بھارتی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی بنا کر قابل ستائش کام کیا ہے، لیکن ایسا کرنے میں چھ سال کیوں لگے؟ بی جے پی پہلے دن سے ہی ہندوستان کے نظام تعلیم میں اصلاحات پر زور دے رہی ہے۔ بی جے پی سے پہلے جن سنگھ اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میکالے کے تعلیمی نظام کی مستقل مخالفت کرتی رہی ہیں اور کانگریس حکومتوں کی تعلیمی پالیسی میں کئی بنیادی اصلاحات کا مشورہ دیتی رہی ہیں لیکن اس نئی تعلیمی پالیسی کو بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کیسے واقع ہوں گی۔ کچھ اصلاحات اور تبدیلیاں لازمی طور پر تعلیم کے ڈھانچے میں بہتری لائیں گی، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کس حد تک نیا تعلیمی نظام ''انڈیا‘‘ اور ''بھارت‘‘ کے مابین جو دیوار کھڑی ہوئی ہے، اسے توڑے گی؟ انگریزی میڈیم کے طلبا ملک کے نجی سکولوں اور کالجوں میں 'انڈیا‘ ہیں اور گورنمنٹ کے ٹاٹ پٹی سکولوں میں پڑھے لکھے دیہاتی، غریب اور پسماندہ پڑھے لکھے بچے 'بھارت‘ ہیں۔ انڈیا اس بھارت کے سینے پر سوار ہے۔ اس ڈبل ایجوکیشن پالیسی کو کیسے ختم ہونا چاہئے؟ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ملک کے تمام غیر سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر پابندی لگائی جائے۔ پوری تعلیم کو سرکاری بنایا جائے۔ ایسا کرنے سے بہت سارے ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس میں بہت ساری عملی مشکلات ہیں لیکن میں نے پانچ چھ سال قبل ملک میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کا ایک نیا طریقہ تجویز کیا تھا، جس میں بعد میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ وہ مشورہ یہ ہے کہ تمام افراد جن کو سرکاری تنخواہ ملتی ہے، صدر سے لے کر چپڑاسی تک، ان کے بچوں کو سرکاری سکولوں اور کالجوں میں تعلیم دی جائے۔ پھر دیکھئے کیسے معجزہ ہوتا ہے اور کیسے بھارت کے حالات بدلتے ہیں؟ راتوں رات تعلیم کی سطح بہتر ہو گی۔ ہماری وزارت تعلیم کم از کم یہی بتا دے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہمارے کتنے ججز، وزرا، ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی، ممبران کونسلر، افسر اور سرکاری ملازمین کے بچے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ یہ اعداد و شمار ہی ہماری آنکھیں کھول دیں گے۔ اگر ہم ہندوستان کو ایک عظیم اور سپر پاور قوم بنانا چاہتے ہیں تو اس دو رخی تعلیمی پالیسی کو ختم کرنا ہو گا۔
کشمیری رہنمائوں کا مطالبہ!
مقبوضہ جموں و کشمیر کی چھ بڑی جماعتوں نے ایک اجلاس میں مطالبہ کیا ہے کہ دفعہ 370 اور 35 کو واپس لایا جائے‘ اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ واپس دیا جائے۔ علاوہ ازیں ان رہنمائوں کو بھی رہا کیا جائے جو ابھی تک نظربند ہیں۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی بھی یہ مطالبہ پیش کرنے والی پارٹیوں میں شامل ہیں۔ یہ فطری مطالبہ ہے اور زیر حراست اور آزاد ہونے والے‘ دونوں طرح کے رہنمائوں کو اس طرح کے مطالبات کرنے چاہئیں۔ اب اگر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں، تو کیا وہ لیفٹیننٹ گورنر کے تحت ایک لنگڑے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کر سکیں گے؟ یقیناً نہیں! اسی طرح، وزیر داخلہ امیت شا نے پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیرکو ایک بار پھر ریاست کا درجہ مل سکتا ہے۔ کشمیری رہنمائوں کو ریاست کی خصوصی حیثیت کی واپسی کے لئے جدوجہد کرنی ہو گی، لیکن یہ تب ہی ممکن ہو گا جب مقبوضہ وادیٔ جموں و کشمیر میں تمام قائدین کی رہائی کے بعد بھی امن قائم رہے۔ اگر مقبوضہ کشمیرکو خصوصی ریاست کی حیثیت مل جاتی ہے تو وہ طاقتور اور خوشحال ہو سکتی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کا گورنر دوسری ریاستوں کے گورنر سے زیادہ طاقتور ہوتا تھا۔ جہاں تک سیکشن 35 اے کا معاملہ ہے تو ایسے معاملات ناگالینڈ اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں بھی چلتے ہیں۔ جموں وکشمیر کو زمین پر جنت کہا جاتا ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ جلد ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ انسانیت اور کشمیریت کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر حل ہو گا۔ کشمیری رہنمائوں کے لئے یہ مناسب ہو گا کہ وہ کشمیریوں کی کشمیریت کو باقی رکھیں تاکہ وہ مکمل امن اور آزادی کے ساتھ اپنے مطالبات کو آگے بڑھا سکیں۔ ہندوستانی حکومت کو تمام کشمیری رہنمائوں کو رہا کرنا چاہئے‘ ان کے ساتھ پیار سے بات چیت جاری رکھنا چاہئے اور ان کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنا چاہئے۔
ہندی میں بولنے کے لئے سزا؟
وزارت آیوش کے سیکرٹری راجیش کوٹیچہ نے بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ ڈی ایم کے رہنما کنیموزھی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسے فوری طور پر معطل کر دے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جو بھی ہندی میں ان کی تقریر نہیں سننا چاہتا ہے، وہ چلا جائے۔ وہ ملک کے آیورویدک پریکٹیشنرز اور قدرتی علاج کی تنظیموں کے نمائندوں سے خطاب کر رہے تھے۔ اس سرکاری پروگرام میں مختلف ریاستوں کے 300 افراد شریک تھے۔ ان میں سے 40 کا تعلق تامل ناڈو سے تھا۔ یہ واضح رہے کہ تامل ناڈو میں اتنے عرصے سے ہندی مخالف تحریک چل رہی ہے کہ وہاں کے لوگ ہندی کو دوسرے صوبوں کے لوگوں کی نسبت کم سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ سمجھتے بھی ہیں تو نہ سمجھنے کا بہانہ کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کوٹیچہ کو وہاں مترجم کی خدمات حاصل کرنی چاہئے تھی۔ وہ پارلیمنٹ کی طرح تامل میں بھی ترجمہ کرتے رہتے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ انگریزی میں اپنے الفاظ مختصر طور پر کہہ دیتے، لیکن یہ کہنا کہ جو شخص ان کی ہندی تقریر سننا نہیں چاہتا ہے وہ نکل جائے‘ مناسب نہیں ہے۔ یہ نہ صرف حکومتی پالیسی کے خلاف ہے بلکہ انسانی نقطہ نظر سے بھی اچھا نہیں ہے۔ مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا انگریزی ہٹائو موومنٹ کے علمبردار تھے، لیکن گاندھی جی اور لوہیا جی بالترتیب انگریزی میں 'ینگ انڈیا‘ اور 'مین کائینڈ‘ میگزین شائع کرتے تھے۔ اس کے بعد، میں نے یہ تحریک ملک میں شروع کی، لیکن جب میں دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں لیکچر دیا کرتا تھا تو میرے بہت سے غیر ملکی اور تامل طلبا کے لئے، مجھے نہ صرف انگریزی بلکہ روسی اور فارسی زبان بھی بولنا پڑتی تھی۔ ہمیں انگریزی زبان کی نہیں بلکہ اس کے تسلط کی مخالفت کرنا ہو گی۔ راجیش کوٹیچہ کا ہندی میں بولنا ٹھیک معلوم ہوتا ہے کیونکہ ملک کے بیشتر وید ہندی اور سنسکرت زبان کو سمجھتے ہیں لیکن اگر تاملوں کے ساتھ ان کا رویہ بہتر ہوتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ وہ یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ کچھ ہڑدنگیوں نے صرف ماحول خراب کیا ہے، لیکن سرکاری اہلکاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے وقار کا خیال رکھیں۔ اسی طرح، کنیموزی اور تامل کے ویدوں کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ کوٹیچہ ہندی بولنے والے نہیں ہیں۔ ان کی طرح، وہ بھی غیر ہندی بولنے والے گجراتی ہیں۔ انہیں سزا دینے کا مطالبہ بے جا ہے۔ اگر یہ مطالبہ مان لیا جاتا ہے، تو پھر ہمیں ملک میں پتہ نہیںکس کس کو سزا دینا پڑے گی۔ کوٹیچہ نے کہا تھا کہ میں انگریزی اچھی طرح نہیں بولتا، لہٰذا میں ہندی میں بات کروں گا۔ جب تک ملک میں انگریزی کی غلامی جاری ہے، تب تک مٹھی بھر بھدرلوک اسی طرح ہندوستانی بولنے والوں کو ہراساں کرتے رہیں گے۔ کنیموزھی جیسی خواتین رہنمائوں کو راماسوامی نائیکر، اینادورائی اور کروناندھی سے تھوڑا آگے بڑھنا چاہئے۔ تامل کو ہرگز نہ چھوڑیں، لیکن انگریزی کے مایا جال سے آزاد ہوں۔