"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت میں حزبِ اختلاف کا منفی کردار

اس بار بھارتی پارلیمنٹ نے 8 دن میں 25 بل منظور کیے۔ ہماری پارلیمنٹ نے عجلت میں یہ قانون نافذ کیا۔ ایک لمبے عرصے کے بعد‘ میں نے ٹی وی چینلز پر پارلیمنٹ کی ایسی بے رحمانہ کارروائی دیکھی۔ مجھے پچپن ساٹھ سال پرانے دن یاد ہیں جب پارلیمنٹ میں ڈاکٹر لوہیا، آچاریہ کرپلانی، مدھو لیمے، ناتھپائی اور ہیرین مکھرجی جیسے لوگ حکومت کی بولتی بند کر دیتے تھے۔ وزرائے اعظم اور وزرا کو پسینہ پسینہ کر دیتے تھے۔ اس بار حزبِ اختلاف کے کچھ ممبرانِ پارلیمنٹ کی باتیں سن کر‘ میں ان کی بحث سے دل کی گہرائیوں سے متاثر ہوا۔ حکومت نے کسانوں سے متعلق تین بل اور صنعتی مزدوروں کے لئے تین دیگر بل پیش کیے۔ ان بلوں کا براہِ راست اثر ملک کے 80 سے 90 کروڑ عوام پر پڑتا ہے۔ ان بلوں کی کوتاہیوں کو اجاگر کیا جاتا، ان میں ترمیم کے لئے کچھ ٹھوس تجاویز پیش کی جاتیں اور ملک کے کسانوں اور مزدوروں کی تکالیف کو پارلیمنٹ میں منظور کیا جاتا تو حزبِ اختلاف کا کردار قابلِ تحسین اور تعمیری ہوتا لیکن جیسے ہی راجیہ سبھا میں ہنگامہ کھڑا ہوا، اس نے پارلیمنٹ کا وقار نیچے گرا دیا۔ اس کے نتیجے میں 25 ستمبر کو بھارت بند کا اعلان کیا گیا اور کسانوں نے ریلوے لائنیں بند کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ ہندوستان تو ویسے ہی بند ہے۔ کورونا وبا قلانچیں بھر رہی ہے۔ اب! اگر کسانوں اور مزدوروں کے مظاہروں اور تحریکوں نے زور پکڑ لیا تو وہ کورونا کا شکار ہو جائیں گے۔ اپوزیشن کے کون سے رہنما انہیں سنبھالیں گے؟ حزبِ اقتدار اور اپوزیشن‘ دونوں کے رہنما اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ بھوکے لوگوں کو کھانا تقسیم کرنے گھر سے باہر نہیں جاتے۔ سبھی پارلیمنٹ سے تنخواہ اور الائونس لے رہے ہیں لیکن ایوان میں کتنے ممبران دیکھے گئے؟ ٹھیک ہے! اب یہ بل قانون بن جائیں گے، صدر کے بھی دستخط ہو جائیں گے لیکن حکومت اور بی جے پی کا فرض ہے کہ وہ کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ براہِ راست بات چیت کرے، اپوزیشن رہنمائوں سے احترام سے بات کرے اور ماہرین سے پوچھے کہ کسانوں اور مزدوروں کے مفادات کے تحفظ کے لئے انہیں کیا دوسری دفعات بنانی چاہئیں؟ بی جے پی حکومت جو چاہتی ہے‘ اسے آنکھ بند کرکے کر ڈالتی ہے۔ اس کے پیچھے اس کے اپنے ہی مفادات ہوتے ہیں، لیکن مجھے اپوزیشن سے کہنا ہے کہ وہ ان قوانین کو کم سے کم چھ ماہ تک نافذ کرنے کی اجازت دے۔ پھر دیکھیں کہ اگر یہ ٹھیک نہیں ہیں تو پورا ملک ان کو تبدیل کرنے یا ان میں بہتری لانے کے لئے ان کا ساتھ دے گا۔ چاہے کوئی حکومت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو‘ ملک کے 80‘ 90 کروڑ لوگوں کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
کسانوں کے مسائل پر سطحی سیاست
کسانوں کے لئے لائے گئے بلوں پر راجیہ سبھا میں جس طرح کی ہنگامہ آرائی ہوئی‘ کیا اس سے بھارتی پارلیمنٹ کا احترام بڑھا ہے؟ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک بھارت ہے۔ ہمسایہ ممالک کے ممبرانِ پارلیمنٹ ہم سے کیا سیکھیں گے؟ حزبِ اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ نے ان بلوں پر معنی خیز بحث کرنے کے بجائے راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین ہری ونش پر براہ راست حملہ کیا۔ اس کا مائیک توڑا، رول بک پھاڑ دی، ہائوس میں افراتفری پھیلا دی، ایوانِ بالا کو مچھلی منڈی بنا دیا۔ یہ بل لوک سبھا میں بھی منظور ہو چکا ہے لیکن وہاں ایسی کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی تھی۔ اگر ایوانِ بالا کے آٹھ ممبران کو معطل کرنا پڑ جائے تو آپ اسے ہائوس یا اکھاڑا‘ کیا کہیں گے؟ اپوزیشن لیڈر الزام لگا رہے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر نے کسانوں کے ان قوانین کو بغیر بحث کے منظور کر کے 'جمہوریت کا قتل‘ کیا ہے اور حکمران جماعت کے رہنما اسے اپوزیشن کی 'خالص غنڈہ گردی‘ قرار دے رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ صرف وہی بل صوتی ووٹ کے ذریعے منظور کیا جاتا ہے جس پر تقریباً اتفاق رائے ہوتا ہے۔ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ کسی بل پر مناسب ووٹ کا مطالبہ کرتا ہے تو‘ صدارت کرنے والا ووٹنگ کرانے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس میں پارلیمانی ضابطوں کی پیروی نہیں کی جا سکی کیونکہ حزب اختلاف کے ممبران پارلیمنٹ نے اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کیا کہ ایوان میں انتشار پھیل گیا۔ حزب اختلاف کا خیال ہے کہ اگر یہاں ٹھیک سے ووٹنگ ہوتی تو یہ بل پاس نہ ہو پاتے۔ پچھلے 6 سالوں میں‘ حزب اختلاف کو ایک یہی معاملہ ملا ہے جس کی بنیاد پر ملک میں غلط فہمی پھیلا کر ایک تحریک کھڑی کی جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر زراعت نے واضح طور پر کہا ہے کہ پیداوار کی کم سے کم امدادی قیمتیں، منڈیاں اور منڈیوں کا نظام ویسے ہی رہے گا لیکن اب کسانوں کے لئے کھلی منڈی کے نئے آپشنز بھی کھولے جا رہے ہیں تاکہ ان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ اس نئے تجربے کے نفاذ سے پہلے، اگر ہم اسے بدنام کرنے کی کوشش کریں تو اسے ایک سطحی سیاست نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟ حکومت نے ربیع کی چھ فصلوں کی کم سے کم امدادی قیمتوں کو فی کوئنٹل50 سے بڑھا کر 300 روپے کر دیا ہے۔ مشہور کسان رہنما آنجہانی شرد جوشی کے لاکھوں پیروکاروں نے بھی اس قانون کے حق میں ایک تحریک چلائی ہے۔ میری رائے میں اس وقت یہ دونوں تحریکیں غیر ضروری ہیں۔ ذرا سوچئے! کوئی بھی سیاسی جماعت ملک کے 50 کروڑ کسانوں کو لٹوا کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا چاہے گی؟
بھارت کہیں پھسل نہ جائے!
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے افغان مذاکرات میں بھارت کی شرکت ایک اچھی علامت ہے۔ افغانستان کے بحران کو دور کرنے کے لئے خصوصی امریکی مندوب، زلمے خلیل زاد‘ چند گھنٹوں کے لئے بھارت آئے تھے، جو اپنے آپ میں ایک اہم بات ہے، لیکن اس تحریک کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ ویسے بھی خلیل زاد گزشتہ دو سال میں پانچ بار ہندوستان تشریف لا چکے ہیں۔دوحہ میں جاری بات چیت کے دوران‘ زلمے خلیل زاد کا پہلے پاکستان جانے‘ پھر بھارت آنے کا کیا مطلب ہے؟ ان کے لئے پاکستان جانا اس لئے ضروری ہے کہ وہاں طالبان کی چابی موجود ہے۔ کوئی دوسرا ملک طالبان پر اتنا دبائو نہیں ڈال سکتا جتنا پاکستان ڈال سکتا ہے۔ لیکن امریکی ایلچی بار بار کیوں ہندوستان آتا ہے؟ کیا کابل کا جھگڑا بھارت کے بغیر طے نہیں ہو سکتا؟ اس سے پہلے‘ بھارت کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ پچھلے دو تین سالوں سے‘ ہندوستان کو زیادہ پوچھا جا رہا ہے کیونکہ امریکہ اپنی بندوق بھارت کے کندھے پر رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو افغانستان سے آزاد کرنے کے بعد بھارت کے گلے پڑ جائے‘ یعنی اگر اس معاہدے کے بعد طالبان پریشان کریں تو بھارت اپنی افواج کابل بھیج دے۔ میں اس کا اندازہ کیوں لگا رہا ہوں؟ جنوری 1981ء میں جب میں نے افغانستان کے وزیر اعظم ببرک کارمل سے تین لمبی ملاقاتیں کی تھیں تو انہوں نے کہا تھا کہ آپ اندرا جی سے روسی فوجوں کے بجائے ہندوستانی فوج بھیجنے کو کہیں۔ وہ افغان مجاہدین کا مقابلہ بھی کریں گی اور پاکستان کا مقابلہ بھی کریں گی۔ میں نے اپنے قریبی دوست ببرک کو صاف طور پر کہا تھا کہ ہندوستان کبھی بھی یہ خطرہ مول نہیں لے گا۔ اس بارے میں میں نے پہلے ہی اندرا جی سے بات کر لی تھی۔ ایسی صورتحال میں بھارت کو امریکی فتنوں میں پھنسنے سے بچنا ہو گا۔ خوف یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہندوستان امریکی لالچ پر پھسل جائے۔ بہتر ہو گا اگر ہندوستان کی وزارت خارجہ اس موقع کو دو مقاصد کے لئے استعمال کرے۔ ایک تو کابل حکومت کے تمام دھڑوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو برقرار رکھنا اور دوسرا طالبان کی مختلف تنظیموں کے ساتھ براہ راست بات چیت برقرار رکھنا تاکہ وہ افغانستان میں امن کا باعث بن سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں