم سلامتی کونسل نے ٹرمپ کے اس جوش کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔ امریکہ نے ایران پر اسلحہ کی پابندی میں اضافے کی تجویز پیش کی تھی، لیکن صرف ایک ممبر نے اس 15 رکنی سکیورٹی کونسل میں اس کی حمایت کی۔ اس ملک کا نام ہے‘ ڈومینیکن ریپبلک۔ یہ ایک چھوٹا سا اہم ملک ہے‘ لیکن اس نے امریکہ حمایت کی ہے۔ اس طرح گزشتہ 75 سالوں میں امریکہ نے پہلی بار اپنی شکست دیکھی ہے۔ یوں ڈیموکریٹک امیدواروں‘ جو بائیڈن اور کملا ہیرس کے جیتنے کے امکانات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب دنیا بھر کی اقوام بگ ٹرمپ کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہی ہیں۔ چین نے حال ہی میں ایران کے ساتھ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور روس کے ولادی میر پوٹن نے بھی ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے پر ایک سربراہی اجلاس بلانے کی تجویز دی ہے۔ ٹرمپ کی ٹوپی میں یہ ناکامیاں ایک بچھو کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔